13 مئی 1951ء کو برصغیر کی علمی، ادبی اور سیاسی تاریخ کا ایک درخشاں باب بند ہوا، جب مولانا حسرت موہانی لکھنؤ میں وفات پا گئے۔ اردو کے اس مایہ ناز شاعر، بے باک سیاست دان، مجاہد آزادی اور حق گو صحافی کی پوری زندگی جہدِ مسلسل کا استعارہ رہی۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
مولانا حسرت موہانی کا اصل نام سید فضل الحسن تھا۔ 4 اکتوبر 1875ء کو قصبہ موہان، ضلع اناؤ (یو پی) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ 1903ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اس وقت ایم اے او کالج) سے بی اے کیا۔ عربی کے لیے مولانا سید ظہور الاسلام فتحپوری اور فارسی کے لیے مولانا نیاز فتحپوری کے والد محمد امیر خان سے اکتسابِ علم کیا۔
ادبی خدمات
ابتدائی عمر سے ہی شاعری سے شغف رکھتے تھے۔ کلام تسنیم لکھنوی کو دکھاتے رہے۔ 1903ء میں علی گڑھ سے ماہنامہ "اردوئے معلیٰ” جاری کیا، جو ایک معیاری ادبی اور سیاسی رسالہ ثابت ہوا۔ قدیم شعرا کے دیوانوں کا انتخاب بھی کیا۔ ان کا کلام تغزل، سادگی اور دلی جذبات کی ترجمانی کا حسین امتزاج ہے۔ اسی بنیاد پر انہیں رئیس المتغزلین کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
سیاسی و قومی خدمات
حسرت موہانی کی سیاسی جدوجہد ان کے طالب علمی کے زمانے سے شروع ہوئی۔ ابتدا میں کانگریس سے وابستہ ہوئے، بعدازاں آل انڈیا مسلم لیگ اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانی اراکین میں شمار ہوئے۔ انگریز حکومت کے خلاف شدید مزاحمت کی، کئی بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ پہلی مرتبہ 1907ء میں ایک مضمون کی پاداش میں قید کیے گئے۔ ان کی مالی حالت خراب ہوئی، رسالہ بند ہو گیا، مگر نہ جذبہ کمزور ہوا، نہ مشق سخن رکی۔ علامہ شبلی نعمانی نے بجا کہا تھا:
”تم آدمی ہو یا جن؟ پہلے شاعر تھے، پھر سیاست دان بنے، اب بنئے ہو گئے ہو!“
حسرت موہانی سودیشی تحریک کے زبردست حامی تھے، اور مرتے دم تک کسی ولایتی چیز کو ہاتھ نہ لگایا۔
مذہبی رجحان اور حج
حسرت موہانی کو مذہب سے گہری وابستگی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کل 13 مرتبہ حج ادا کیا۔ پہلا حج 1933ء میں اور آخری حج 1950ء میں کیا۔ 1938ء کے حج کے بعد مصر، عراق اور ایران بھی گئے۔
پاکستان سے محبت
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے بھارت میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ ان کی قائداعظم محمد علی جناح سے قربت اور ان کے نظریات کی تائید ان کی سیاسی بالغ نظری کی دلیل ہے۔
نمونہ کلام
حسرت موہانی کا یہ شعر آج بھی ان کے عزم، استقامت اور تخلیقی روح کا ترجمان ہے:
ہے مشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے، حسرت کی طبیعت بھی
وفات
13 مئی 1951ء کو 76 سال، 7 ماہ اور 9 دن کی عمر میں حسرت موہانی کا انتقال لکھنؤ میں ہوا۔ ان کی شخصیت آج بھی ادب، حریت، نظریاتی استقامت اور دینی شعور کا حسین امتزاج سمجھی جاتی ہے۔