کراچی : سندھ ہائیکورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری کو مشکوک قرار دینے کے خلاف درخواست کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا ۔ عدالت نے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ سندھ ہائیکورٹ 5 ستمبر کو ان فیئر مینز کمیٹی کے فیصلے کو معطل کر چکی ہے۔
ایف آئی اے افسران نے اپنے مینڈیٹ سے ہٹ کر انکوائری کی ہے ایف آئی اے انکوائری معزز جج کو بدنام کرنے کی کوشش ہے ججز کے خلاف انکوائری صرف سپریم جوڈیشل کمیشن کر سکتا ہے۔
عدالت عالیہ نے حکم نامے میں کہا ہے کہ یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ اور ان فیئر مینز کو ججز کی ڈگری کے خلاف انکوائری کا اختیار نہیں ہے فاضل جج کے خلاف انکوائری عدلیہ پر حملے کے مترادف ہے اگر اس مہم کو نہ روکا گیا تو عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑ جائے گا۔
درخواست گزار 20 ہزار وکلا کا صدر ہے جو ادارے کے تحفظ اور عزت کے لیے آگے آیا ہے درخواست گزار کے وکیل کے دلائل کافی اہمیت کے حامل ہیں عدالت نے مدعا علیہان، اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل سندھ کو بھی نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
عدالت نے حکم نامے میں کہا ہے کہ اگر فاضل جج کے خلاف کوئی اور بھی درخواست آتی ہے تو ایف آئی اے انکوائری نہ کرے پیمرا اس بات کو یقینی بنائے کے جسٹس جہانگیری کے بارے میں کوئی خبر شائع نہ ہو۔
عدالت عالیہ نے پیمرا کو جسٹس جہانگیری کے خلاف خبروں کی اشاعت روکنے کا حکم دے دیا ہے درخواست کراچی بار کے صدر عامر نواز وڑائچ نے دائر کی تھی۔ جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ مدعا علیہان نمبر 6 نے معزز جج کے خلاف ایک اجلاس منعقد کیا۔اجلاس میں معزز جج کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ۔ اجلاس کے بعد معزز جج کے خلاف میڈیا پر مہم شروع کر دی گئی جسٹس طارق محمود جہانگیری ان 6 ججز میں شامل ہیں ۔ جنہوں نے عدلیہ میں مداخلت کے خلاف چیف جسٹس کو خط لکھا تھا۔
ایف آئی اے نے شہزاد گوندل کی شکایت پر مبینہ انکوائری کی جس کے بعد میڈیا پر پروپیگنڈا کیا گیا شہزاد گوندل نے ایف آئی اے رپورٹ کو ٹوئٹر اکاونٹ پر بھی شیئر کیا۔ یہ سب کچھ ہائیکورٹ کے ایک معزز جج کو بدنام اور ساکھ کو مجروح کرنے کی کوشش ہے مدعا علیہان نے معزز جج کے خلاف میڈیا کمپین شروع کر رکھی ہے۔