تحریر: علی ہلال
سات اکتوبر 2023ء سے جاری غزہ اور 23 ستمبر 2024ء سے لبنان پر اسرائیلی جارحیت پر نہ صرف عالم اسلام بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ امریکن یونیورسٹیوں کے نوجوان طلبہ نے رواں برس 18 اپریل سے جس والہانہ انداز میں اس جنگ ،نسل کشیاور فلسطینیوں کے قتل عام کی مذمت کی ہے وہ غیر معمولی ہے۔
مشرق وسطی کے سیاسی وعسکری منظرنامے پر نظر رکھتے ہوئے اس جنگ کے دوران مجھے ایک تبدیلی نے بہت حیرت میں ڈالا ہوا ہے۔
اس لڑائی کے دوران طاقت، محبت ،عقیدت اور سیادت کے مراکز تبدیل ہورہے ہیں۔ عالم اسلام کی اکثریت سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔ جبکہ شیعہ ان کے مقابلے میں کم ہیں۔
2003ء سے عراق پر امریکی حملے اور بعد ازاں مارچ 2011ء میں شام میں شروع ہونے والی عوامی تحریک کو کچلنے میں ایران اور عراق وشام میں اس کے حامی گروپوں نے جس انداز میں اس تحریک کو کچلنے میں کردار ادا کیا وہ ناقابل بیان ہے۔
یہی وجہ تھی کہ اس دوران عرب ممالک کو خطے کے سنی مسلمانوں کا ہمدرد خیال کیا جاتا رہا ۔جبکہ ایران اور اس کے حامیوں کو مخالف گروہ تصور کیا جاتا رہا۔
تاہم 2017ء میں امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد مشرق وسطی ٹکچھ ایسی سیاسی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئیں جس کے باعث خطے کے حالات میں غیر معمولی نظریاتی، فکری اور عملی تبدیلیاں سامنے آگئیں ۔
آپ عالمی میڈیا سے سوشل میڈیا پر نظر دوڑائیں ۔ آپ کو سعودی عرب اس جگہ کھڑا نظر آئے گا جہاں 2003ء سے قبل عراق کا صدام حسین اور 2011ء سے پہلے لیبیا کا معمر قذافی کھڑا تھا۔ ایران کے جن گروپوں کا کل تک نام لینا کسی کو گوارا نہیں تھا وہ آج ان کی تعریف پر مجبور ہے۔
جبکہ جس سعودی عرب کے خلاف لفظ لکھنا مشکل تھا آج اس کے حق میں ایک لفظ سننے کو کان میسر نہیں ہے ۔
یہ عرب خطے میں نظر آنے والی بہت بڑی تبدیلی ہے۔
عالمی استعماری قوتیں کسی بھی ملک کے تابوت میں کیل ٹھونکنے سے قبل اسے بدنام کرتی ہیں۔ یہ بڑا پرانا منصوبہ ہے۔ ہم معمر قذافی سے خواتین گارڈز کے باعث متنفر تھے ۔ صدام سے بعث کے باعث دوری اختیار کی اور کویت پر حملے کو اس کا جرم قراردے کر ان کی موت کا غم ہلکا کر بیٹھے ۔
اللہ نہ کرے کہ کل کو عالم اسلام کا ایک اور اہم ملک اس انجام کا شکار ہو۔ اگرچہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان قربتیں شروع ہوئی ہیں جو خوش آئند ہیں ۔
تاہم حالات کے تیور کچھ اچھے نہیں لگ رہے۔ اسرائیل لبنان میں جنگ بندی کے لئے کوشاں ہے اور جنگ بندی کا سیدھا مطلب یہی ہوگا کہ حزب اللہ خطے کی سب سے طاقتور تنظیم بن کر ابھرے گی۔ ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ حزب اللہ کا نیٹ ورک سعودی عرب کے ایسٹرن ریجن تک پھیلا ہوا ہے۔ اس جنگ میں یمن کے حوثی بھی اپنی قوت بچا کر رکھے ہوئے ہیں ۔
میرا خیال ہے سعودی عرب کے ساتھ قربتیں ایران کی مجبوری ہیں۔ تاکہ ٹرمپ کا چار سالہ دور کسی طوراچھا گزر سکے۔ لیکن مشرق وسطی کے موجودہ حالات بظاہر سکون کے ساتھ کنارے لگتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔