Home پاکستان کراچی EOBI بن قاسم ریجن میں 3 فیکٹریوں سے کنٹریبیوشن کی مد...

کراچی EOBI بن قاسم ریجن میں 3 فیکٹریوں سے کنٹریبیوشن کی مد میں کروڑوں کی بھتہ وصولی

کراچی : ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) کے بن قاسم کراچی کے ریجنل ہیڈ نوید فیاض قائم خانی نے کنٹری بیوشن کے نئے ریٹ میں مبینہ طور پر جعلسازی کے ذریعہ دو بڑی ٹیکسٹائل ملوں کی ملی بھگت سے کروڑوں روپے اینٹھ لئے ہین ۔ بااثر ریجنل ہیڈ کو ڈی ڈی جی آپریشنز عوامی مرکز ڈاکٹر جاوید شیخ کی مکمل آشیرباد حاصل ہے۔

نجی ملازمین کی پنشن کے قومی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) زیر نگرانی وزارت بیرون ملک پاکستانی وترقی انسانی وسائل،حکومت پاکستان میں ایک طویل عرصہ سے ڈائریکٹر جنرل آپریشنز اور مستقل چیئرمین نہ ہونے کے باعث انتہائی بدعنوان اور بااثر ریجنل ہیڈز کی موجیں لگ گئی تھیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ ای او بی آئی کے ایک انتہائی بااثر افسر ریجنل ہیڈ بن قاسم کراچی نوید فیاض قائم خانی نے لانڈھی کے صنعتی علاقہ کی دو بڑی ٹیکسٹائل ملوں کی انتظامیہ سے نئے ریٹ سے واجب الادا کنٹری بیوشن کی وصولی میں ان ملز مالکان کی ملی بھگت سے کروڑوں روپے اینٹھ لئے ہیں ۔

واضح رہے کہ ای او بی آئی، ای او بی ایکٹ مجریہ 1976 کے تحت رجسٹرڈ صنعتی ،کاروباری اور تجارتی اور دیگر اداروں سے ماہانہ کم از کم اجرت کا 6 فیصد کنٹری بیوشن وصول کرتا ہے جو اس وقت فی بیمہ شدہ ملازم 1920 روپے ماہانہ بنتی ہے تاکہ مستقبل میں ان صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں کے ریٹائرڈ، معذور ملازمین اور ان کی وفات کی صورت میں ان کے لواحقین کو تاحیات پنشن ادا کی جا سکے ۔

ای او بی آئی قانون کے مطابق رجسٹرڈ اداروں کی جانب سے اپنے ملازمین کی مد میں تاخیر سے ماہانہ کنٹری بیوشن جمع کرانے کی صورت میں ان سے 2 فیصد قانونی جرمانہ (Statutory increase) وصول کیا جاتا ہے جو زیادہ سے زیادہ زیادہ 50 فیصد تک ہوتا ہے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ گل احمد ٹیکسٹائل ملز، لانڈھی رجسٹریشن نمبر AAC-1174 اور AAC-2002 کے 14 صنعتی یونٹس کام کر رہے ہیں ۔ نوید فیاض قائم خانی نے ریجنل ہیڈ بن قاسم کی حیثیت سے 25 اکتوبر 2023ء کو مقررہ طریقہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریجنل آفس میں ڈائری نمبر کا اندراج کئے بغیر مبلغ 461،573،32 روپے ( برائے مدت یکم جولائی 2013ء تا 31 دسمبر 2021ء ) کے واجب الاداکنٹری بیوشن کی نئی شرح سے ریکوری کرنے کے لئے خط ارسال کیا تھا ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ گل احمد ٹیکسٹائل ملز کے چار یونٹوں میں اگرچہ ہزاروں مستقل، کنٹریکٹ اور یومیہ اجرت ملازمین کام کرتے ہیں لیکن ملز کی انتظامیہ خود کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہوئے اپنے تمام ورکرز کی مد میں ای او بی آئی کو ماہانہ کنٹری بیوشن ادا نہیں کرتی ۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ گل احمد ٹیکسٹائل ملز کی انتظامیہ ای او بی ایکٹ 1976ء کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے ملز کے حصہ کا 5 فیصد کنٹری بیوشن بھی خود ادا کرنے کے بجائے اپنے ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی میں ملوث ہے اور حتیٰ کہ ملز کی انتظامیہ ملازمین کی اجرتوں سے کٹوتی کی گئی کروڑوں روپے کے کنٹری بیوشن کی رقم ای او بی آئی کو ادا کرنے کے بجائے اس رقم سے اپنے کاروبار میں سرمایہ کاری کرتی ہے ۔

اسی طرح گل احمد ٹیکسٹائل ملز نے غیر قانونی طور پر اپنے کثیر تعداد میں کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز ورکرز کی نہ تو ای او بی آئی میں رجسٹریشن کرا رکھی ہے اور نہ ہی ان کی مد میں ای او بی آئی کو ماہانہ کنٹری بیوشن ادا کیا جاتا ہے ۔ ملز کی انتظامیہ لیبر قوانین قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نا تو اپنے ورکرز کو ملازمت کے تقرر نامے جاری کرتی ہے اور نہ ہی کوئی ٹوکن نمبر ۔ جس کے باعث ورکرز کے پاس ملازمت کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا ۔ اگر کوئی ورکر اپنے جائز حقوق کے لئے ذرا سی چوں چرا کرے تو اسے سزا کے طور پر ملز میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا ہے۔

جب کہ لانڈھی میں واقع یونس ٹیکسٹائل ملز رجسٹریشن نمبر AAG-00099 بھی یکم مارچ 1999ء سے ای او بی آئی میں رجسٹرڈ ہے ۔ اس ٹیکسٹائل ملز کے سات صنعتی یونٹس ناظم آباد کراچی ،کوٹری میں دو اور بقیہ بن قاسم کراچی میں کام کر رہے ہیں ۔ جو علیحدہ سب کوڈ کے ذریعہ ای او بی آئی میں رجسٹرڈ ہیں ۔ اس ملز کے ساتوں یونٹوں میں اگرچہ ہزاروں ورکرز کام کرتے ہیں لیکن EOBI کے ریکارڈ میں اس ملز کے بیمہ دار افراد کی تعداد صرف 332 اور پنشنرز کی تعداد 203 بتائی جاتی ہے ۔

دستیاب دستاویزات کے مطابق یونس ٹیکسٹائل ملز نے جولائی 2013ء میں اپنے تمام یونٹوں میں خدمات انجام دینے والے ہزاروں ملازمین کے واجب الادا کنٹری بیوشن کی مد میں EOBI کو صرف مبلغ 13،672،258 روپے ادا کئے تھے۔

لیکن ریجنل ہیڈ بن قاسم نوید فیاض قائم خانی نے یونس ٹیکسٹائلز کو مالی سال 2016-17 کے لئے 1،680،588 روپے مالیت کا پہلا ڈیمانڈ نوٹس جاری کیا تھا اور اس کے ایک علیحدہ یونٹ رجسٹریشن نمبر AA-002 کو جولائی 2016 تا جون 2018 کی مدت کے لئے مبلغ 410،810 روپے کا ، دوسرے یونٹ رجسٹریشن نمبر AA-003 کو مبلغ 702،000 روپے کا اور ایک اور تیسرے یونٹ رجسٹریشن نمبر AA-004 کو مبلغ 348،566 روپے کا ڈیمانڈ نوٹس جاری کیا تھا ۔

جبکہ جان بوجھ کر اس ملز کی یکم جولائی 2017 سے قانون کے مطابق ریکارڈ چیکنگ اور حسابات کے آڈٹ کی تصدیق بھی نہیں کی گئی تھی ۔ ریکارڈ کے مطابق یونس ٹیکسٹائل ملز نے ای او بی آئی کو اگست 2023 ء تک مبلغ 5،019،541 روپے کے کنٹری بیوشن کی ادائیگی کے ہے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ نوید فیاض قائم خانی ولد محمد فیاض ایمپلائی نمبر 923331، 21 فروری 2007ء کو ای او بی آئی میں پروبیشنری افسر کی حیثیت سے بھرتی ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔ وہ بعض اعلیٰ افسران کی آشیر باد سے گزشتہ 17 برسوں کے دوران کراچی کے مختلف ریجنل آفسوں میں منفعت بخش عہدوں ڈپٹی ریجنل ہیڈ اور ریجنل ہیڈ کی حیثیت سے اپنی تعیناتی کے دوران کماؤ پوت ہونے کے بھرپور جوہر دکھا چکا ہے ۔

بتایا جاتا ہے کہ نوید فیاض قائم خانی ریجنل آفس بن قاسم میں اپنے فرائض باقاعدگی سے انجام دینے کے بجائے شب و روز اپنے ذاتی کاروبار کی ترقی اور اپنے دائرہ اختیار میں آنے والے بڑے بڑے صنعتی یونٹوں کو ای او بی آئی کنٹری بیوشن کے نام پر بھاری مالیت کے ڈیمانڈ نوٹس ارسال کر کے ان سے جوڑ توڑ میں مصروف رہتا ہے اور رجسٹرڈ آجران کی ملی بھگت سےسالانہ کروڑوں روپے کماتا ہے ۔

نوید فیاض قائم خانی کا معمول ہے کہ وہ ہیڈ آفس اور بی اینڈ سی عوامی مرکز میں اعلیٰ افسران کے ساتھ میٹنگ کا بہانہ کر کے دو تین بجے تک آفس پہنچتا ہے جہاں ہزاروں ریٹائرڈ ، معذور اور بیوگان اپنی پنشن کی منظوری کے لئے اس کی راہ تکتی نظر آتی ہیں ۔ ایف آئی اے کو نوید فیاض قائم خانی کے قیمتی اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کی چھان بین کرنے کی ضرورت ہے ۔

بد عنوان ریجنل ہیڈ بن قاسم نوید فیاض قائم خانی نے مقررہ طریقہ کار کے مطابق ان دونوں ٹیکسٹائل ملز کے حسابات اور ریکارڈ کا آڈٹ کرکے واجب الادا کنٹری بیوشن کا تخمینہ لگائے بغیر اور ان دونوں ملز کے 2013ء سے ای او بی آئی کنٹری بیوشن کے نادہندہ ہونے کے باوجود دونوں ملز کی انتظامیہ کی ملی بھگت سے قانون کے مطابق کسی قسم کا قانونی جرمانہ (Statutory increase) عائد کئےبغیر دونوں ملز کی انتظامیہ سے بالا ہی بالا جوڑ توڑ کرلی اور اس ڈیل کے نتیجہ میں دونوں ملوں کی انتظامیہ کو کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچاکر اپنے حصہ کے کروڑوں روپے بھی اینٹھ لئے اور افسران بالا کو ان کے حصہ کی بھاری رقم پہنچا کر معاملہ کو دبانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

نوید فیاض قائم خانی کا شمار ای او بی آئی کے انتہائی بااثر و مالدار ریجنل ہیڈز میں کیا جاتا ہے جس کو ماضی میں بھی ریجنل ہیڈ کورنگی کی حیثیت سے کورنگی کے ایک بڑےصنعتی یونٹ کو کروڑوں کے غیر قانونی طور ڈیمانڈ نوٹس جاری کرنے اور جوڑ توڑ کی خبر منظر عام پر آنے پر اس وقت کے گورنر سندھ عمران اسمعیل کی شکایت پر 2 جون 2020ء کو سزا کے طور ریجنل آفس کورنگی سے ریجنل آفس مظفر گڑھ پنجاب ٹرانسفر کر دیا گیا تھا ۔

بعد ازاں معاملہ ٹھنڈا ہوتے ہیں ای او بی آئی میں اس کی قائم خانی برادری سے تعلق رکھنے والے افسر محمد نعیم شوکت قائم خانی، اسٹاف افسر برائے چیئرمین ای او بی آئی اظہر حمید نے مبینہ طور پر  ڈیل کے تحت واپس کراچی بلا کر ریجنل ہیڈ بن قاسم کے منفعت بخش عہدہ پر تعینات کرا دیا تھا ۔

بتایا جاتا ہے کہ نوید فیاض قائم خانی کو بڑے بڑے صنعتی یونٹوں سے جوڑ توڑ میں بھرپور مہارت حاصل ہے اور آپریشنز ڈپارٹمنٹ کے خفیہ سسٹم کا منجھا ہوا کھلاڑی ہے جسے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آپریشنز عوامی مرکز ڈاکٹر جاوید شیخ کی مکمل آشیر باد بھی حاصل ہے ۔ جو کراچی کے سات، سندھ کے حیدر آباد ، کوٹری ، لاڑکانہ اور سکھر اور بلوچستان کے حب اور کوئٹہ کے ریجنل آفسوں سے ہر ماہ بدعنوانی سے حاصل کی گئی بھاری رقومات میں سے اپنا بھاری حصہ پابندی سے وصول کرتے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ ریجنل ہیڈ بن قاسم نوید فیاض قائم خانی کی اس ڈیل کے نتیجہ میں لانڈھی کے دونوں ٹیکسٹائل ملوں کے ہزاروں ملازمین اور ان کے اہل خانہ اپنی مستقبل کی پنشن سے محروم ہو گئے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ انتہائی ریجنل ہیڈ نوید فیاض کی جانب سے گل احمد ٹیکسٹائل ملز اور یونس ٹیکسٹائل ملز سے کی گئی ساری ڈیل سراسر غیر قانونی ہیں اور اس تمام معاملہ کا ریجنل آفس بن قاسم اور آئی ٹی ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کے کمپیوٹر سسٹم میں کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے ۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اگر ایف آئی اے سے ریجنل ہیڈ بن قاسم نوید فیاض قائم خانی کی بدعنوانیوں کی بدولت بنائے گئے کروڑوں روپے مالیت کے قیمتی اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کی شفاف انکوائری کی جائے تو نہایت سنسنی خیز انکشافات سامنے آئیں گے ۔

اگرچہ ای او بی آئی کو بظاہر ملازمین کے بڑھاپے کی پنشن کے لئے ایک فلاحی ادارہ سمجھا جاتا ہے جو محنت کشوں کے چندے(Contribution) پر چلتا ہے لیکن یہاں بڑے بڑے مگر مچھ پائے جاتے ہیں جو ادارہ میں اپنا خفیہ سسٹم چلاتے ہیں اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے رجسٹرڈ آجروں سے ڈیل کرکے سالانہ کروڑوں روپے کماتے ہیں اور اس سسٹم کے ذریعہ ای او بی آئی پنشن فنڈ کو اربوں روپے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ یہ اسکینڈل ای او بی آئی کے دیانتدار اور نیک نام نئے چیئرمین خاقان مرتضیٰ کے لئے بھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔

Exit mobile version