Home اسلام پیر ذوالفقار احمد نقشبندی کون تھے ؟

پیر ذوالفقار احمد نقشبندی کون تھے ؟

کراچی : پیر ذوالفقار احمد نقشبندی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔ نقشبندی سلسلے کے سرکردہ شیوخ میں سے تھے ۔

یکم اپریل 1953 کو کھرل خاندان میں پیدا ہونے ذوالفقار احمد نقشبندی نے 116 کتب لکھیں ۔ جن کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی ہوئے ۔ جھنگ میں معہد الفقیر الاسلامی جھنگ کا بانی تھے ۔

ان کے خلفاء میں ان کے بیٹے مولانا محمد سیف اللہ اور محمد حبیب اللہ، مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی ‛ مولانا محمود مدنی ‛ مولانا سجاد بجنوری ‛ (بھارت)، مولانا محمد امجد (لاہور) اور کئی دیگر علماء شامل ہیں، جنہوں نے اپنے شیخ سے اجازت خلافت حاصل کر کے تزکیہ نفس اور اصلاح خلق کے کام میں حصہ لے رکھا ہے ۔

ذو الفقار احمد نقشبندی کی تعلیم اسکولوں اور کالجوں میں ہوئی۔ انھوں نے کئی عصری کورس کیے 1972ء میں بی ایس سی الیکٹریکل انجینئر کی ڈگری حاصل کرکے اسی شعبے سے وابستہ ہو گئے، پہلے اپرنٹس الیکٹریکل انجینئر، پھر اسسٹنٹ الیکٹریکل انجینئر بنے، اس کے بعد چیف الیکٹریکل انجینئر بن گئے، جس زمانے میں وہ انجینئر بن رہے تھے اس زمانے میں جمناسٹک، فٹ بال، سوئمنگ کے کیپٹن اور چمپیئن بھی رہے، ابتدائی دینیات، فارسی اور عربی کی کتابیں بھی پڑھیں، قرآن کریم بھی حفظ کیا، یہاں تک کہ جب وہ لاہور یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے ان کا تعلق عمدۃ الفقہ کے مصنف سید زوار حسین شاہ سے ہو گیا، جو نقشبندیہ سلسلے کے ایک صاحب نسبت بزرگ تھے، شیخ ذو الفقار احمد نے ان سے مکتوبات مجدد الف ثانی سبقاً سبقاً پڑھی، ان کی وفات کے بعد وہ خواجہ غلام حبیب نقشبندی مجددی ؒ (معروف بہ: مرشدِ عالم) کے دامن سے وابستہ ہو گئے، یہ 1980ء کی بات ہے، 1983ء میں خلافت سے سرفراز کیے گئے، اس دوران میں انھوں نے جامعہ رحمانیہ جہانیاں منڈی اور جامعہ قاسم العلوم ملتان سے دورۂ حدیث کی اعزازی ڈگری بھی حاصل کی ۔

اپنے مرشد کی وفات کے بعد وہ پوری طرح دین کے کاموں میں لگ گئے، کئی سال امریکا میں گزار کر مستقل طور پر جھنگ میں مقیم تھے، لڑکوں اور لڑکیوں کے متعدد دینی ادارے ان کی سرپرستی اور اہتمام میں چل رہے تھے، پچاس سے زائد ملکوں کے اصلاحی و تبلیغی دورے بھی کر چکے تھے، دینی و عصری علوم کی جامعیت ان کی امتیازی خصوصیت تھی، انگریزی زبان پر عبور حاصل تھی، ہر سال رمضان المبارک کا مہینہ (صرف آخری عشرہ) افریقی  ملک زیمبیا میں گزرتا تھا، جہاں وہ اپنے مریدین اور خلفاء کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ اعتکاف فرماتے تھے۔ ہر سال حج کے ایام میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مجلسیں لگتی تھیں اور بے شمار عقیدت مند، ان مجلسوں میں ان سے استفادہ کرتے تھے، گویا سال کے بارہ مہینے ان کا فیض جاری رہتا تھا ۔

Exit mobile version