Home اسلام حضرت حمزہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کا قبولِ اسلام

حضرت حمزہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کا قبولِ اسلام

جب آفتابِ نبوت کو مکہ شہر پر اپنی روشن کرنیں بکھیرتے ہوئے چھٹا سال چل رہاتھا ٗ ایک بڑی خوشگوار تبدیلی یہ آئی کہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ مشرف باسلام ہوگئے، مکہ میں یہ انتہائی شریف النفس اور بہت ہی صاحبِ وجاہت سمجھے جاتے تھے ٗ معاشرے میں ان کا بڑا مقام و رتبہ تھا اور انہیں انتہائی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، رسول اللہ ﷺ کے چچا تھے، خاندانِ بنوہاشم کے چشم و چراغ تھے… اور پھر صرف تین دن بعد ہی حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ بھی بالکل اچانک ہی مسلمان ہوگئے، حالانکہ اس سے قبل وہ دینِ اسلام کے شدید مخالف اور مسلمانوں کے سخت دشمن تھے، ہمیشہ مسلمانوں کے درپے آزار رہتے تھے، انتہائی بہادر ٗ دلیر اور تندرست و توانا قسم کے انسان تھے، مکہ میں ان کا بہت زیادہ رعب اور دبدبہ تھا، بڑے بڑے بہادر اور جوان ان کے نام سے لرزتے تھے… جیسا کہ مشہور صحابیٔ رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام ہم مسلمانوں کیلئے عزت کا ذریعہ اور فتح و نصرت کا پیش خیمہ تھا، ہم مسلمانوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے بعد پہلی بار علیٰ الاعلان اور کھلے عام بیت اللہ کا طواف کیا اور وہاں نماز ادا کی، اس سے قبل ہمیں کبھی یہ جرأت نہ ہوئی تھی(۱)

ترغیب وترہیب کاسلسلہ

مشرکینِ مکہ کے وفد کی حبشہ سے ناکام واپسی … اور پھر اس کے فوری بعد حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ٗ اور پھر حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام… یہ پے در پے ایسے واقعات تھے جن سے مشرکینِ مکہ انتہائی افسردہ و پژمردہ ہوگئے اور ان کے حوصلے پست پڑنے لگے… لہٰذا پیغمبرِ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنی تمام ترنفرت و عداوت کے باوجود اب انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ مصالحتی رویہ اپنانے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں گفت و شنیدکی غرض سے انہوں نے متعدد بار رسول اللہ ﷺ سے ٗ نیز ابوطالب سے ملاقاتیں کیں ٗ جو کہ آپ ﷺ کے چچا بھی تھے اور سرپرست بھی۔

چنانچہ اسی سلسلے میں مشرکینِ مکہ نے اپنے ایک مشہور سردار عتبہ کو آپ ﷺ کے ساتھ گفت و شنیدکی غرض سے بھیجا ٗ جس نے آپ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’اے بھتیجے! آپ نے پوری قوم کو مصیبت میں مبتلا کر کھا ہے، آپ نے ہماری جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے… ان سرگرمیوں سے اگر آپ کا مقصود مال و دولت سمیٹنا ہے ٗ تو ہم سارے عرب کے خزانے آپ کے قدموں میں ڈھیر کر دیں گے… اگر آپ کو عزت اور نام و نمود کی طلب ہے تو ہم آپ کو اپنا سردار مان لیں گے، اگر حکومت کی تمنا ہے توہم آپ کو پورے ملکِ عرب کا حکمران تسلیم کرلیں گے… اور اگر آپ پرکسی جن بھوت یا آسیب کا اثر ہے… تب بھی ہمیں بتایئے… ہم آپ کیلئے کسی قابل ترین جھاڑ پھونک کرنے والے کا انتظام کر دیں گے…!

رسول اللہ ﷺ نے دورانِ گفتگو کسی موقع پر اسے روک ٹوک نہیں کی… اس کی بات کو کاٹا نہیں… بلکہ نہایت تحمل اور توجہ سے اس کی پوری گفتگو سنی، جب وہ اپنی بات مکمل کرچکا تب آپ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا: ’’کیا تم اپنی بات کہہ چکے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’ہاں‘‘، تب آپ ﷺ یوں گویا ہوئے:
’’نہ میں مال و دولت جمع کرنا چاہتا ہوں، نہ سرداری اور بادشاہت کی تمنا ہے، نہ میں بیمار ہوں اور نہ آسیب زدہ… جس قدر باتیں تم نے کہی ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی مجھ میں نہیں ہے… مجھ کو تو بس اللہ نے رسول بناکر بھیجا ہے، اپنی کتاب مجھ پر نازل فرمائی ہے، اور مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اس کے عذاب سے ڈراؤں۔‘‘

اور پھر آپ ﷺ نے اس کے سامنے سورہ حٓم السجدہ کی تلاوت شروع کی…
حٓمٓ ، تَنزِیلٌ مّنَ الرّحمٰنِ الرّحِیمِ ، کِتَابٌ فُصِّلَت آیَاتُہٗ قُرآناً عَرَبِیّاً لِقَومٍ یَّعلَمُونَ ، بَشِیراً وَّ نَذِیراً فأعْرَضَ أکثَرُھُم فَھُم لَایَسْمَعُونَ…
آپ ﷺ یہ سورت پڑھتے گئے… اور عتبہ انتہائی انہماک کے ساتھ… حیران و پریشان… اور مبہوت ہو کر اللہ کا کلام سنتا رہا… آپ ﷺ کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا… اور قرآن کی حلاوت اس کے رگ وپے میں اترتی چلی گئی… آخر آپ ﷺ جب اس آیت پرپہنچے:
فَاِن أعْرَضُوا فَقُل أنْذَرتُکُم صَاعِقَۃً مِّثلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَّ ثَمُودَ…
یعنی: ’’اگر اب بھی یہ روگردانی کریں تو کہہ دیجئے کہ میں تمہیں ڈراتا ہوں اس کڑک سے جو عاد اور ثمود کی کڑک جیسی ہوگی۔‘‘(۲)
یہ آیت سن کر عتبہ کے ہوش و حواس جواب دینے لگے… اور بے ساختہ اس نے اٹھ کر آپ ﷺ کے ہونٹوں پر اپنے ہاتھ رکھ دئیے… اور یوں التجاء کرنے لگا:

’’بس کرو… بھتیجے… میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں… میں تمہیں قرابت داری کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ… اب بس کرو…‘‘

اس کے بعد وہ سر جھکائے ہوئے بوجھل قدموں کے ساتھ وہاں سے چل دیا، اور اس کے ساتھی سردارانِ قریش جو اس کی آمدکے منتظر تھے… جنہوں نے اسے بھیجا تھا… وہ اس کا یہ بدلا ہوا انداز دیکھ کر پریشان ہوگئے اور کہنے لگے کہ’’ لو… یہ تو… بدل گیا…‘‘ اور پھر عتبہ نے ان کے قریب پہنچ کر انہیں کہا کہ: ’’اس شخص (یعنی محمد ﷺ) کو اس کے حال پر چھوڑ دو… بس … اسی میں ہم سب کیلئے بہتری ہے۔‘‘(۳)

اسی طرح ایک بار سردارانِ قریش نے ’’کچھ لو، کچھ دو‘‘ کا اصول اپناتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کو یہ پیشکش کی کہ ’’آپ ہمارے معبودوں کی مخالفت چھوڑ دیجئے، ہم آپ کے دین کی مخالفت چھوڑ دیتے ہیں، نیز یہ کہ ایک سال آپ ہمارا دین اختیار کرلیا کریں، اور پھر ایک سال ہم آپ کا دین اختیار کرلیا کریں گے، یوں مل جل کر رہ لیتے ہیں۔‘‘

ان کی اس لغو و بیہودہ پیشکش کے جواب میں ’’سورۃ الکافرون ‘‘ نازل ہوئی جس میں یہ وضاحت و صراحت کردی گئی کہ ایسا ممکن نہیں…!!

[جاری ہے]

حوالہ جات:

(۱) ما زلنا أعزّۃ منذ أسلم عمر (صحیح البخاري ، باب اسلام عمر) ولقد رأیتنا ما نستطیع أن نصلّي الیٰ البیت حتیٰ أسلم عمر (طبقات ابن سعد۳/۲۷) انّ اسلامہ کان نصراً (المعجم الکبیر للطبراني۹/۱۸۱) دین کے معاملے میںحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اسی بے مثال جرأت و شجاعت کی وجہ سے ہی رسول اللہ ﷺ نے انہیں ’’فاروق‘‘ کا لقب عطاء فرمایا تھا۔

(۲) یعنی ایسی خوفناک کڑک ہوگی کہ جیسی کڑک سے قومِ عاداورقومِ ثمودکوہلاک کیاگیاتھا۔

(۳) تفصیل کیلئے ملاحظہ ہوتفسیرابن کثیر، سورہ حم السجدہ،نیزدیگرکتبِ تفسیروحدیث وتاریخ۔

Exit mobile version