Home بلاگ عمران خان برطانیہ میں بھی نا اہل؟

عمران خان برطانیہ میں بھی نا اہل؟

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے انتخاب کی دوڑ سے باہر ہو گئے۔آکسفورڈ یونیورسٹی نے چانسلر کے انتخاب کے امیدواروں کی فہرست جاری کر دی ہے۔آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والی فہرست میں عمران نیازی کا نام شامل نہیں ہے۔خیال رہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے لیے 40 امیدواروں نے اپلائی کیا تھا، جن میں سے 38 امیدواروں کا نام یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ فہرست میں شامل ہیں۔ ان میںسے 12 سے 13 امیدوار پاکستانی نژاد ہیں۔ یونیورسٹی نے چانسلر بننے کی فہرست میں شامل امیدواروں کے بیانات بھی ویب سائٹ پر شائع کر دیے ہیں۔

عمران خان کے مشیر زلفی بخاری نے تحریکِ انصاف کے بانی کو بطور امیدوار منتخب نہ کیے جانے کے حوالے سے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ایک انتہائی مایوس کن خبر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ایک عالمی آواز ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ انھیں اس انتخاب میں شرکت نہ کرنے دی جائے۔ عمران خان کو چانسلر کے انتخاب میں شرکت کے لیے منتخب نہ کرنا خود آکسفورڈ یونیورسٹی کا نقصان ہے جو خود کو عالمی رجحان ساز ادارے کے طور پر پیش کرتی ہے۔

یہ ممکن ہی نہیں کہ پی ٹی آئی کاکوئی رہنماء ایک بیان پرقائم رہے ۔تحریکِ انصاف کے بانی کی جانب سے چانسلر کے امیدوارکی درخواست مقررہ مدت کے آخری دن 18 اگست 2024 کو جمع کروائی گئی جس کا اعلان زلفی بخاری ہی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کیا تھا۔اس وقت اس وقت ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کیوں نہ ان انتخابات میں حصہ لیں، یہ ایک انتہائی باوقار منصب ہے۔اس عہدے کے لیے عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائماخان اورزیک گولڈسمتھ نے بھی کافی لابنگ کی اوریہودی ووٹروں پراپنااثرورسوخ استعمال کرکے قیدی نمبر804کے حق میں مہم چلائی مگران کی لابنگ بھی کام نہ آئی یوں ایک مرتبہ پھریہودی انوسٹمنٹ ڈوب گئی ۔

یہاں یہ واضح رہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی نے عمران نیازی کی اہلیت پر رائے کے لیے معروف برطانوی قانونی فرم میٹرکس چیمبرز سے رابطہ کیا تھا۔لندن کے سینئر قانون داں ہیو ساوتھی کے مطابق بانی پی ٹی آئی آکسفورڈ یونیورسٹی کے ضوابط کے مطابق چانسلر شپ کے اہل نہیں ہیں۔اس علاوہ عمران مجرمانہ سزا پانے کے سبب بھی یونیورسٹی کی چانسلر شپ کے عہدے کے لیے اہل نہیں رہے۔یوں آکسفوریونیورسٹی نے پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں پرمہرتصدیق ثبت کی ہے جنھوں نے عمران نیازی کونااہل قراردیاتھا اورثاقب نثارنے جس تاریخی بددیانتی کامظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان کوصادق اورامین قراردیاتھا اس فیصلے کوبھی مستردکردیاہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی عمران خان تین مرتبہ اس عہدے کے لیے کوششیں کرچکے ہیں مگروہ ناکام رہے تھے ۔

اس سے پہلی معروف برطانوراخبارٹیلی گراف نے لکھا کہ عمران خان خود پسند اور چانسلر کیلئے نا اہل ہیں۔ 2018 میں ہیرا پھیری سے وزیراعظم بنے، سیاسی ظلم کا شکار نہ مظلوموں کے رہنما ہیں، انہیں 1980 کی دہائی میں ایک کرکٹر یا جریدوں میں احمقانہ داستانوں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، بے ہودہ ریکارڈ کے باوجود برطانیہ میں کچھ شخصیات اب بھی عمران خان کی حمایت کر رہی ہیں۔

اخبار نے لکھا کہ عمران خان 20 ویں صدی کے کرکٹر جنہوں نے خود کو 21 ویں صدی کے بظاہرنیم اسلام پسند جو کہ حقیقت میں ہیں نہیں کے طور پر پیش کیا، ان امیدواروں میں شامل تھے جو آکسفورڈ یونیورسٹی کا اگلا چانسلر بننے کے لیے مقابلہ کر رہے تھے لیکن پاکستان کے سابق وزیر اعظم، جو اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کرس پیٹن کی جگہ لینے کے قابل نہیں کیونکہ وہ خود پسند ہیں،اس سے قبل فنانشل ٹائمز کی طرف سے شائع ہونے والی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا کہ مالی فراڈ کے الزام میں امریکی جیل میں 291 سال کی ممکنہ سزا کا سامنا کرنے والے ایک پاکستانی نے ایک فلاحی پلیٹ فارم کے ذریعے خان کی پارٹی کو لاکھوں ڈالر کی رقم جمع کی تھی۔

یونیورسٹی نے جن امیدواروں کی حتمی لسٹ جاری کی ہے اس میں میں سدرہ آفتاب، حسنات احمد، ایہام عمورہ، ایلش انجیولینی، انور بیگ، انکور شیو بھنڈاری، نرپال سنگھ پال بھنگل، کاشف بلال، الیسٹر بروس، جارج کالغان، مارگریٹ کیسلی ہیفورڈ، گراہم کیٹلن، میی روز کونر، ایما ڈینڈی، عظیم فاروقی، میتھیو فرتھ، ڈومینک گریوو، ولیم ہیگ، لین مشیل ہیمنگ، بن یامین ایواٹس، سائمن کی، پیٹر مینڈیلسن، رین مائیک لائی، اینجی موکسہم، محمد حفیظ شیخ، شیخ آفتاب احمد جاوید، میکسم ریڈ پارر، عالم پاشا، کدیرا پیتھیاگوڈا، کشمائلہ رف، جنوری رائل، طلحہ شاہ، ابرار الحسن، ہیری سٹریٹن، تانیا تاجک، پرتک تروادی، فرانسسک ولادویسی پوپلاشی، زنگانگ وانگ اور ڈیوڈ ویلٹس شامل ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا: 2024 کے اختتام پر لارڈ پیٹن کی ریٹائرمنٹ کے بعد کانووکیشن کے اراکین، جن میں یونیورسٹی کا عملہ اور گریجویٹس شامل ہیں، اب ان کے جانشین کے انتخاب کے لیے آن لائن ووٹ ڈالیں گے۔یاد رہے کہ چانسلر کرسٹوفر فرانسس پیٹن 2003 سے اس عہدے ہر تعینات تھے جنھوں نے 31 جولائی کو استعفی دیا۔ 80 سالہ لارڈ پیٹن ہانگ کانگ کے آخری گورنر رہے اور اس سے قبل برطانوی کنزرویٹیو پارٹی کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ درخواستوں پر چانسلر کی انتخابی کمیٹی نے صرف اور صرف یونیورسٹی کے ضوابط میں وضع کردہ چار معیار پر غور کیا۔نئے چانسلر کے انتخاب کے لیے آن لائن ووٹنگ کے پہلے مرحلے کا آغاز 18 اکتوبر سے ہوگاجس میں دنیابھرسے ڈھائی لاکھ ممبران اپناووٹ کاسٹ کریں گے، ووٹنگ کے ذریعے سب سے زائد ووٹ لینے والے 5 امیدوار اگلے مرحلے میں جائیں گے۔ووٹنگ کے دوسرے مرحلے کا آغاز 18 نومبر سے ہو گا،

یہ عہدہ آکسفورڈ میں 1224 سے شروع ہوا اور 800 سال سے مسلسل جاری ہے۔آکسفرڈ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق یہ پہلا موقع تھا کہ چانسلر کے انتخاب کے لیے اوپن ایپلیکیشن پراسیس استعمال کیا گیا تاکہ مختلف پس منظر والے امیدواران سامنے آ سکیں۔عمران خان کے لیے اس مقابلے میں حصہ لینا ووٹنگ سسٹم میںاسی حالیہ ترمیم کے بعد ممکن ہوا تھاجس کے مطابق یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ اور عملے کے موجودہ اور سابقہ ارکان اب اپنا ووٹ آن لائن دے سکیں گے۔ اس حلقہ انتخاب کو کونووکیشن کہتے ہیں۔ اس سے پہلے امیدواروں اور ووٹروں کے لیے کونووکیشن میں ذاتی طور پر حاضری لازمی ہوا کرتی تھی۔

یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ چانسلر الیکشن کمیٹی نے تمام درخواستوں کو یونیورسٹی کے ضوابط کے تحت طے شدہ معیار پر پرکھا جس کے بعد 16 اکتوبر کو 38 امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کی گئی ۔نیا چانسلر رواں سال کے شروع میں نافذ ہونے والے یونیورسٹی کے قوانین میں ترامیم کے مطابق 10 سال سے زیادہ کی مقررہ مدت کے لیے عہدے پر فائز رہے گا۔تاہم یہ ایک اعزازی منصب ہے، یعنی تنخواہ اور مراعات نہیں ہوتے لیکن چانسلر پر کسی طرح کی انتظامی ذمہ داری بھی نہیں ہوتی۔تاہم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری، اہم تقریبات کی صدارت، فنڈ جمع کرنے اور مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر یونیورسٹی کی نمائندگی میں چانسلر کا کردار اہم ہے۔ وہ ایک طرح سے یونیورسٹی کا سفیر ہوتا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ آکسفرڈ چانسلر کے لیے برطانیہ میں رہنا ضروری نہیں البتہ تمام اہم تقریبات میں شرکت لازمی ہے جس کے لیے سفری اخراجات یونیورسٹی ادا کرتی ہے۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان، سابق وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو، ان کی بیٹی اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور سابق صدر فاروق احمد لغاری نے بھی آکسفورڈیونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور عمران خان نے 1972 میں آکسفرڈ یونیورسٹی کے کیبل کالج (Keble College) میں داخلہ لیا اور 1975 میں سیاسیات، فلسفے اور معاشیات میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔ اس دوران انھوں نے کرکٹ کے میدان میں یونیوسٹی کے لیے کئی اعزاز جیتے۔اس کے علاوہ آکسفوریونیورسٹی سے وابستہ دنیاکی کئی شخصیات شامل ہیں جنھوں نے یہاں سے گریجویشن کی یا درس وتدریس سے وابستہ رہے اور کسی نہ کسی شعبے میں بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ان میں 28 برطانوی وزرائے اعظم، کم سے کم 30 بین الاقوامی لیڈر، 55 نوبیل انعام یافتگان اور 120اولمپک میڈل جیتنے والے شامل ہیں۔

عمران خان دسمبر 2005 سے نومبر 2014 تک برطانیہ کی یونیورسٹی آف بریڈفرڈ کے چانسلر رہے ہیں۔یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق اپنی آٹھ سالہ چانسلر شِپ کے دوران انھوں نے یونیورسٹی میں نئے انسٹی ٹیوٹ آف کینسر تھیراپیوٹِکس کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس کے بعد سے اس انسٹی ٹیوٹ اور عمران خان کے شوکت خانم میموریل ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سینٹر کے درمیان قریبی رابطے رہے ہیں۔تاہم آخرمیں طلباء کے احتجاج کے بعدانہیں اس عہدے سے مستعفی ہوناپڑاتھا ۔

آکسفورڈیونیورسٹی کے چانسلرکے عہدے کے لیے نااہلی عمران خان اورپی ٹی آئی کے لیے بڑادھچکاہے کیوں کہ ان کے حامی یہ دعوی کرتے رہے ہیں کہ وہ پاکستان سے زیادہ مغرب اورعالمی دنیامیں زیادہ مشہورہیں اورعالمی ادارے ان پراعتمادکرتے ہیں مگراس نااہلی کے بعدوہ سارے کے سارے دعوے خاک میں مل گئے ہیں ۔

Exit mobile version