شادی کے موقع پر ایک خاص رسم دیکھنے کو ملتی ھے جس میں:
* دلہے اور دلہن کو باری باری آئینہ دیکھایا جاتا ھے
* دلہے اور دلہن کو ایک ساتھ آئینہ میں ایک دوسرے کو دیکھلایا جاتا ھے
* قرآن کی زیارت کروائی جاتی ھے
اس کے پیچھے سوچ ھے کہ دلہا دلہن ایک دوسرے کے لیے نامحرم تھے تو ایک دوسرے کو دیکھنا درست نہیں اور اب نکاح کے بعد پہلی مرتبہ جب دیکھنے لگے ہیں تو براہِ راست دیکھنے کے بجائے اس طرح دیکھیں تاکہ ایک دوسرے کو نظر نا لگے۔
یہ ایک غلط سوچ ھے
اَصل:-
اس کی شروعات مغل سلطنت کے زمانے سے ہوئی۔
☆ آرسی:
آرسی ایک انگوٹھی کا نام ھے جو کہ ایک طرح کی آئینہ دار انگوٹھی یا زیور ھے، جسے عورتیں ہاتھ میں پہنتی تھیں، جس میں شیشہ جڑا ہوتا اور بطور آئینہ فوراً استعمال کیا جا سکتا، یہ مغلیہ دور میں شہزادیاں استعمال کرتیں تھیں۔ بعد میں عام استعمال ہو گیا اب یہ متروک ہو چکا ہے اب بھی دولہا دلہن کو شادی کے موقع پر آئینہ اور قرآن دکھایا جاتا ھے جسے آرسی مُصْحَف دکھانا کہتے ہیں اب یہ دولہا دلہن کے منہ دکھائی کی رسم میں تبدیل ہو چکا ھے۔
(ملاحظہ ہو:- فرہنگ آصفیہ فیروز اللغات)
☆ مُصحف:
مصحف کے دو معنیٰ ہیں اور موجودہ رسم کا تعلق دونوں تعریفوں سے جڑتا ھے، دونوں معنیٰ اور ان پر منحصر معاشرے میں موجود رسوم درج ذیل ہیں:-
۱) پہلا معنیٰ:
وہ کتاب جس میں رسالے اور صحیفے جمع ہوں، جمع کیا گیا ؛ وہ چیز جس میں لکھے ہوئے کاغذوں کے ٹکڑے جمع کیے جائیں، طبلق، کتاب، جلد؛ صفحہ، لکھا ہوا ورق، (مجازاً) قرآن مجید۔
رسم:
قرآن مجید کو دلہے اور دلہن کو دیکھانا، پھر قرآن مجید مین سورۃ اخلاص کھول کر اس کی زیارت باری باری میاں بیوی کو کروانا
۲) دوسرا معنیٰ:
(مجازاً) عارض رخسار ، رخ (شعرا محبوب کے رخسار یا چہرے کو مصحف سے تشبیہ دیتے ہیں ، جیسے ؛ مصحف رخ ، مصحف رُو وغیرہ)۔
رسم:
آئینہ دلہا اور دلہن کو باری باری دیکھانا پھر دونوں کو اس مین دیکھ کر اہک دوسرے کو دیکھنے کا کہنا۔ یعنی عقیدہ بالا کے مطابق مرد کو کہا جاتا ھے اپنی بیوی کو دیکھو اور پہلی بار جب اس کے چہرے یعنی مصحف پر نظر پڑے تو آئینہ کے ذریعے دیکھو ایسے نہیں۔
☆ مَُصحَف آرسی:
آرسی مصحف شادی کی ایک رسم جس میں نکاح کے بعد دولھا دلہن کو آمنے سامنے بٹھاتے ہیں پھر آئینہ اور قرآن مجید دکھاتے ہیں۔
(ملاحظہ ہو:- اردو لغت – از: قومی تاریخ وادبی ورثہ ڈویژن، حکومتِ پاکستان)
اِضافی:-
بعض اوقات کچھ چیزوں کی اصل کچھ ہوتی ھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگر اسے اپنی اصل حالت میں محفوظ نہ کیا جائے تو وہ اپنی اصلی حالت سے بگڑ کر کچھ کی کچھ بن جاتی ہیں۔ جیسے اس آئینہ دیکھائی کی رسم جو موجودہ حالت میں پائی جاتی ھے وہ کچھ یوں ھے:
☆ منہ دِکھائی رسم:
اس کی صورت یہ ہوتی ھے کہ جب برات دلہن کے گھر پہنچتی ھے تو رخصتی سے پہلے دولہا دلہن کو سر جوڑ کر اور سرخ دوپٹا یا دو شالہ ان کے سر پر ڈال کر آمنے سامنے بٹھاتے ہیں۔ بیچ میں تکیے پر آئینہ اور قرآن پاک سورہ اخلاص کے مقام پر کھول کر اس طرح رکھتے ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے کی شکل آئینے میں نظر آ سکے۔ اب دلہن والیاں دولہا سے کہتی ہیں، میاں اپنی زبان سے کہو کہ بیوی! آنکھیں کھولو! میں تمھارا غلام ۔ اس طرح دلہن اصرار کے بعد آنکھیں کھولتی ھے اور دونوں آئینے میں ایک دوسرے کی صورت دیکھتے ہیں؛ ساتھ ہی قرآن پاک پر بھی نظر پڑتی ھے۔ (یعنی قرآن کی بھی زیارت کرتے ہیں)۔
(ملاحظہ ہو:- کلیاتِ سودا (۱۷۸۰ء) – از: محمد رفیع سودا)
سبز رنگ کی کڑھائی شدہ شال کو دلہے اور دلہن کے سروں پر ڈال دیا جاتا ھے اور ان کے ہاتھوں میں ایک شیشہ پکڑا دیا جاتا ھے۔ اب دلہن جس نے نکاح کے دوران مسلسل اپنا چہرہ چھپا رکھا تھا وہ اپنا چہرہ کھول کر شیشہ کے ذریعے اپنے شوہر کو دیکھتی ھے۔ اس طرح نکاح کے بعد شوہر اس کا چہرہ پہلی مرتبہ دیکھتا ھے۔ اس کے بعد دونوں کو ایک دوسرے کا جھوٹا پھل کھلایا جاتا ھے، کچھ تحائف دیے جاتے ہیں اور تمام لوگ ان کو مبارکبادیں دیتے ہیں۔ اس کو پاکستان میں منہ دِکھائی کی رسم بھی کہا جاتا ھے۔
(ملاحظہ ہو:- پاکستان میں شادی کی رسومات – از: وکیپیڈیا)
حاصلِ کلام:-
یہاں پر کچھ امور قابلِ ذکر و قابل مذمت بھی ہیں جن میں سرِ فہرست اس رسم میں قرآن کو درمیان میں رکھنا (سوچنے کی بات ھے قرآن اور خصوصاً سورۃ اخلاص انہی کاموں و رسموں کے لیے نازل کی گئی ھے؟)، دوسرا آئینہ میں صورت دیکھائی کی رسم کے دوران مرد کا یہ کہنا کہ میں تمہارا غلام ہوں یہ الفاظ بذاتِ خود محبت کی علامت نہیں بلکہ لغویات ہیں۔ تم ایک دوسرے کا لباس ہو، ایک دوسرے کے دوست ہو، ایک دوسرے کے ساتھی ہو، محبوب ہو، غم گسار ہو نا کہ غلام۔ "غلامی” لغوی اور اصطلاحی اور شرعی اعتبار سے فقط اللّٰه ﷻ کی ہوتی ھے یا پھر جس کے ہاں اس کی خدمت گزاری آپ کے ذمے ہو اور آپ اس کے حکم کے تابع ہوں۔ اس لحاظ سے نہ بیوی تمہاری غلام ھے اور نا تم اپنی بیوی کے۔ تیسری بات یہ کہ شادی نام ھے سنت ﷺ کو پورا کرنے کا اور سنت ﷺ میں اس طرح کی لغو رسومات کا کوئی دخل نہیں رہا بلکہ کچھ بعید نہیں مغل دور میں ہندوؤں نے اس رسم کو اپنا لیا ہو اور اسے وہ رنگ دے دیا ہو جسے موجودہ دور میں مسلمانوں نے اپنا رکھا ھے کیونکہ آئینہ دیکھائی کی رسم ان میں بھی پائی جاتی ھے۔ اللّٰه ﷻ ہم سب کو لغویات سے بچائیں۔ ۔ ۔آمین!