آج کل سوشل میڈیا پر مسلم مفکرین ،فلاسفروں اور دانشوروں کے بارے میں بہت سی غیر مصدقہ تحریریں خوب پھیلائی جارہی ہیں۔طرفین موضوع کے حق اور مخالفت میں بڑی دور کی کوڑیاں لارہے ہیں اور بعض تو ٹامک ٹوئیے ماررہے ہیں اور ٹمکیریوں سے کام چلا ر ہے ہیں۔ایک صاحب نے تو سیدھے سبھاؤ علامہ قاضی ابن رشد کو بلاتحقیق ملحد ہی قرار دے دیا ہے اور اس پر وہ اور ان کے پیروکار بڑے معصومانہ انداز میں اپنی منطق بھی بگھار رہے ہیں۔ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے؟
ہمارا سوال یہ ہے:کیا بدایۃ المجتہد و نہایۃ المقصد اور فصل المقال کا مصنف اور قرطبہ کا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) ملحد ہوسکتا ہے؟ان کی یہ اور دوسری بلند پایہ کتب پاکستان اور بیرون ملک جامعات میں ماسٹر سطح کے مختلف مضامین کےنصاب میں شامل ہے۔بات صرف اتنی ہے کہ علامہ ابن رشد کے معاصرین کو ان کے بیان کردہ افکار کی سمجھ آئی نہیں۔انھوں نے حکمران وقت کو شکایت کردی اور اس معاصرانہ چشمک (المعروف حسد) کا خمیازہ اس عظیم فلسفی کو قید وبند کی صورت میں بھگتنا پڑا۔اس غوغا آرائی میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ابن رشد دلیل اور منطق کے ضمن میں کہاں کھڑے ہوکر بات کررہے ہیں۔ان کا طرزِ استدلال کیا ہے؟انھوں نے تو کہیں اپنے فلسفے میں وحی کی نفی نہیں کی بلکہ دلیل ومنطق سے اس کا اثبات کیا ہے۔وہ نہیں ہوتے تو کیا ارسطو کے فلسفہ اور منطق سے دنیا باخبر ہوتی؟ اگر ابن رشد کو نکال دیں تو تمام علم فلسفہ ومنطق کی کڑیاں ہی ٹوٹ جاتی ہیں۔ذرا غور کیجیے ان کے بغیر اگر دنیا فلسفۂ ارسطو سے آگاہ ہوتی تو کیا ایسی ہی شرح وبسط کے ساتھ؟ایسے فلاسفر اپنے معاصرین سے بالعموم بہت آگے ہوتے ہیں۔اس لیے گزارش یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی چکا چوند سے متاثر ہمارے دانش ور مکمل تحقیق کے بعد کوئی ’’حکم‘‘ صادر فرمائیں۔
ابن رشد پر گفتگو کرنے والوں نے شاید ان کی مختصر کتاب فصل المقال ملاحظہ نہیں کی۔ اگر وہ پڑھ لیتے تو انھیں اس عظیم مسلم فلسفی کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہو جاتا۔ وہ اپنی اس کتاب میں نہایت جامعیت اور اختصار کے ساتھ شریعت اور فلسفہ کے باہمی تعلق کو واضح کرتے ہیں۔اس مختصر کتاب کو حکمت کے لحاظ سے عربی فکر کا خلاصہ قرار دیا جاتا ہے اور اس کا موضوع شریعت اور حکمت کا اتصال ہے۔ واضح رہے کہ اس موضوع پر قلم اٹھانے والوں میں ابن رشد پہلا فلسفی نہیں تھا۔ ان سے پہلے معتزلہ اور دوسرے بھی بہت کچھ لکھ چکے تھے لیکن ابن رشد نے بالکل الگ انداز میں لکھا ہے اور خالص حکمت قرآنی کی روشنی میں لکھا ہے اور اعتدال کی راہ اختیار کی ہے۔
علامہ شبلی نعمانی کے بہ قول ’’ ابن رشد جدید علم الکلام کے بانی تھے‘‘۔ انھوں نے لکھا کہ ”علم الکلام میں عام طریقہ یہ تھا کہ مسائل عقائد پر جو استدلال پیش کرتے تھے وہ اپنی ایجاد ہوتے تھے، برخلاف اس کے علامہ موصوف نے مسائل مذکورہ پر جو دلیلیں قائم کی ہیں سب خاص قرآن مجید سے اخذ کی ہیں اور ثابت کیا کہ قرآن مجید کے دلائل جس طرح خطابی اور اقناعی ہیں یعنی عام آدمی کو ان سے تسلی ہو جاتی ہے، اسی طرح وہ قیاسی اور برہانی بھی ہیں۔ یعنی منطق کے اصول اور معیار پر پورا اُتر سکتے ہیں”۔ ابن رشد نے اپنی کتاب میں اس حقیقت کو واضح کیا کہ قرآن مجید کا مطالبہ یہ ہے کہ غور و فکر اور تدبر سے کام لیا جائے اور یہ بات بغیر علم کے حاصل نہیں ہو سکتی، اس لیے شریعت کے لحاظ سے اس علم کا حاصل کرنا واجب ہے جس کے ذریعے غور و فکر کیا جاتا ہے اور نتائج حاصل کیے جاتے ہیں لیکن یہ چیز ہر کس وناکس کو حاصل نہیں ہوتی۔ علم کے سمندر کا شناور وہی ہو سکتا ہے اور اس کی گہرائی تک اسی کی رسائی ہو سکتی ہے، جو علوم عقلیہ اور نقلیہ کو باضابطہ حاصل کر کے ان میں مہارت حاصل کرے ۔ایسے لوگ قرآن کی اصطلاح میں” راسخین فی العلم” ہوتے ہیں اور یہی لوگ قرآن کے باطن کو جانتے ہیں اور یہی تاویل کرنے کے مستحق ہیں۔ باقی عام لوگوں کا، جو علم کی روشنی سے فیض یاب نہیں ہیں، شریعت میں علمی پایہ بہت پست ہے۔
حکیم ابو نصر الفارابی نے بے علمی کے بارے میں کہا تھا کہ جو فرد یا جماعت نورِ علم سے خالی ہے، وہ حیوانی حالت میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا اس کائنات میں امتیازی پہلو ہی عقل کا استعمال ہے اور دنیا کی تمام مذہبی کتابوں میں صرف قرآن ہی ایسی کتاب ہے جس نے اپنی امت سے علم و عقل اور تدبر و فہم کا مطالبہ کیا ہے بلکہ غیر مسلموں سے بھی عقلی استدلال سے بحث کی ہے۔ برہان (دلیل) قرآن حکیم کا لفظ ہے۔ یہ استدلال، حجت اور دلیل بیّن کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ ابن رشد کی کتاب فصل المقال کا خلاصہ یہی ایک لفظ ہے یعنی برہان ۔ قرآن شریف کا مطالبہ بھی یہی ہے اور قرآن کہتا ہے ، ترجمہ: ’’ تم دلیل لے کر آؤ اگر تم سچے ہو‘‘۔
ابن رشد نے نہ تو دین کو بغیر عقل کے شمار کیا ہے اور نہ عقل کو دین سے الگ سمجھا ہے بلکہ درمیانی راہ اختیار کی ہے یعنی شریعت اور حکمت دونوں ایک دوسرے کے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے ماہر اور عالم بھی ہیں اور ان میں موافقت بھی ہوتی ہے انھوں نے ایک ایسی راہ اختیار کی ہے، جسے دین کے معاملے میں ہر ایک مومن پسند کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ عقل وفکر کی قیمت بھی پہچانے گا۔ ابن رشد نے اس ضمن میں چار اصول قائم کیے ہیں:
1۔ شریعت، اس کی تفہیم کے لیے فلسفہ جاننا ضروری ہے۔
2۔ شریعت کے ظاہر ی معنی عالموں کے لیے ہیں اور باطنی معنی خاص لوگوں کے لیے ہیں۔ ان معنی میں کبھی تاویل کرنا ضروری ہوتا ہے اور یہ خاص طبقہ کا کام ہوتا ہے۔ مراد یہ کہ صرف ائمہ فقیہ یہ کام کرسکتے ہیں۔
3۔ نصوص کی تاویل کے لیے خاص قواعد بنائے گئے ہیں۔
4۔ عقل کی قدرت کے حدود مقرر کیے گئے ہیں وحی اور عقل کا رشتہ بتایا گیا ہے۔
ابن رشد کہتے ہیں کہ شریعت اور حکمت (یا فلسفہ اور دین) دونوں دودھ شریک بہنیں ہیں جنھوں نے ایک ہی ماں کا دودھ پیا ہے اور یہ دونوں انسانی سعادت کے لیے آپس میں تعاون کرتی ہے۔ابن رشد نے یہ ثابت کیا ہے کہ شریعت کا اقتضا کیا ہے؟ان کے بہ قول قرآن مجید میں اس بات کی تائید کی گئی ہے کہ صانع اور مصنوع کے رشتہ پر کائنات اور خالقِ کائنات پر عقل کے ذریعے غور کیا جائے ۔اس باب میں انھوں نے آیاتِ قرآنی سے استشہاد واستدلال کیا ہے۔ مزیدبرآں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کوئی فقیہ قیاس اور اجتہاد میں گمراہ ہو جاتا ہے تو یہ اصول فقہ کا نقص شمارنہیں ہوگا بلکہ اس فقیہ میں کچھ نقص ہوگا بالکل اسی طرح فلسفہ کو اگر کوئی شخص غلط استعمال کرے تو اس سے فلسفہ پر کوئی حرف نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو اپنی معرفت کی دعوت دی ہے اور ہر شخص اپنی استعداد اور اہلیت کے موافق اس کی تصدیق کرتا ہے۔ لوگوں کی طبائع مختلف ہیں، ان کی علمی استعداد مختلف ہے ۔بعض خطابی اقوال سے بعض جدلی اور بعض برہانی اقوال سے تصدیق کرتے ہیں۔ مخلوق کے ان مدارج اور عقل کے اس اختلاف پر مفصل بحث اور تقسیم کے بعد ابن رشد نے یہ ثابت کیا ہے کہ معقول اور منقول میں کوئی تضاد نہیں ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ہے لیکن نہ تو ہر ظاہر قابل تاویل ہے اورنہ ہر تاویل قابلِ اشاعت ۔
یہ بھی یاد رہے کہ حضرت امام غزالی نے فارابی اور ابن سینا کو ان کے فلسفیانہ خیالات کی بنا پر کافر کہا تھا لیکن ابن رشد نے ان کے فلسفہ کے رد میں جو کتاب لکھی، اس میں یہ ثابت کیا تھا کہ ان دونوں کی تکفیر قطعی غلط ہے۔
مختصر حالاتِ زندگی:
قاضی ابو الولید محمد بن احمد بن محمد بن احمد بن احمد ابن رشد المالکی چھٹی صدی ہجری کے اوائل میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا سنِ پیدائش 520 ہجری بمطابق 1126 عیسوی ہے۔ ان کے خاندان کا اندلس (موجودہ اسپین )کے مذہبی علماء میں مستند مقام تھا۔ ان کے دادا قرطبہ کے قاضی تھے اور خود ابن رشد بھی قرطبہ کے قاضی القضاۃ رہے تھے۔ ابن رشد نے ابن باجہ، ابن طفیل اور شیخ محی الدین ابن عربی جیسے عظیم مفکرین کا زمانہ پایا تھا اور خاص طور پر دونوں اوّل الذکر مفکرین سے ان کے گہرے تعلقات تھے۔ ابن رشد کی اپنے زمانہ ہی میں خوب شہرت ہو گئی تھی اور یہی شہرت ان کے زوال کا بھی سبب بنی تھی۔ ابن رشد اپنے بچپن سے لے کر اخیر عمر تک مطالعے کے دھنی رہے تھے اور طلبِ علم میں جس قدر انھوں نے محنت کی دنیا میں اس کی مثال شاذ و نادر ہی ملتی ہے ۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی تمام عمر میں صرف دو راتیں ایسی گزری تھی جب وہ مطالعہ کتب نہیں کر سکے تھے۔ ایک وہ رات جب ان کے والد گرامی کی وفات ہوئی تھی اور دوسری وہ رات ،جب ان کا نکاح ہوا تھا۔ ان کی تصانیف کی تعدادقریباً 10 ہزار اوراق پر مشتمل بتائی جاتی ہےاور ان کی کتب کی تعداد100 سے زیادہ ہے ۔ان کا انتقال 595 ہجری بمطابق سنہ 1198 عیسوی میں ہوا تھا۔ اس اعتبار سے ان کی عمر کوئی 72سال بنتی ہے۔
ابن رشد نے مذہب ، فقہ ، طب ، حکمت ، فلسفہ ،سیاست سمیت بہت سے موضوعات پر اپنی بلند پایہ تصنیفات یادگار چھوڑی ہیں۔ ان کی بعض اہم تصانیف کے نام یہ ہیں:
- بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد: اس کتاب میں، ابن رشد نے فقہی مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک طریق کار پیش کیا جو عقلی استدلال اور استنباط پر مبنی ہے۔
- تہافت التہافۃ:یہ امام غزالی کی تہافت الفلاسفہ کے رد میں لکھی گئی تھی۔ یہ ابن رشد کی سب سے مشہور تصنیف ہے اور اسے "عقل کا بیانیہ” بھی کہا جاتا ہے۔
- فصل المقال: یہ مختصر کتاب شریعت اور حکمت کے امتزاج پر ابن رشد کے فلسفیانہ نقطہ نظر کی غماز ہے۔
- المقدمات المہدات: مذہب اور فلسفے کے تعلقات پر ایک مقالہ۔
- تعلیقات ارسطو علی کتاب المزاج: ارسطو کی کتاب "دی ٹریٹی آن مزاج” پر تبصرہ۔
- تعلیقات ارسطو علی کتاب النفس: ارسطو کی کتاب "دی ٹریٹیج آن دی سول” پر تبصرہ۔
- تعلیقات ارسطو علی کتاب المابعد الطبیعات (تفسیر مابعد الطبیعات): ارسطو کی کتاب "میٹافزکس” پر تبصرہ۔
- کتاب الکلیات الطب: طب پر ایک جامع کتاب۔
- الشرح الصغیر علی کتاب جالینوس فی قوى الطبيعات: جالینوس کی کتاب "دی پاورز آف نیچر” پر ایک مختصر شرح۔
- التعرفات: سیاسیات پر ایک کتاب۔
- منہاج الفقہاء: فقہ کے طریق کار پر ایک کتاب۔
- فتاوی ٰابن رشد: مختلف مذہبی مسائل پر فتاویٰ کا مجموعہ۔
ابن رشد کی ان منتخب تصانیف میں سے بعض کےعربی اور اردو زبان میں تراجم ہوچکے ہیں۔نیز ان کی کتب کے تراجم دنیا کی بہت سی زبانوں میں کیے گئے ہیں اور وہ جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں۔ان کا فکر وفلسفہ آج بھی اہمیت کا حامل ہے۔
اِستدراک
استادِ محترم ارشاد احمد کلیمی صاحب نے اس مضمون پر اپنا تبصرہ عنایت کیا ہے۔ان کا تبصرہ ایک طرح سے موضوع زیرِبحث کا تکملہ ہے۔راقم نے طوالت کے خوف سے ابن رشد کے خلاف خلیفہ ٔ وقت کی معاندانہ کارروائی کا ذکر نہیں کیا تھا۔ کلیمی صاحب لکھتے ہیں: ’’ علامہ ابنِ رشد ملحد تھے یا نہیں، اس سے قطع نظر یہ (مسلم اندلس کا )خلیفہ ابو یوسف یعقوب المنصور تھا جس کی فلسفیوں سے نفرت اور حاسدین کی سازشوں نے اسےمجبور کیا کہ وہ اپنے قاضی القضاہ اور طبیبِ خاص پر کفر کا الزام لگا کر اسے ملک بدر کر دے، خلیفہ نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی تمام فلسفیانہ تصانیف کو آگ لگادی اور طب، فلکیات اور حساب کے علاوہ فلسفہ سمیت تمام جملہ علوم پر پابندی عاید کردی‘‘۔