Home بلاگ ساس بہو اور مہتمم مدرس

ساس بہو اور مہتمم مدرس

تحریر: عبدالقدوس محمدی

عورت جب تک بہو ہوتی ہے وہ خود کو دنیا کی سب سے مظلوم بہو سمجھتی ہے جب ساس بنتی ہے تو زیادہ ہی حساس ہو جاتی ہے اور اس کے دکھوں اور گلے شکووں کا کوئ حساب کتاب ہی نہیں رہتا یہی حال مدرس اور مہتمم کا ہے بلکہ ہر آجر اور اجیر کا۔۔۔انسان جب طالبعلم ہوتا ہے تو وہ اساتذہ کو مزے اور آزادی میں دیکھ دیکھ کر رشک کرتا ہے استاذ بنتا ہے تو مہتمم کو دیکھ کر آہیں بھرتا ہے اور دوبارہ طالبعلم بننے کی تمنا کرتا ہے مہتمم بن جائے تو استاذ یا طالبعلم بن جانے کی آرزو لیے پھرتا ہے بلکہ بعض لوگوں کے لیے اہتمام ایسا کمبل ثابت ہوتا ہے جسے وہ تو چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن کمبل ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔۔۔۔اس لیے چند لوگوں کی غلطیوں کا الزام سب کو نہ دیں۔۔۔سوشل میڈیا پر ایسا رونا دھونا نہ کریں کہ مدارس کا نظام اور مہتمم کی حیثیت ہی مزید اور مسلسل مجروح ہوتی رہے۔۔۔۔۔مہتمم جیسا بھی ہو بہرحال وہ مدرسہ کی وہ بنیاد ہوتا ہے جس پر پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے اس لیے مہتمم کا نام اور کام اتنا مشکوک،متنازعہ اور باعث عار نہ بنائیں کہ لوگ اداروں کے اہتمام کا حوصلہ چھوڑ بیٹھیں یا اداروں کے ساتھ تعاون کرنے والے سب مہتممین کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگیں یا سب کو ہی ظالم اور دوسروں کا استحصال کرنے والا سمجھ بیٹھیں۔۔۔اسی طرح مہتمم حضرات دل بڑا کریں۔۔۔جتنا عمارتوں کے لیے سوچتے ہیں کم از کم اتنا اساتذہ کے لیے سوچنا شروع کر دیں۔۔۔۔جتنی اپنے بچوں اور اقربا کی فکر کرتے ہیں اس طرح مدارس کے طلبہ کو اپنے بچے اور اساتذہ کرام کو اقربا سمجھنے لگیں۔۔۔مسائل و مشکلات اس وقت ہر کسی کے لیے نہیں بقول کسے سکون تو قبر میں ہی ہے۔۔لوگ اللہ سے راضی نہیں تو بندوں سے کیسے راضی ہو سکتے ہیں۔۔

اگر خداخوفی ہو اور دیانت ہو تو آج کے دور میں اہتمام کا پتھر بہت بھاری ہے اتنا بھاری کہ اسے اٹھائے بغیر تصور نہیں کیا جا سکتا کہ مہتمم ہونا کتنی بڑی آزمائش ہے۔۔۔مسائل سے انکار نہیں۔۔۔۔ انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں اور ہر کسی سے ہوتی ہیں۔۔۔مدارس کے اخلاص،ایثار،قربانی اور خدمت دین کے مبارک نظام کو طبقاتی محاذ آرائ اور کشمکش کا اکھاڑہ نہ بنائیں۔۔۔۔جیسے مہتممین کی داستانیں سوشل میڈیا کی زینت بنائ جا رہی ہیں اس سے کئ گنازیادہ کہانیاں مہتممین کے سینوں میں بھی دفن ہوتی ہیں۔۔۔۔۔ لیکن پردے رکھیں۔۔۔صبر و تحمل سے کام لیں۔۔۔چوراہے کے بیچ میلے کپڑے دھونے نہ بیٹھ جائیں۔۔۔۔سوشل میڈیا کو بندر کے ہاتھ کااسترا نہ بنائیں۔۔۔۔اپنی ایک بوٹی کے لیے پوری بھینس ذبح نہ کر ڈالیں۔۔۔حکمت اور تدبر سے مسائل حل کریں۔۔۔۔جیسے ساس بہو کا ہر جھگڑا حل نہیں ہو سکتا لیکن گھر چلتے رہتے ہیں ایسے ہی دنیا جہاں کے سب گلے شکوے ختم نہیں ہوسکتے-

ہر نئ کہانی کے ساتھ وفاق المدارس کے نام کی دہائ دی جاتی ہے بجا کہ وفاق المدارس ہمارا سائبان اور امید کی کرن ہے اور وفاق المدارس کے ذریعے بہت سی بہتری کی کوشش کی جاسکتی ہے اگر وفاق المدارس کے ہر علاقے کے مسؤولین اور ناظمین مولانا طلحہ رحمانی والا کردار ادا کرنے لگیں تو بہت مسئلے حل ہو سکتے ہیں لیکن یہ بھی یاد رہے کہ وفاق کے پاس کوئ قوت نافذہ نہیں اور نہ ہی جزا و سزا کے اختیارات ہیں اس لیے ضرورت سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا بھی درست نہیں کہ اس کے نتیجے میں گلے شکوے زیادہ ہوتے ہیں۔۔۔ہر علاقے کے بڑے اور ممتاز علماء کرام کے ایسے فورمز تشکیل دئیے جائیں جو اس قسم کے معاملات کو دیکھیں سنیں-

سوشل میڈیا پر شور مچاتے ہوئے یہ خیال رہے کہ شیر آیا شیر آیا والی بات نہ ہو جائے اور جب بھی کوئ نیا قضیہ سامنے آئے تو اس کی تحقیق ضرور کرلی جائے حضرت لقمان حکیم کے بقول” اگر کوئ تمہارے پاس اس حال میں آئے کہ اس کی ایک آنکھ پھوٹی ہوئ ہو تو تب بھی تحقیق کر لیا کرو ممکن ہے وہ دوسرے کی دونوں آنکھیں پھوڑ آیا ہو”
مدارس کے مبارک نظام کی بقا اور مخلصانہ اصلاح کی فکر کیجیے تماشہ نہ بنائیے
اللہ کریم ہم سب کو حامی و ناصر ہو۔ آمین

Exit mobile version