تحریر: راشدہ سعدیہ
صبح سے سوشل میڈیا پہ ایک شور تھا کہ آج مولانا بابا عدالت جائیں گے۔ ہم جیسے لوگ (جن کا تعلق مولانا بابا سے بس ویڈیو میں ان کے خطاب سننے یا جاری میڈیا سیشن دیکھنے کی حد تک ہوتا ہے) جب ایسی خبر سنتے ہیں تو ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ گھر کے ہر فرد کے ساتھ ” کیا ہوسکتا ہے؟ یا اس طرح اس طرح ہوگا، ان شاءاللہ سب خیر ہوگی” جیسے موضوعات پہ گفتگو کرتے ہیں۔
جب عدالت جانے کی خبر میں نے سنی تو فورا ماں جی کے پاس پہنچ گئی کہ دعا کیجیے گا، اب تو مولانا بابا خود جارہے ہیں۔ اتنے میں ایک اور ویڈیو نظر سے گزری کہ مولانا بابا تو عدالت پہنچ گئے۔ کارروائی شروع ہوگئی مگر کارروائی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ سانسیں ہیں کہ بوجھل ہورہی ہیں۔ اللہ جی خیر ہو، مولانا بابا سرخرو نکلیں، مولانا بابا کو کچھ نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔
طویل انتظار کے بعد ایک اور ویڈیو موصول ہوئی جس میں مولانا بابا فرما رہے ہیں کہ ” بہتر سال کی عمر میں پہلی مرتبہ عدالت آیا ہوں۔۔۔۔۔”
مولانا بابا کی عمر کے حوالے سے کچھ دن پہلے ہی ذہن میں خدشات ابھرنے لگے تھے جس پہ مولانا نے تصحیح بھی کردی۔ ویڈیو دیکھنے کے بعد ایک بےچینی رہی۔ کیا ضروری تھی اپنی عمر بتانا؟؟ سیاسی تخمینہ بھی تو بتایا جاسکتا تھا۔ کیا ضروری تھا عمر کے ہندسہ کو واضح کرنا اب تک کے دو لفظ بھی تو کہے جاسکتے تھے۔ اب نظر لگے گی، حاسدین کی حسد صحت کو متاثر کرے گی۔ پھر خیال آنا شروع ہوۓ کہ عمر تو مولانا بابا کی یارب کرم فرما والی چل رہی ہے۔۔۔۔ اللہ نہ کریں کچھ ہوگیا تو ہم جیسے لوگ کیا کریں گے؟ ہم کہاں جائیں گے؟ ہم کس کی طرف امید کی نظر سے دیکھیں گے؟
ہر دن یہی خیالات ستارہے تھے کہ ایک دن ایک اور روح کو شاداب اور مضطرب دماغ کو تسکین پہنچانے والی ویڈیو موصول ہوئی جس میں مولانا نے شخصیت پرستی پہ خوب صراحت و بلاغت و فصاحت کے ساتھ مدلل گفتگو فرمائی۔ میرا نکتہ نظر پہلے بھی وہی تھا بیچ میں ڈگمگاہٹ ہوگئی مگر اللہ کا کرم ہے کہ اب مزید پختگی محسوس ہورہی ہے۔
یہاں یہ بات بھی واضح کردوں کہ قابل قدر شخصیات کی اہمیت میں بھی جانتی ہوں اور حق والوں کی تقلید کو باعث نجات بھی سمجھتی ہوں مگر تقلید اکابر دین اور اتباع دین میں بہت واضح فرق ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم لوگ دین کی پیروی کے بجاۓ شخصیات کی پیروی میں اس حد تک مگن ہوگئے کہ دین کی بقا کا راز اکابر دین کو سمجھ بیٹھے۔ حالانکہ دیکھا جاۓ تو اکابر دین نے ہمیشہ خود کی ذات کی نفی کی ہے۔ اولیاء اللہ اپنی ہستی کو چھپاۓ رکھتے تھے۔ اکثر متعلقین کو ان کا پورا نام ان کی وفات کے بعد معلوم ہوتا تھا۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ہم اکابرین سے دین سنتے ہیں مگر صرف سننے کی حد تک، عمل کا دور دور تک اتا پتا نہیں ہوتا۔ ان کا وعظ ہمیں جملوں کی حد تک جوش بھی دلاتا ہے اور ہم "واہ کیا کہنے، تکبیر، بہت خوبصورت بات” جیسے جملے کہہ کر حق بھی ادا کرتے ہیں۔ حتی کہ جس جگہ کسی واعظ، داعی یا مبلغ کی بات سن لیں تو اس کے وعظ کے آخری جملوں کے ساتھ ہم بھی نصیحت کو لپیٹ کر وہیں کسی کونے میں رکھ آتے ہیں۔
پہلے لوگ دین سیکھتے تھے تو کسی بھی عالم حق سے سیکھ لیا کرتے تھے اور جب عمل کرتے تھے تو کہتے تھے کہ کسی عالم دین کو سنا تھا وہ ایسا ایسا فرمارہے تھے۔ اب ستم ظریفی تو یہ ہے پہلے ہم طے کرتے ہیں ہمیں کس داعی دین کی بات سننی ہے؟ آیا وہ میرے مزاج کا بھی ہے یا نہیں؟ اس کی بات میرے سمجھ کے منافی تو نہیں؟ اس کا انداز بیان میرا پسندیدہ ہے یا نہیں؟ جب سب کچھ اپنے پسند کا مل جاۓ تو پھر ان کی بات سنتے ہیں اور بیان سننے کے بعد دیگر مبلغین دین سے ان کا موازنہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایسا قبیح کام کرتے کرتے اکثر و بیشتر اہل علم اور علم دین کی توہین کا باعث بنتے ہیں۔
قابل غور نکتہ تو یہ بھی کہ آج کی نوجوان نسل مبلغ اسلام کے ظاہری زندگی پر نظر ڈالنا ضروری سمجھتے ہیں۔ گاڑی کیسی ہے؟ اردگرد محافظ کتنے ہیں؟ ہٹو بچو کی آوازیں بھی ہیں کہ نہیں؟ کلف لگے کپڑے ہیں یا سادے سے؟ چال کیسی ہے؟ بس پھر اسی طرز کو اپنانے پہ ساری توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
اگر حقیقت سے نظریں نہ چرائی جائیں تو موجودہ اکابرینِ حق ، علماۓ دین ماضی قریب اور ماضی بعید کے اکابرین سے اپنی ذات کا موازنہ باعث عار سمجھیں گے۔ سختی سے اس کام کو منع بھی فرمائیں گے مگر جب آج کے علماء دین کی زندگی پہ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہر عالم ماضی کے اکابرین کے نہ صرف نقش قدم پہ ہے بلکہ ان جیسا بننے کو خود کے لیے سعادت بھی سمجھتے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم غلطی کہاں کرجاتے ہیں؟ ہماری غلطی اکابرین کی تقلید میں حد سے غلو کرنے میں ہے، من پسند علماۓ دین کو ہی حق کی تبلیغ کا آخری ذریعہ سمجھنے میں ہے، صرف اپنے محبوب عالم دین کو ہی ذریعہ نجات اور خوش نصیب ، نیک ماننے میں ہے، پسندیدہ علماۓ دین کی شان میں اس قدر مدح سرائی کرنا، نعوذ باللہ ایسا محسوس ہونا کہ ان کی موجودگی سے دین کا نظام چل رہا ہے ان کے بعد شاید دین کی اشاعت صحیح یا بہتر نہیں ہوسکے گی۔
یاد رہے کہ انسانوں کے لیے اولیاء اللہ، علماۓ دین کی صحبت، ان کی اقتداء ضروری ہے تاکہ وہ اشرف، احسن اور سہل طریقے سے اپنی زندگی بسر کرسکیں۔ باعمل مسلمان بن سکیں۔ انسانی اور حیوانی زندگی کے مابین فرق ہوسکے۔ بھیڑ بکریوں کی طرح نہ خود جیے اور نہ کسی کی زندگی کو اجیرن بناۓ مگر اپنی زندگیوں کا انحصار، اپنے اعمال کا تعلق یا دین کی بقا، ترویج اور تبلیغ کا انحصار علماء حق کی زندگیوں کے ساتھ لاحق بھی نہ کریں۔
سوچیے، انبیاء کرام علیہم السلام سے بہتر دین کی تبلیغ واشاعت کوئی نہیں کرسکتا تھا مگر ان کے بعد دین کا کام جاری رہا اور سوا لاکھ انبیاء آتے گئے، دین پھیلتا گیا۔ بعد از انبیاء آج تک اس کی اشاعت جاری ہے۔ تو معلوم ہوا کہ دین کی بقا کسی فرد کی موجودگی پہ نہیں۔ پھر چاہے وہ فرد رب کریم کا کتنا ہی محبوب کیوں نہ ہو بلکہ رب کی منشاء پہ ہے۔
لہذا اکابرین دین کی پیروی کیجیے کہ ان کی تقلید بھی کیجیے کہ ان کی عبادات کس طرح کی ہیں؟ ان کی معاشرتی زندگی کیسی ہے؟ وہ معاملات کو کس خوبی کے ساتھ حل کرتے ہیں؟ وہ دنیاوی زندگی میں دین پہ کس قدر اور کیسے عمل پیرا ہیں؟ مگر دین کی بقا کو ان کے ساتھ لازم و ملزوم نہ سمجھیں۔ اکابرین دین ، دین کے داعی اور ترویج کا باعث ہیں، اعلاۓ کلمۃ اللہ کا ایک ذریعہ بھی ہیں۔ مسلمانوں کے اتحاد اور ان میں اسلام کے رواج کا باعث بھی ہیں۔ لہذا تمام اکابر حق کو اہل حق سمجھیے، ان جیسا بنیے مگر ان کی شان میں غلو نہ کیجیے۔