مولانا ظہور الحسن درس ؒ: تحریک پاکستان کے عظیم رہنما، شعلہ بیاں خطیب اور شاعر
مولانا ظہور الحسن درس 9 فروری 1905ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولانا عبد الکریم درس کراچی کے معروف عالم دین تھے۔ آپ کے کان میں اذان پیر سید ظہور الحسن بٹالوی نے دی اور اپنا نام تجویز کیا۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد اور دادا کے قائم کردہ مدرسہ درسیہ صدر کراچی میں حاصل کی۔ اس کے بعد درسی نصاب میں والد اور صوفی عبداللہ درس سے تعلیم مکمل کی۔
مولانا ظہور الحسن درس کا تعلق روحانی طور پر خانوادۂ گیلانیہ بغداد شریف سے تھا، اور انہوں نے سید عبدالسلام الگیلانی القادری سے بیعت لی تھی۔ آپ نے کراچی میں جمعہ اور عیدین کی امامت کے فرائض انجام دیے اور 1935ء میں مسلم جماعت انتظامیہ جامع مسجد قصابان کے نام سے ایک ٹرسٹ بھی قائم کیا۔ یہ ٹرسٹ 1860ء کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ کیا گیا، اور مولانا نے اپنی خدمات کا کوئی معاوضہ نہیں لیا، بلکہ اپنی اراضی کی آمدنی کا بڑا حصہ اس ٹرسٹ کے تحت خرچ کیا۔
مولانا ظہور الحسن درس تحریک پاکستان میں بھی فعال رہے۔ 1938ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت صوبائی مسلم لیگ کانفرنس اور 1946ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس کے انعقاد میں ان کا کردار نمایاں رہا۔ 18 اگست 1947ء کو عیدالفطر کی نماز میں، جس میں قائداعظم محمد علی جناح اور کئی دیگر حکومتی شخصیات نے شرکت کی، مولانا نے ایک ولولہ انگیز خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا قیام اسلامی شریعت اور قرآن کے قوانین کے نفاذ کے لیے ہونا چاہیے۔
ہجرت کے بعد، کراچی میں عید گاہ کے میدان پر مہاجرین کے لیے ریلیف کیمپ قائم کیا گیا، جہاں مخیر حضرات کے تعاون سے خوراک فراہم کی جاتی رہی۔ مولانا درس نہ صرف خطیب تھے بلکہ شاعر بھی تھے اور ’ظہور‘ تخلص کرتے تھے۔ انہوں نے کئی کتابیں بھی تحریر کیں، جن میں "چشم تلطف پنجتن”، "معاون ظہور الحسن”، "خون کے آنسو” شامل ہیں۔
مولانا ظہور الحسن درس 14 نومبر 1972ء کو کراچی میں انتقال کر گئے اور دھوبی گھاٹ (لیاری) کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔