Home اسلام گـھُٹی دینے کا اثر

گـھُٹی دینے کا اثر

جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ھے تو اسے اس وقت کوئی میٹھی چیز چٹائی جاتی ھے جسے عرفِ عام میں "گھُٹی” کہا جاتا ھے، لوگوں میں اس کو لے کر ایک بات بہت مشہور ھے کہ:

* اگر بُرے (گنہگار) شخص نے گُھٹی دی تو بچہ بھی اس شخص جیسا برا یا گنہگار بن جائے گا
* جیسی عادات والا شخص گھٹی دے گا ویسی عادات بچہ میں بھی آ جائیں گی

یہ ایک سوچ غلط ھے

اَصل:-

گھٹی درحقیقت ایک دوا کا نام ھے، ملاحظہ ہو:

☆ گھُٹی:
۱۔ وہ دست آور دوا جو نوزائیدہ بچوں کا پیٹ صاف کرنے کے لئے پلاتے ہیں۔ یہ دو قسم کی ہوتی ہے ایک تو سادی جس میں بادیان۔ باؤ بڑنگ۔ باد کھنبہ۔ نرکچور۔ چھوٹی بڑی ہڑ۔ منقٰے۔ کالا نون۔ عناب ہوتے ہیں۔ دوسرے مغلئی جس میں گلاب کے پھول۔ گلاب کا زیرہ۔ انار کی کلی۔ مصری۔ املتاس۔ خمیر۔ سرشت۔ فطرت۔ خو۔ خصلت۔ عادت۔
۲۔ وہ دست آور دوائیں جو نو زائدہ بچے کا پیٹ صاف کرنے کے واسطے دودھ پلانے سے پہلے جوش دے کر اس کے منہ میں ٹپکائی جاتی ہیں۔

(ملاحظہ ہو:- فیروزُ اللغات – از: مولوی فیروز الدین)

☆ تحنیک:
اصل لفظ تحنیک ھے، گھٹی کا لفظ برِصغیر سے آیا ھے۔ تحنیک دینا یعنی کھجور یا چھوہارا کو چبا کر اسے نومولود کے تالو پر لگا دینا۔ نبی پاک ﷺ سے ثابت ھے کہ آپ ﷺ کے پاس نومولود بچے لائے جاتے اور آپ ﷺ ان کے لیے برکت کی دعا کرتے اور ان کو تحنیک فرماتے۔

○ ہندوؤں کی تہم پرستی:-
یہ عقیدہ رکھنا کہ جس طرح کا شخص بچے کو تحنیک کروائے گا بچہ اس جیسا ہی بن جائے گا یہ ہندوؤں کی تہم پرستی ھے۔ ہندو مذہب میں بھی گھٹی دینے کا تصور ھے اور ان کے ہاں دو طرح کی چیزوں سے گھٹی دی جاتی ھے:

* گاؤ موترہ
* پنچھا گاویا

(ملاحظہ ہو:- N. H. Sahasrabudhe; R. D. Mahatme (2000). Mystic Science of Vastu )

ہندوؤں کے ہاں ستاروں کی ہیر پھیر سے قسمت کا حال جاننا، مُہراتا، جیوتیشیا وغیرہ کے ساتھ توہم پرستی کا عام رواج ھے۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد پہلی مرتبہ آنکھیں کھولتے ہی جس شخص کو دیکھے گا اس شخص جیسی خصلتوں والا بن جائے۔ جو شخص اسے پہلی مرتبہ جو بھی کچھ کھلائے گا وہ شخص براہمنوں میں سے پادری ہونا چاہیے ورنہ بچہ بڑے ہو کر ہندو دھرم سے دور اور گناہوں کے راستہ اپنا لے گا۔

اِضافی:-

تحنیک بزرگ اور نیک و صالح لوگوں سے ہی کرائی جاتی ھے برے لوگوں سے کوئی نہیں کراتا۔ تحنیک کا مقصد آئندہ بچے کی صلاح و تقوی کی ایک امید ہوتی ھے۔ اس کا اثر لازم نہیں بس یہ ایک تبرک ھے۔
خوب سمجھ لیں کہ یہ لازمی نہیں کہ نیک شخص تحنیک کرائے گا تو بچہ نیک بنے گا یا گنہگار نے کرا دی تو بچہ گنہگار بن جائے گا، اس کے برعکس بھی ہوسکتا ھے۔ ورنہ بہت سے ایسے لوگوں کی تحنیک نیک و صالح لوگوں نے ہی کی لیکن بڑے ہو کر وہ مجرم، ڈاکو، چور، گنہگار، مشرک اور خدائی یا نبوت کا دعویٰ کرنے والے بن گئے۔

حاصلِ کلام:-

نومولود بچے کو تحنیک کرانا سنت ﷺ ھے۔ اس سے متعلق کسی اور طرح کی بات یا تنبیہ نبی ﷺ نے نہیں فرمائی۔ پس یہ سوچ رکھنا کہ برے شخص کی تحنیک کا اثر برا ہی ہوگا یہ ہندوؤں کی تہم پرستی کے مترادف ھے اور کچھ بعید نہیں برِصغیر کے مسلمانوں میں یہ سوچ ہندوؤں سے ہی آئی ہوگی۔ جبکہ درِحقیقت ایسی سوچ کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ خود بھی اپنی سوچ بدلیں اور دوسروں کو بھی اخلاق سے تہم پرستیوں سے بچنے کی ہدایت کریں۔ اللّٰه ﷻ ہمیں سنتوں بھری زندگی گزارنے والا بنا دیں۔ ۔ ۔آمین!

Exit mobile version