Home پاکستان ای او بی آئی ریجنل آفس گوجرانوالہ میں جعلی پنشن اسکینڈل کا...

ای او بی آئی ریجنل آفس گوجرانوالہ میں جعلی پنشن اسکینڈل کا انکشاف

خصوصی رپورٹ: نجی شعبہ کے ملازمین کو ریٹائرمنٹ، معذوری پنشن اور ان کی وفات کی صورت میں ان کے بے سہارا لواحقین کو پنشن فراہم کرنے والے قومی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن( EOBI)، زیر نگرانی وزارت بیرون ملک پاکستانی و ترقی انسانی وسائل،حکومت پاکستان کے تحت قائم ریجنل آفس گوجرانوالہ میں لاکھوں روپے مالیت کے جعلی پنشن اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے انکوائری رپورٹ کے مطابق انتہائی بدعنوان ریجنل ہیڈ کاشف ضیاء خان کی جانب سے غریب محنت کشوں سے منہ مانگی رشوت کے عوض بڑے پیمانے پر جعلی پنشن کیسز منظور کئے گئے ہیں ۔

اس تشویش ناک صورت حال کے پیش نظر چیئرمین EOBI فلائیٹ لیفٹیننٹ (ر) خاقان مرتضیٰ نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے جعلی پنشن اسکینڈل میں ملوث ریجنل ہیڈ کاشف ضیاء خان کے خلاف فوری طور پر شفاف اور غیر جانبدارانہ انکوائری کے احکامات جاری کئے تھے۔ جس پر ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی نے19اگست 2024ء کو محمد ندیم،ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز ریجنل آفس شاہدرہ لاہور کو ریجنل آفس گوجرانوالہ میں منظر عام پر آنے والے جعلی پنشن اسکینڈل کی تحقیقات کے لئے فیکٹ فائنڈنگ انکوائری افسر مقرر کیا تھا۔

ای او بی آئی کے امور پر گہری نظر رکھنے والے ادارہ کے سابق افسر تعلقات عامہ اسرار ایوبی کے مطابق انکوائری افسر محمد ندیم ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز ریجنل آفس شاہدرہ لاہور کی فیکٹ فائنڈنگ انکوائری رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ای او بی آئی کے انتہائی بدعنوان اور خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے والے بااثر افسر کاشف ضیاء خان ریجنل ہیڈ ریجنل آفس گوجرانوالہ نے مبینہ طور پر محنت کشوں سے لاکھوں روپے کی منہ مانگی رشوت کے عوض ان کے جعلی سروس سرٹیفکیٹ اور تنخواہوں کے گوشواروں کی غیر قانونی طور پر بذات خود تصدیق کرکے اور سرکاری ریکارڈ میں ہیرا پھیری اور جعلسازی کے ذریعہ بے شمار پنشن کیسز منظور کئے تھے ۔ جس سے محنت کشوں کے فلاحی ادارہ کے پنشن فنڈ کو کروڑوں روپے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

اسرار ایوبی کا کہنا ہے کہ کاشف ضیاء خان ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز اور سابقہ ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ ای او بی آئی کا ایک انتہائی متنازعہ اور بدنام زمانہ افسر ہے جسے پچھلے دنوں ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ کی حیثیت سے اختیارات کے غلط استعمال، سرکاری ریکارڈ میں ہیرا پھیری اور جعل سازی ثابت ہو جانے پر چیئرمین EOBI فلائیٹ لیفٹیننٹ (ر) خاقان مرتضیٰ نے ریجنل آفس گوجرانوالہ سے ہٹاکر ریجنل آفس ساہیوال تبادلہ کردیا تھا جبکہ اس کی جگہ ادارہ کے ایک نیک نام افسر محمد صدیق ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز کو ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ مقرر کیا تھا۔ اس دوران کاشف ضیاء خان نے اپنے تبادلہ پر ردعمل کے طور پر اپنے ہم خیال افسران پر مشتمل ایک واٹس ایپ گروپ EOBI Unofficial تشکیل دیا تھا جس کے ذریعہ وہ خود کو تمام سنگین الزامات سے پارسا ثابت کرنے، ای او بی آئی کی انتظامیہ اور اپنے افسران بالا کو بدنام کرنے، بے بنیاد اور من گھڑت الزامات عائد کرنے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے بھرپور پروپیگنڈا مہم چلا رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر کاشت ضیاء خان کی بڑے پیمانے پر غیر قانونی سرگرمیوں اور ادارہ کی بدنامی اور نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنے پر چیئرمین EOBI خاقان مرتضیٰ نے نوٹس لیتے ہوئے اسے 15 اگست کو ای او بی آئی کے نام پر بنائے گئے غیر قانونی واٹس ایپ گروپ کو فوری طور پر بند کرنے کی وارننگ جاری کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود کاشف ضیاء خان ریجنل ہیڈ ساہیوال اپنی منفی سرگرمیوں اور انتظامیہ مخالف پروپیگنڈہ سے باز نہ آیا جس پر انتظامیہ نے اسے فوری طور پر ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی رپورٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن اس بار بھی خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے والے بااثر افسر کاشف ضیاء خان نے انتظامیہ کے احکامات کو ہوا میں اڑاتے ہوئے فرضی شدید بیماری کا بہانہ کرتے ہوئے دو ماہ کے عرصہ کے لئے بلا اطلاع ڈیوٹی سے غائب ہو گیا تھا اور معلوم ہوا ہے کہ اس نے اس طویل غیر حاضری کے دوران نہایت رازداری کے ساتھ اپنے ہیڈ آفس تبادلہ کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کردی تھی۔

گوجرانوالہ جعلی پنشن اسکینڈل کے انکوائری افسر محمد ندیم ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز ریجنل آفس شاہدرہ لاہور نے انکوائری افسر کی حیثیت سے 20 اگست 2024ء کو کاشف ضیاء خان ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز اور سابق ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ کو ایک نوٹس کے ذریعہ سات یوم کے اندر اپنا تحریری بیان ریکارڈ کرانے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن کاشف ضیاء خان نے حسب دستور اس بار بھی قانون شکنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکوائری افسر کے اس نوٹس پر بالکل کان نہ دھرے اور سات یوم کی مقررہ مدت گزر جانے کے بعد بھی اپنے دفاع میں کوئی تحریری یا زبانی جواب دینے کی زحمت گوارہ نہیں کی ۔ جس پر انکوائری افسر نے 28 اگست 2024ء کو ذاتی طور پر ریجنل آفس گوجرانوالہ کا دورہ کرکے کاشف ضیاء خان سابق ریجنل ہیڈ کے ہاتھوں منظور ہونے والے تمام جعلی پنشنوں کے ریکارڈ کی تفصیلی طور پر جانچ پڑتال کی اور موجودہ ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ محمد صدیق کے ساتھ کاشف ضیاء خان کی ملی بھگت سے سرکاری ریکارڈ میں ہیرا پھیری اور جعلسازی کے ذریعہ تاحیات بڑھاپا پنشن حاصل کرنے والے متعدد افراد کے متعلق تحقیقات کا آغاز کیا۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے گوجرانوالہ شہر کے متعدد آجران اور کارخانوں کے مالکان سے ذاتی طور پر ملاقاتیں کیں اور ان کے اداروں کے نام پر منظور کی گئیں جعلی پنشنوں کے متعلق انہیں مطلع کرکے ان کے تحریری بیانات بھی حاصل کئے گئے۔

اس موقع پر انکوائری افسر محمد ندیم نے بڑی تندہی اور فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریجنل آفس گوجرانوالہ کے جملہ ریکارڈ کی مکمل چھان بین بھی کی۔ جس کے نتیجہ میں کاشف ضیاء خان کیے سیاہ کارناموں کے نہایت سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ۔

ایک شخص مسمی محمد فاروق بٹ ولد فضل کریم بٹ پنشنر کے پنشن دعویٰ فائل نمبر 1A-10449 کی جانچ پڑتال کے دوران انکوائری افسر کو معلوم ہوا کہ اس کے سروس سرٹیفکیٹ میں 14 جنوری 2002ء سے میسرز شیراز اسٹین لیس اسٹیل انڈسٹری گوجرانوالہ کی ملازمت ظاہر کی گئی ہے۔ لیکن انکوائری افسر کی جانب سے اس کارخانہ میسرز شیراز اسٹین لیس اسٹیل انڈسٹری کے مالکان اور شراکت داران شیراز اور عامر سہیل اور کارخانہ کے منیجر اشرف سے ملاقات کے دوران انہوں پنشن کے اس معاملہ کو جعلسازی کا شاہکار قرار دیتے ہوئے اپنے تحریری بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ مسمی محمد فاروق بٹ کے سروس سرٹیفکیٹ اور آخری 12 ماہ تنخواہوں کے گوشوارہ پر ان کے دستخط اور مہر اصلی نہیں ہیں اور انہوں نے مسمی محمد فاروق بٹ کے سروس سرٹیفکیٹ کو دیکھنے کے بعد اسے سراسر جعلی اور خود ساختہ قرار دیا ۔

جعلی پنشن اسکینڈل کی مزید تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ مذکورہ شخص کی پنشن کی منظوری کے لئے مقررہ طریقہ کار کے مطابق آخری 12 ماہ کی تنخواہوں کے گوشوارہ کا جائزہ لینے کے بعد یہ واضح شہادت ملی کہ اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز اور متعلقہ انڈسٹری کے متعلقہ بیٹ افسر کبیر صدیقی کی جانب سے جمع کرائی گئی مسمی محمد فاروق بٹ کی ملازمت کی اصل عدم تصدیقی رپورٹ کو ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ کاشف ضیاء خان نے اپنے پس پردہ مقاصد کے تحت اور بد نیتی سے اس پر سفیدہ لگا کر ہیرا پھیری اور جعل سازی کی تھی اور جعل سازی کے اس عمل کے بعد کاشف ضیاء خان ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے مسمی محمد فاروق بٹ کے میسرز شیراز اسٹین لیس اسٹیل انڈسٹری کے جعلی سروس سرٹیفکیٹ اور اس کی آخری 12 ماہ کی تنخواہوں کے گوشوارہ پر اپنے دستخط ثبت کرکے اور سرکاری مہر لگا کر اس پنشن کیس کی ازخود تصدیق کردی تھی ۔ جس کے نتیجہ میں پنشن کے لئے نااہل مسمی محمد فاروق بٹ کو تاحیات بڑھاپا پنشن منظور ہوگئی تھی ۔

اسی طرح ایک اور شخص مسمی محمد لطیف ولد خوشی محمد کی پنشن فائل نمبر IA-10450 میں موجود سروس سرٹیفکیٹ میں بھی میسرز شیراز اسٹین لیس اسٹیل انڈسٹری گوجرانوالہ میں مدت ملازمت 14 جنوری 2002ء سے31 دسمبر 2021ء ظاہر ہو رہی ہے۔ لیکن یہاں بھی ریکارڈ کی چھان بین کے دوران پتا چلا اور اس انڈسٹری کے مالک عامر سہیل نے بھی تحریری طور پر اپنے بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ اس شخص کے سروس سرٹیفکیٹ اور تنخواہوں کے گوشوارہ پر ان کے دستخط اور مہر اصلی نہیں ہیں اور انہوں نے مذکورہ سرٹیفکیٹ کو سراسر جعلی اور خود ساختہ قرار دیا ۔کمپنی مالک نے اس موقع پر ایک تحریری بیان دیا کہ انہوں نے ان دونوں افراد کو کبھی اپنے کارخانہ کی جانب سے سروس سرٹیفکیٹ جاری نہیں کئے ۔ اس پنشن کیس میں بھی کاشف ضیاء خان ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ نے حسب سابق اپنی روائتی ہیرا پھیری اور جعلسازی کے فن کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے "مال مفت دل بے رحم” کی طرح مسمی محمد لطیف کو تاحیات بڑھاپا پنشن سے نواز دیا تھا۔

ریجنل آفس گوجرانوالہ کے فرض شناس بیٹ افسر کبیر صدیقی ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز کو کاشف ضیاء خان ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ نے اپنا غیر قانونی مطالبہ نہ ماننے کی پاداش میں اسے بیٹ افسر کے عہدہ سے ہٹادیا تھا اور اس کے بعد انتہائی بدعنوان افسر ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ کاشف ضیاء خان نے حاتم طائی کی سخاوت اور دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام جعلی پنشن کیسوں کی بذات خود تصدیق کرتے ہوئے بے شمار پنشن کیسز منظور کئے تھے۔ جبکہ ریجنل آفس گوجرانوالہ کے ریکارڈ کے مطابق متعلقہ بیٹ افسر کبیر صدیقی ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز نے اس پنشن دعویدار کے ملازمت کی تصدیق کے لئے اس کے کارخانہ کا دورہ کرنے کے بعد اپنی تصدیقی رپورٹ میں واضح طور پر درج کیا تھا کہ” آجر نے نا تو اس شخص کا کوئی ریکارڈ فراہم کیا اور نا ہی اس کا سروس سرٹیفکیٹ جاری کیا "۔

انکوائری کے دوران یہ حیرت انگیز انکشاف بھی ہوا کہ جب بیٹ افسر کبیر صدیقی ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز نے اپنے افسر بالا کاشف ضیاء خان ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ کے ناجائز دباؤ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مذکورہ شخص کے جعلی پنشن دعویٰ کی تصدیق کرنے سے انکار کردیا تھا تو ریجنل ہیڈ کاشف ضیاء خان نے ریجنل ہیڈ کی حیثیت سے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے بیٹ افسر کبیر صدیقی کا تبادلہ کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر ان کی بیٹ از خود اپنے نام الاٹ کرلی تھی اور ریجنل آفس گوجرانوالہ میں جعلی پنشن کیسز میں رکاوٹ بننے والے فرض شناس بیٹ افسر کبیر صدیقی ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز کو اس کے عہدہ سے ہٹانے کے بعد کاشف ضیاء خان ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ نے پنشن کے جعلی دعویداروں سے مبینہ طور پر دھڑا دھڑ ایک ایک لاکھ اور دو دو لاکھ روپے رشوت کے عوض متعلقہ بیٹ افسر کبیر صدیقی کی جانب سے جمع کرائی گئی ان افراد کی ملازمت کی اصل عدم تصدیقی رپورٹ کو غیر قانونی طور پر سفیدہ پھیر کر، بلا خوف و خطر ہیرا پھیری اور جعلسازی سے کام لیتے ہوئے جعلی سروس سرٹیفکیٹ اور تنخواہوں کے گوشواروں کو ریجنل ہیڈ کی حیثیت سے ازخود تصدیق کرکے ان سب افراد کو تاحیات بڑھاپا پنشن جاری کردی تھی ۔

اسی طرح انکوائری افسر محمد ندیم ڈپٹی ڈائریکٹر ریجنل آفس شاہدرہ لاہور نے ایک اور جعلی پنشنر مسمی ملک شوکت علی ولد ملک اللہ دتہ پنشن فائل نمبر IA-09508 کے کیس کی تصدیق کے سلسلہ میں اس کے کارخانہ میسرز اے ایچ میٹل ورکس گوجرانوالہ کا دورہ کرکے کارخانہ کے منیجر عذیر سے ملاقات کی تو انہوں نے اس موقع پر اپنا تحریری بیان دیا کہ ملک شوکت علی کا ان کے کارخانہ میں کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں کیونکہ کارخانہ میں ٹھیکیدار کے ذریعہ کام لیا جاتا ہے۔ اس دوران ریکارڈ کی چھان بین سے معلوم ہوا کہ اس کارکن کی بیمہ شدہ ملازمت اور اس کی 12 ماہ کی تنخواہوں کے گوشوارہ کی تصدیق بیٹ افسر وقاص مظفر ججا، اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز نے انجام دی تھی اور اسی افسر نے ریجنل آفس کے آڈٹ افسر کی حیثیت سے اس پنشن کیس کا آڈٹ بھی انجام دیا تھا۔ کارخانہ کے منیجر عذیر نے اپنے تحریری بیان میں مزید بتایا کہ ریجنل آفس گوجرانوالہ کے ایک کلرک غلام یاسین بٹ( کاشف ضیاء خان، ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ کا پرسنل اسسٹنٹ) نے اس پنشن کی منظوری کے لئے ان سے بھاری رشوت وصول کی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ غلام یاسین بٹ PA، ریجنل آفس گوجرانوالہ کے تمام غیر قانونی معاملات اور رشوت کی لین دین میں ملوث ہے اور ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ کاشف ضیاء خان کا خاص دست راست اور قریبی رازداں تھا۔

انکوائری کے دوران مسمی صادق حسین ولد احمد علی پنشن کیس نمبر IA-10235 کارکن میسرز خواجہ وولن ملز لمیٹڈ گوجرانوالہ کی پنشن فائل کی چھان بین سے معلوم ہوا کہ اس شخص نے دو مختلف اداروں میں ملازمت کے دو مختلف مدت کے سروس سرٹیفیکیٹ جمع کرائے تھے۔ جس کے مطابق اس کی پہلی ملازمت یکم اگست 2003ء سے 25 جون 2010ء تک میسرز خواجہ وولن ملز لمیٹڈ میں تھی۔ جس کی تصدیق بیٹ افسر شاہد انعام اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز نے کی تھی۔ جبکہ اس کارکن کی دوسری ملازمت کی تصدیق اور معاملہ کی چھان بین کے لئے جب انکوائری افسر نے میسرز حاجی عبدالمنان کاٹن فیکٹری کا دورہ کیا تو وہاں ایک چھوٹا سا کارخانہ قائم تھا جہاں تین چار کارکن کام انجام دے رہے تھے۔ کارخانہ کے مالک کے صاحبزادہ اویس نے بتایا کہ مسمی صادق حسین ولد احمد علی کا ان کے کارخانہ سے کوئی تعلق نہیں رہا اور انہوں نے اپنے کارخانہ کے نام سے جاری سروس سرٹیفکیٹ بغور دیکھنے کے بعد واضح طور پر بیان دیا کہ وہ اس صادق حسین نامی شخص سے قطعی طور پر واقف نہیں ہے اور انہوں نے صادق حسین کی ملازمت کی تصدیق کے لئے استعمال ہونے والے اپنے کارخانہ کے لیٹر ہیڈ اور مہر کی قبولیت سے بھی صاف انکار کیا ۔ جس سے یہ صاف صاف ثابت ہوتا ہے کہ ریجنل ہیڈ کاشف ضیاء خان ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ نے اپنے پس پردہ مقاصد کے تحت اس کیس میں بھی حسب دستور ای او بی آئی کے مقررہ قواعد و ضوابط کو پاؤں تلے روندتے ہوئے صادق حسین کو تاحیات بڑھاپا پنشن جاری کردی تھی۔
انکوائری کے دوران ایک اور کیس مسماۃ عذرا بیوہ شفیق حسین، پنشن کیس نمبر IAW-03977 کا جعلی پنشن کیس بھی سامنے آیا جس کی تحقیقات کے دوران پتا چلا کہ یہ پنشن کیس بھی دیگر پنشن کیسز کی طرح مشکوک اور جعلی ہے۔ ریجنل آفس گوجرانوالہ میں دستیاب ریکارڈ کے مطابق حیرت انگیز طور پر اس پنشن کیس میں اس کا شوہر شفیق حسین تاحال بقید حیات ہے۔ لیکن نادرا کے ریکارڈ میں اسے متوفی قرار دیا گیا ہے اور کاشف ضیاء خان ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ کی آشیر باد سے ریجنل آفس گوجرانوالہ سے غیر قانونی طور پر تاحیات پسماندگان پنشن وصول کرنے والی خاتون مسماۃ عذرا بیوہ شفیق حسین کے شوہر کا وفات سرٹیفکیٹ مبینہ طور پر متوفی شخص کے نام سے بالکل مختلف ہے ۔ جبکہ موجودہ ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ محمد صدیق نے اپنے افسر بالا محمد فاروق طاہر ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، بی اینڈ سی لاہور کی ہدایت پر اس مشکوک خاتون کی پسماندگان پنشن پہلے ہی روک دی ہے ۔

ریجنل آفس گوجرانوالہ کے دستیاب ڈیٹا بیس کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریجنل آفس گوجرانوالہ کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور انچارج بینی فٹس سیکشن نے 6 جون 2021ء کو اس متوفی شخص کا ریکارڈ لاگ ان پن نمبر 928803کے ذریعہ تخلیق کیا تھا۔ انکوائری رپورٹ کے ساتھ متوفی کے وفات سرٹیفکیٹ کی نقل اور شفیق حسین کی تصویر منسلک کی گئی ہے۔

محمد ندیم خان، انکوائری افسر اور ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز شاہدرہ لاہور کی جانب سے گوجرانوالہ جعلی پنشن اسکینڈل کی تحقیقات کے دوران یہ بات بھی مشاہدہ میں آئی کہ میسرز ماجد منیر لمیٹڈ رجسٹریشن نمبر BJA-00158 کے متعدد پنشن کیسز بھی کاشف ضیاء خان ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ کے سیاہ دور میں غیر قانونی طور پر منظور کئے گئے ۔ لہذاء ان تمام پنشن کیسوں پر مزید تحقیقات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

انکوائری افسر نے اپنی رپورٹ میں تجویز پیش کی کہ موجودہ ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ محمد صدیق کی ذمہ داری لگائی جائے کہ وہ میسرز منیر جاوید منیر لمیٹڈ اور اس قسم کے دیگر اداروں کے پنشن کیسز کی تفصیلی طور پر تحقیقات کریں جو انکوائری افسر کی تحقیقات کے دوران مشکوک اور مشتبہ معلوم ہوئے ہیں۔

انکوائری افسر نے اپنی رپورٹ میں مزید تجویز کیا کہ کاشف ضیاء خان سابق ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ کے دور میں منظور کئے جانے والے تمام پنشن کیسز کی بھی از سرنو جانچ پڑتال کی جائے، جو بادی النظر میں مقررہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منظور کئے گئے تھے۔

انکوائری افسر کی رپورٹ کے مطابق گوجرانوالہ جعلی پنشن اسکینڈل کی تفصیلی تحقیقات کے بعد یہ بات واضح طور پر ثابت ہوگئی کہ ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ کاشف ضیاء خان نے اس وقت کے بیٹ افسر کبیر صدیقی، ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز کی جانب سے پنشن دعویداروں کی ملازمت کی عدم تصدیقی رپورٹ میں ہیرا پھیری اور جعلسازی کرنے کے ساتھ ساتھ ادارہ کے دیانتدار اور فرض شناس افسر کبیر صدیقی کو ان کے عہدہ سے جبری طور پر ہٹادیا تھا اور غیر قانونی طور پر ان کی بیٹ کو ازخود اپنے آپ کو الاٹ کرکے متعلقہ بیٹ افسر کے اختیارات کو غیر قانونی طور پر استعمال کیا اور مذکورہ پنشن کیسز کی جعلی تصدیق کرکے اور متعلقہ بیٹ افسر کبیر صدیقی کی جانب سے ان افراد کی ملازمتوں کی عدم تصدیق کی رپورٹوں کو بالکل رد کرکے ای او بی آئی ریجنل آفس گوجرانوالہ کے سرکاری ریکارڈ میں زبردست ہیرا پھیری اور جعلسازی کی جس کے نتیجہ میں ریجنل ہیڈ کاشف ضیاء خان سر سے پاؤں تک بری طرح بدعنوانیوں میں ملوث پایا گیا ہے۔

انکوائری افسر محمد ندیم ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز ریجنل آفس شاہدرہ لاہور نے اپنی انکوائری رپورٹ میں کاشف ضیاء خان ڈپٹی ڈائریکٹر اور اس وقت کا ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ کے خلاف ای او بی آئی سروس ریگولیشن مجریہ 1980ء کے تحت مقدمات قائم کرنے کی سفارش کی ہے۔

انکوائری افسر محمد ندیم نے اپنی رپورٹ میں ای او بی ائی ریجنل آفس گوجرانوالہ کے تینوں بیٹ افسران وقار مظفر ججا، اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز اور اس وقت کے فیلڈ افسر، شاہد عمران، اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز اور اس وقت کا فیلڈ افسر و آڈٹ افسر اور مسماۃ عمارہ گل،اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز اور انچارج بینی فٹس سیکشن کے خلاف علیحدہ سے تحقیقات کرنے اور کاشف ضیاء خان ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ کی جانب سے بے شمار پنشن کیسز میں بڑے پیمانے پر ہیرا پھیری کرنے اور جعلسازیوں پر کبوتر کی طرح چشم پوشی اختیار کرنے اور اس غیر قانونی دھندے میں ریجنل آفس گوجرانوالہ کے تمام افسران کا کردار متعین کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔

انکوائری افسر محمد ندیم نے اپنی انکوائری رپورٹ میں ریجنل آفس گوجرانوالہ کے تمام مشکوک اور جعلی پنشنوں کو فوری طور پر روکنے کی سفارش بھی کی ہے اور اپنی 9 صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ مزید کارروائی کے لئے ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی میں جمع کرادی ہے ۔

انکوائری افسر محمد ندیم ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز ریجنل آفس شاہدرہ کی جانب سے ای او بی ائی گوجرانوالہ جعلی پنشن اسکینڈل کی جامع تحقیقاتی رپورٹ میں سابق ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ کاشف ضیاء خان ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز کی جانب سے بڑے پیمانے پر اختیارات کے غلط استعمال، سرکاری ریکارڈ میں ہیرا پھیری اور جعل سازی کے سنگین الزامات ثابت ہو جانے پر چیئرمین EOBI فلائیٹ لیفٹیننٹ (ر) خاقان مرتضیٰ نے 13 ستمبر 2024ء کو ملزم کاشف ضیاء خان، ایمپلائی نمبر 923353 ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز اور سابقہ ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ کو آٹھ سنگین الزامات جن میں ادارہ کے احکامات، قواعدو ضوابط کی خلاف ورزی،نظم و ضبط سے روگردانی، غفلت کا مظاہرہ کرنے،ادارہ کے مفادات کے خلاف جان بوجھ کر کام کرنے، اخلاقی گڑ بڑ میں ملوث ہونے، رخصت کی منظوری کے بغیر دس یوم سے زائد عادی غیر حاضر رہنے، دفتر کی عمارت میں دفتری اوقات کار کے دوران فساد اور بلوہ کا رویہ اختیار کرنے اور جھوٹے اور گمراہ کن بیانات پر مبنی چارج شیٹ اور چھ سنگین پر مشتمل فہرست الزامات اور انکوائری آرڈر جاری کرتے ہوئے اس سے 14 یوم کے اندر جواب طلب کرلیا ہے کہ ان سنگین الزامات کے مرتکب ہونے پر کیوں نہ تمہارے خلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے، جو تسلی بخش جواب نہ ہونے کی صورت میں تمہاری ملازمت سے برطرفی پر منتج ہوسکتی ہے۔

چیئرمین خاقان مرتضیٰ نے اپنے حکم نامہ میں جعلی پنشن اسکینڈل کی مزید تحقیقات کے لئے احمد حسیب ڈائریکٹر/ ریجنل ہیڈ لاہور نارتھ کو کاشف ضیاء خان سابق ریجنل ہیڈ گوجرانوالہ کے خلاف نیا انکوائری افسر مقرر کیا ہے ۔

اسرار ایوبی کا کہنا ہے ماضی گواہ ہے کہ ای او بی آئی میں چور راستہ سے داخل ہونے والے بدعنوان اور بااثر افسران نے ہمیشہ غریب محنت کشوں کے امانتی پنشن فنڈ میں بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ کی ہے اور یہ بدعنوان افسران کافی بااثر اور طاقتور ہونے کے باعث ہمیشہ قرار واقعی سزاؤں سے بچ نکلنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی کا انتہائی بدعنوان اور خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے والا بااثر افسر کاشف ضیاء خان ولد رحمت اللہ 2007ء میں بھرتی کے لئے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن(IBA) کراچی کے چھ ماہ کے لازمی سوشل سیفٹی کورس میں فیل ہو جانے کے باوجود 24 فروری 2007ء کو صوبہ پنجاب کے کوٹہ پر ای او بی آئی میں آزمائشی افسر (Probationary Officer)کی حیثیت سے بھرتی ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کاشف ضیاء خان آزمائشی افسر کی حیثیت سے تین برس کی مقررہ آزمائشی مدت مکمل کرنے کے بجائے ایک بھاری سفارش کے ذریعہ غیر قانونی طور پر صرف ایک برس کی آزمائشی ملازمت کے بعد ملازمت پر ریگولر ہو جانے میں بھی کامیاب ہوگیا تھا۔ لیکن وہ اپنے آزمائشی افسر کے کیڈر میں تعینات رہنے کے بجائے جلد ہی ای او بی آئی میں سونے کی چڑیا سمجھے جانے والے آپریشنز ڈپارٹمنٹ میں اپنی تعیناتی کرانے میں بھی کامیاب ہو گیا تھا۔ بس وہ دن ہے آج کا دن کاشف ضیاء خان نے پھر کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا اور وہ پورا عرصہ ملازمت کے دوران ای او بی آئی کے مختلف ریجنل آفسوں لاہور نارتھ، لاہور ساؤتھ، سیالکوٹ، شاہدرہ، گجرات اور ساہیوال میں ریجنل ہیڈ اور ڈپٹی ریجنل ہیڈ کے منفعت بخش عہدوں پر فائز رہ کر لاکھوں میں کھیلتا رہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی کا انتہائی شاطر و چالاک افسر کاشف ضیاء خان ای او بی آئی کے انتہائی دبنگ اور اصول پرست چیئرمین فلائیٹ لیفٹینٹ(ر) خاقان مرتضیٰ کے خوف سے فرضی شدید بیماری میں مبتلا ہو گیا تھا اور بہانے دو ماہ تک غیر قانونی طور پر بلا اطلاع ڈیوٹی سے غائب رہا لیکن چیئرمین کی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے مطابق وہ موقع غنیمت جانتے ہوئے ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی میں رپورٹ کر چکا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کہ کاشف ضیاء خان ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز ہیڈ آفس کراچی میں کوئی دفتری امور انجام دینے کے بجائے پورا وقت اپنے 2007ء کے بیچ میٹ اور گہرے دوست غلام محمد موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے دفتر میں خوش گپیاں لگانے میں مصروف رہتا ہے ۔ جس کے بارے میں ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے گہرے دوست کاشف ضیاء خان کو سزا سے بچانے کی ہرممکن کوشش کر رہا ہے ۔ دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ کاشف ضیاء خان کے 2007ء کے بیچ کے دوست اور اعلیٰ افسران ای او بی آئی میں انتہائی کلیدی عہدوں پر فائز ہیں اور ان میں سے ایک طاقتور ٹولہ اصول پرست چیئرمین فلائیٹ لیفٹیننٹ (ر) خاقان مرتضیٰ کے جانے کے بعد انتہائی بدعنوان اور خائن افسر کاشف ضیاء خان کو ہر حال میں قرار واقعی سزا سے بچانے کے لئے سرگرم ہوگیا ہے جو لمحہ فکریہ ہے ۔

ذمہ دار ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ ای او بی آئی میں قانون پر عملدرآمد کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ای او بی آئی کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ کا موجودہ سربراہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل غلام محمد اور گوجرانوالہ جعلی پنشن اسکینڈل کا سرغنہ کاشف ضیاء خان ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز آج کل ہم نوالہ و ہم پیالہ بنے ہوئے ہیں اور ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ دونوں افسران ای او بی آئی کے ایک اور متنازعہ اور غیر قانونی طور پر بھرتی شدہ بااثر افسر غلام اصغر شیخ اسسٹنٹ ڈائریکٹر، بی اینڈ سی ڈپارٹمنٹ عوامی مرکز کی ملکیت پرآسائش فلیٹ میں اس کی شاندار مہمان نوازی سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ جبکہ ای او بی آئی کے حساس ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کی جانب سے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والے گوجرانوالہ جعلی پنشن اسکینڈل کے سرغنہ اور زیر تحقیقات ملزم کاشف ضیاء خان ڈپٹی ڈائریکٹر کی نا صرف زبردست آؤ بھگت کی جا رہی ہے بلکہ دونوں پردیسی دوست ایک ہی چھت کے نیچے اکٹھے رہائش پذیر بھی ہیں ۔ یہ عمل نا صرف دفتری نظم و ضبط کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ مفادات کے ٹکراؤ کے مترادف ہے۔

اسرار ایوبی کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی اپنی تشکیل کے لحاظ سے ایک وقف(Trust) ادارہ ہے جو رجسٹرڈ محنت کشوں کے ماہانہ چندہ (Contribution) کے ذریعہ چلایا جاتا ہے ۔ پنشن فنڈ لاکھوں ایک محنت کشوں کی امانت ہے جو مستقبل میں اپنی پنشن کی آس لگائے بیٹھے ہیں ۔ لہذاء ای او بی آئی کے تمام افسران اور اسٹاف ملازمین اس پنشن فنڈ کے امین اور نگہبان(Custodian) کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اگر کاشت ضیاء خان جیسے خائن اور بدعنوان افسران اسی طرح ای او بی آئی جیسے فلاحی ادارہ میں کلیدی عہدوں پر فائز رہے تو خدشہ ہے کہ ان کے سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے جلد ہی اس قومی فلاحی ادارہ کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی ۔

اسرار ایوبی کا کہنا ہے کہ گوجرانوالہ جعلی پنشن اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد ای او بی آئی کے ملک مختلف شہروں میں قائم 40 ریجنل آفسوں میں آئے دن منظر عام پر آنے والے جعلی پنشن کے کیسز کے بعد تمام ریجنل آفسوں کا فارنزک آڈٹ کرانے کی اشد ضرورت ہے جس کے نتیجہ میں نہایت سنسنی خیز انکشافات کی توقع ہے ۔

تازہ ترین:
دریں اثناء بدعنوان افسر کاشف ضیاء خان ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز کی جانب سے اس کے ریجنل آفس ساہیوال سے ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی تبادلہ کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں دائر اس کی رٹ پٹیشن نمبر 50617/2024 کو معزز جسٹس شمس محمود مرزا نے پہلی ہی سماعت کے دوران ہی اسے ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردیا ہے ۔

Exit mobile version