Home بلاگ فاتح شام ابو محمد الجولانی؟

فاتح شام ابو محمد الجولانی؟

اتوارکی شام کویہ ایک ایسا لمحہ تھا جس کا24گھنٹے پہلے تک کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھاکہ پیشگی اطلاع اور انتظامات کے بغیر ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی پرانے دمشق میں تاریخی مسجدِ اموی میں اچانک نمودارہوئے ۔فتح سے سرشارشامی عوام کے لیے اپنے انقلابی رہنماء کو اتنے قریب سے دیکھنا خاصا غیر معمولی تھا۔ یہ مسجد کئی دہائیوں سے ایک ایسی علامتی جگہ تھی جہاں بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد عید کی نماز پڑھنے جایا کرتے تھے۔آج الجولانی کے گرد ان کے سینکڑوں محافظ اور ذاتی گارڈز موجود تھے جب وہ مسجد میں داخل ہوئے جہاں انھوں نے مغرب کی نماز پڑھی اور وہاں موجود نمازیوں سے مختصر خطاب کیا تو اس دوران وہاں فتح اور اللہ اکبر کے نعروں سے فضاگونج اٹھی ۔

شامی عوام اس کامیابی اور اس تاریخی فتح پرخوشی سے سرشارتھے ، ان کے جشن اورخوشی کی جھلک واضح نظرآرہی تھی ۔فوجی لباس میں ملبوس ،فاتح شام جولانی ایک ایسے شہر اور ایسی قوم سے مخاطب تھے جو بشارالاسد اور البعث رجیم کے ہاتھوں دہائیوں سے مظالم کا سامنا کر رہی تھی۔ صرف دو ہفتوںسے بھی کم وقت میں یہ رجیم ختم ہو گئی اور صرف اس کی یاد ہی باقی رہ گئی۔ہیئت تحریرالشام اوراس کے سربراہ ابومحمدالجولانی کون ہیں ان کاپس منظرکیاہے آئیں اس بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔

بی بی سی کے مطابق ابومحمدجولانی کا اصل نام، ان کی تاریخ اور جائے پیدائش، شہریت کے بارے میں مختلف معلومات موجود ہیں جس کی وجہ سے ان کی پراسرار شخصیت میں اضافہ ہوتا ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق جولانی 1975 اور 1979 کے درمیان پیدا ہوئے جبکہ انٹرپول کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش 1975 ہے۔امریکی ٹی وی نیٹ ورک پی بی ایس کو دیے جانے والے ایک انٹرویو کے مطابق ان کا اصلی نام احمد حسین ہے اور ان کو جولانی گولان کی پہاڑیوں کی وجہ سے کہا جاتا ہے جہاں سے ان کے خاندان کا تاریخی تعلق ہے۔ تاہم ایک لبنانی اخبار نے دعوی کیا ہے کہ الجولانی حقیقت میں عراقی شہری ہیں اور ان کے نام کی وجہ فلوجہ کا وہ علاقہ ہے جسے الجولان کہتے ہیں اور ان کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔ اردن کے سیکیورٹی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ الجولانی کے اصل نام کا علم محض القاعدہ کے چوٹی کے افسران کو ہے، تاہم الجولانی ان کے درمیان الشیخ الفاتح کے لقب سے معروف ہے۔

اسی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ 1982 میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد پیٹرولیئم انجینیئر کے طور پر کام کرتے تھے۔ 1989 میں ان کے اہلخانہ شام واپس لوٹے اور اس کے بعد ان کی پرورش دمشق کے قریب ہوئی۔چند خبروں کے مطابق انھوں نے دمشق میں طب کی تعلیم حاصل کی لیکن تیسرے سال القاعدہ میں اس وقت شمولیت اختیار کر لی جب امریکہ نے 2003 میںعراق پر حملہ کیا۔

انہوں نے 2005 میں عراق میں امریکہ کے خلاف جنگ میں حصہ لیا پھر عراقی متعصب شیعہ حکومت کے خلاف بھی مصروف جنگ رہے تکریت فلوجہ انبار موصل کرک میں شدید جنگیں لڑیں اور انہوں نے عراق کا دوسرا سب سے بڑا شہر موصل ایک رات کے آپریشن میں عراقی شیعہ افواج سے چھینا۔ جب شام میں عرب بہار شروع ہوئی جو کہ عرب خزاں ثابت ہوئی تو ابو محمد الجولانی اپنے تین ہزار ساتھیوں کے ہمراہ عراق سے شام میں داخل ہوئے اور مشہور شامی سلفی عالم دین ابو فراس السوری سے اتحاد کر کے شام میں جہاد کا آغاز کیا اور جبہتہ النصرہ کی بنیاد رکھی جس کے پہلے امیر ابو فراس السوری تھے جو کہ امریکی ڈرون حملے میں شہیدہوئے ۔

کہا جاتا ہے کہ وہ جلد ہی عراق میں القاعدہ کے سرگرم رہنما ابو مصعب الزرقاوی کے قریبی ساتھی بن گئے لیکن 2006 میں الزرقاوی کی شہادت کے بعد وہ لبنان منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے جند الشام نامی لبنانی عسکری گروہ کو تربیت فراہم کی۔اس کے بعد ان کی عراق واپسی ہوئی جہاں امریکی فوج نے انھیں گرفتار کرلیا اور008 2میں ان کو رہائی ملی تو وہ دولت اسلامیہ میں شامل ہو گئے۔کہا جاتا ہے کہ انھیں امریکی کیمپ بکا نامی قید خانے میں رکھا گیا تھا جہاں انہیں تشددکانشانہ بنایاگیا۔

2011میں شام میں بغاوت خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئی تو الجولانی نے ابوبکر البغدادی کی حمایت سے شام میں دولت اسلامیہ کی مقامی شاخ کی بنیاد رکھی۔ اوریوں2012میں جبھہ النصرہ دولت اسلامیہ کی عراقی شاخ بن گئی۔تاہم 2013 میں جب ابوبکر البغدادی نے باقاعدہ طور پر جبھہ النصرہ اور دولت اسلامیہ کے انضمام کا اعلان کیا تو الجولانی نے اسے رد کرتے ہوئے القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی حمایت کا اعلان کر دیا۔یہ وہ وقت تھا کہ جب جبھہ النصرہ عسکری اعتبار سے طاقتور ہوتی جا رہی تھی۔ چند رپورٹس کے مطابق الجولانی اگست 2011 میں شام واپس لوٹے اور انھوں نے القاعدہ کی ایک ذیلی شاخ بنائی جس کا مقصد بشار الاسد کے خلاف جنگ تھا۔

2016 میں انہوں نے اپنی تنظیم کا نام بدل کر جبہہ فتح الشام رکھا اور بعد ازاں دیگر گروپوں کو ضم کر کے 2017 میں ہیئت تحریر الشام نامی تنظیم تشکیل دی جس کا مقصد شام کو اسد حکومت اور ایرانی ملیشیاں سے آزاد کرانا اور "اسلامی ریاست” قائم کرنا تھا۔ ابو جابر ہاشم الشیخ کواس اتحادکاپہلا امیرور ابو محمد الجولانی کو ملٹری آپریشنل چیف منتخب بنایاگیا مگر بعد ازاں ابو جابر ہاشم الشیخ نے جبھہ التحریر الشام کی قیادت چھوڑ دی اور اس کا متفقہ طور پر امیر ابو محمد الجولانی منتخب ہوئے ابو جابر اب بھی تحریر الشام میں موجود ہے۔

ابو محمد جولانی کی تنظیم نے شامی شہریوں کو شہری خدمات، تعلیم، صحت، عدالتی نظام اور دیگر سہولیات مہیا کرنے کیلئے ادلب شہر میں شامی سیلویشن حکومت قائم کی.ان کی قیادت میں ہیئت تحریر الشام نے حلب صوبے میں اسلامی نظام نافذ کیا، عدالتیں بنائیں ،پولیس فورس تک قائم کی۔ حلب میں ان کا کافی اثرورسوخ تھا جو شام میں اپوزیشن کا مرکز بھی سمجھا جاتا تھا۔ یہ علاقہ اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ یہ ترکی کی سرحد سے ملتا ہے۔اس دوران الجولانی نے عسکری کارروائیوں کے ساتھ ساتھ مقامی انتظامیہ چلانے اور سفارت کاری میں مہارت بھی دکھائی اور شام کے تنازع میں ایک اہم کردار بن کر ابھرے۔

شام کا سب سے بڑے شہر حلب پر انہی کی جماعت کا قبضہ تھا جس پر 2016 میں ایران، روس، اسدی فوج اور حزب اللہ نے دوبارہ قبضہ کیا اس شہر پر قبضہ کرنے سے قبل دو سال تک اس شہر کی شدید ناکہ بندی کی گئی اور ہر طرح کی کھانے پینے والی اشیا اور ادویات کا شہر میں داخلہ ممنوع تھا حتی کے لوگ کتے بلیاں پکڑ پکڑ کر کھانے پر مجبور رہے دو ماہ تک حلب کے اطراف میں شدید جنگ لڑی گئی اور حلب شہر پر روس نے تباہ کن بمباری کی اس دوران اسدی حکومت نے بھی یہاں کے مسلمانوں پرمظالم کے پہاڑتوڑے ۔

اسدی حکومت اور اسکے زیر کنٹرول شیعہ ملیشیاوں سے لڑنے والی شامی جماعتوں سے کئی بار جولانی کے اختلافات بھی ہوئے انکے بقول تمام شامی جماعتوں کو متحد ہو جانا چاہیے اور کس بھی غیر ملکی حکومت سے کسی بھی قسم کی امداد نہیں لینی چاہیے انکی جماعت کے تقریبا دس ہزار لوگ اسدی فوج ،شیعہ ملیشیاوں، روس اور ایران سے لڑتے ہوئے شہیدہوئے ۔

اسامہ العبسی الواحدی جو ابو محمد الجولانی کے نام سے معروف ہے الجولانی کو امریکہ یعنی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے 16 مئی 2013 کو عالمی دہشت گرد قرار دیا ۔اقوام متحدہ، ترکیہ اور یورپی یونین بھی تحریرالشام کو "دہشتگرد تنظیم قرار دے چکے ہیں جسے الجولانی نے غیر منصفانہ قرار دیا تھا۔ امریکہ کی طرف سے الجولانی کی گرفتاری کے لیے معلومات فراہم کرنے پر 10 ملین ڈالر کی انعامی رقم رکھی گئی تھی۔ امریکہ ابو محمد الجولانی پر تین دفعہ ڈرون اٹیک کر چکا ہے جسمیں الجولانی کی بیوی بچے چار باڈی گارڈ ایک ڈرائیورشہیدہوگئے تھے اس کے علاوہ داعش کی طرف سے بھی چار بار ابو محمد جولانی پر قاتلانہ حملے ہو ئے ہیں ۔
محلِ وقوع کے اعتبار سے شام مشرقِ وسطی کے عین درمیان میں واقع ہے اور یہاں جو بھی ہوتا ہے اس کا اثر نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا پر پڑتا ہے۔14 برس تک جاری رہنے والی شام کی جنگ میں روس، ترکی، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، امریکہ، ایران سمیت اتنی عالمی طاقتیں ملوث تھِیں کہ یہ خانہ جنگی کم اور ایک چھوٹی سی عالمی جنگ زیادہ لگنے لگی تھی۔اب انقلابی رہنما ابو محمد الجولانی، شامی عوام اور بیرونی طاقتوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس جنگ کو ختم کرکے شام میں ایک عوامی حکومت قائم کرناہے ۔

Exit mobile version