Home اسلام جہـیز یا بَـری کے سـامـان کـو کھول کھول کر دِکھانا

جہـیز یا بَـری کے سـامـان کـو کھول کھول کر دِکھانا

شادی بیاہ کے موقع پر دلہن کو جو جہیز کا سامان یا کپڑے وغیرہ دیے جاتے ہیں انہیں کھول کر اٹھا اٹھا کر سب کو دکھایا جاتا ھے اور اس میں سوچ یہ ہوتی ھے کہ:

لوگوں کو دیکھائیں کہ ہم نے دلہن کو کیا کیا دیا ھے، اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر دیے گئے کپڑوں کی نمائش کی جاتی ھے کہ ہم نے دلہن کو ایسا ایسا حسین جوڑا دیا ھے۔

یہ ایک غلط سوچ ھے

اَصل:-

اول تو مروجہ جہیز کے لینے دینے کا رواج ہندوؤں سے آیا ھے، جو جہیز اسلام نے ہمیں سکھلایا ھے وہ خاموشی سے بنا کسی جبر و زبردستی کے اپنی بیٹی کو اپنی خوشی سے تحفہ دینا ھے۔ دوسرا جہیز یا بری کے سامان کو لوگوں کو کھول کھول کر دکھانا یہ رسم بھی مکمل طور پر ہندوؤں سے آئی ھے۔ ہندوؤں میں ایسی فضول رسومات ہوتی ہیں، جبکہ اسلام دکھاوے کے سخت خلاف ھے۔

ہندوستان میں ۱۶ صدی میں جب جہیز کے رواج نے زور پکڑا تو اس میں اسراف و نمود و نمائش کا افتتاح بھی ہو گیا۔ ہندوؤں کے ہاں ذات پات، نسل و خاندان کی بہت زیادہ تفریق پائی جاتی ھے جبکہ اسلام میں ایسا نہیں ھے۔ لڑکی والوں سے کہہ کر جہیز لیا جانے لگا جوں جوں وقت گزرا لڑکی کے امیر گھر والوں نے بھی بڑھ چڑھ کر جہیز دینا شروع کر دیا۔ جہیز جب برات کے وقت ساتھ جانے کے لیے تیار ہوتا تو ایک شخص جو کہ اس کا والد یا بھائی یا ماں یا بہن ہوتی وہ خاندان والوں کے اور لڑکے والوں کے سامنے جہیز میں دی جانے والی ہر چیز کی نمائش کرتے تاکہ اس سے لڑکے والوں کو بھی تسلی ہو جائے اور دوسرے لوگوں کے سامنے اِن کا معیار بھی بلند ہو اور عزت بڑھے۔

••• (ملاحظہ ہو:- Rani Jethmalani & P.K. Dey (1995). Dowry Deaths and Access to Justice in Kali’s Yug: Empowerment, Law and Dowry Deaths)
••• (ملاحظہ ہو:- Paras Diwan and Peeyushi Diwan (1997). Law Relating to Dowry)

○ آنکھوں دیکھا حال:-
عاجز کا بذاتِ خود "جہیز کی نمائش” کی رسم کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ایک بڑی عمر کی خاتوں چارپائی پر کھڑی ہو گئی اور صندوق میں سے ایک ایک کر کے جوڑا نکالتی اور اسے دونوں جانب گھوم کر سب کو دیکھاتی، جیسے کسی چیز کی نیلامی ہو رہی ہو۔ اس کے بعد سب کو زیورات دیکھائے گئے، پھر ہاتھ میں ایک فہرست پکڑی تھی جس میں دلہن کو دیے جانے والا جہیز کا سامان درج تھا، جسے پڑھ کر سب کو سنوایا گیا۔ مزید حیرت کی بات یہ ھے کہ جو لوگ ایسا کر رہے تھے وہ اس قصبے میں پیر و پیرنی مانے جاتے تھے، ایک معتبر بزرگ کی نسل مانے جاتے تھے، لوگ ان سے آ کر تعویذات لیا کرتے تھے۔ مگر پھر بھی اتنی آزادی سے سماجی رسم کے دباؤ میں اللّٰه ﷻ کے احکامات کو طور کر شریعت کے خلاف رسم و رواج کو انجام دے کر اللّٰه ﷻ کو ناراض کر رہے تھے۔

اِضافی:-

امراء رسمِ جہیز کو اپنے جاہ و منصب کی شناخت سمجھتے ہیں اور بے پناہ پیسہ خرچ کرتے ہیں اور اس رسم کو شہرت و ناموری، دولت کی ریاکاری اور پابندی رسم کی نیت سے کیا جاتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ بڑی دھوم دھام اور تکلف سے اس کی نمائش کی جاتی ھے حالانکہ اسلام نے نمودو نمائش سے منع کیا ہے۔ اسی وجہ سے غریب مائیں اور بیٹیاں اِحساس کمتری کا شکار ہوتی ہیں۔ اسی نمائش کے جذبے سے لوگوں میں تفاخر پیدا ہوتا ھے۔ والدین فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم نے اپنی بیٹی کو فلاں فلاں چیز دی حالانکہ اللّٰه ﷻ نے اس چیز سے منع کیا ھے۔ انہی وجوہات پر آج مسلمانوں میں نکاح جیسے آسان کام کو اتنا مشکل بنا دیا کہ غریب آدمی کے گھر جب بیٹی ہوتی ھے تو وہ خوش ہونے کے بجائے روتا ھے۔ اس کی وجہ درِحقیقت معاشرے میں موجود یہی حضرات ہیں جو انجانے نا انجانے میں ریاکاری اور ہندوؤں کی رسموں کی پیروی کر رہے ہیں۔

حاصلِ کلام:-

جہیز دیکھانے کی یہ رسم بالکل غلط اور بے بنیاد ھے۔ اللّٰه ﷻ کے احکامات کی کُھلم کھلا نافرمانی ھے۔ اس رسم کی حقیقت بس اتنی ھے کہ مسلمانوں میں اس رسم کی شروعات ہندوؤں کے دیکھا دیکھی ہوئی۔ اس طرح کی رسم کرتے ہوئے لوگوں کو شرم آنی چاہیے کہ بیٹی کو اگر کچھ تحفہ بغیر لڑکے والوں کے دباؤ کے دے بھی دیا ھے تو اسے دیکھانے کی کیا ضرورت؟۔ ۔ ۔ ؟ کیا بیٹی کی اہمیت بس اتنی ھے کہ آپ نے اس کو تحائف دے کر اس پر احسان کیا اور اب سب کے سامنے اس پر کیے احسان کو جتلا رہے ہیں۔ افسوس صد افسوس!۔ ۔ ۔ اللّٰه ﷻ ہمارے معاشرے میں موجود ایسے کم عقل لوگوں کو ھدایت عطا فرمائیں۔ ۔ ۔آمین!

Exit mobile version