افواہوں کا پھیلاؤ انسانی معاشروں کے لیے ہمیشہ سے ایک چیلنج رہا ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں افواہوں نے افراد، معاشروں، اور حتیٰ کہ اقوام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ افواہیں نہ صرف اخلاقی اعتبار سے گناہ ہیں بلکہ اجتماعی سطح پر فتنہ و فساد، بدگمانی، اور تباہی کا سبب بھی بنتی ہیں۔
افواہوں کا سماجی و دینی تجزیہ
افواہیں درحقیقت ایک ایسا زہر ہیں جو خاموشی سے دلوں میں نفرت، شک اور خوف پیدا کرتا ہے۔ قرآن کریم نے افواہیں پھیلانے والوں کو فتنہ انگیز قرار دیا ہے اور انہیں فساد فی الارض کا مرتکب کہا ہے۔ دور نبوی میں منافقین اور یہودی عناصر افواہیں پھیلا کر ملت اسلامیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ سورۃ آل عمران میں فرمایا:
فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِه (آل عمران: 7)
اسی طرح سورۃ البقرہ میں کہا گیا:
وَالفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (البقرۃ: 191)
یہ آیات اس بات کا واضح پیغام دیتی ہیں کہ افواہ اور فتنہ انگیزی قتل سے بھی بڑا جرم ہے کیونکہ اس کے اثرات کئی گنا زیادہ تباہ کن ہوتے ہیں۔
اخلاقی پہلو
افواہیں پھیلانا اخلاقی گراوٹ کی علامت ہے۔ جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، بہتان لگانا، اور لوگوں کی کردار کشی کرنا وہ اعمال ہیں جو کسی بھی مہذب معاشرے میں ناقابل قبول ہیں۔ اسلام کا اخلاقی نظام صداقت، دیانت، حسنِ ظن، اور عدل و انصاف کی بنیاد پر قائم ہے۔
انفرادی و اجتماعی ذمہ داریاں
اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ بغیر تحقیق کے کوئی خبر نہ پھیلائی جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا (الحجرات: 6)
لہٰذا ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ افواہوں کے پھیلاؤ میں حصہ نہ لے بلکہ ان کی روک تھام میں کردار ادا کرے۔ حکومت، میڈیا اور سماجی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو درست اور مصدقہ معلومات فراہم کریں تاکہ افواہ ساز عناصر کی حوصلہ شکنی ہو۔
افواہیں صرف الفاظ نہیں ہوتیں، یہ وہ چنگاریاں ہیں جو پورے معاشرے کو جلا سکتی ہیں۔ ان کے سد باب کے لیے ہر سطح پر سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک پُرامن، باشعور اور مہذب معاشرے کی تشکیل کر سکیں۔