کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل میں انڈین عہدیداران کے ملوث ہونے کے الزامات کے بعد کینیڈا کی حکومت نے انڈیا کے ہائی کمشنرسنجے کمارورما سمیت پانچ دیگر سفارت کاروں کو ملک سے بے دخل کردیا جوابی کارروائی کرتے ہوئے انڈیا نے بھی کینیڈا کے چھ سفارت کاروں کو ملک چھوڑ دینے کی ہدایت کردی ہے۔
کینیڈاکی حکومت نے بھارتی ریاستی دہشت گردی کاپردہ چاک کردیاہے اوربھارت کے چہرے سے نقاب اتارپھینکاہے اوٹاوا میں نیشل پولیس ہیڈ کوارٹر میں منعقد ہونے والی ایک نیوز کانفرنس میں کینیڈین پولیس سربراہ مائک ڈیوہیم نے الزام لگایا کہ انڈین حکومت کے ایجنٹ کینیڈا میں مجرمانہ سرگرمیوں،قتل اورپرتشددوارداتوں میں ملوث ہیں جس سے مقامی معاشرے اور اور شہریوں کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔کمشنر ڈیوہیم نے کہا کہ پولیس کی تفتیش سے انکشاف ہوا کہ کینیڈا میں تعینات انڈین سفارتکار اور قونصل خانوں کے اہلکار اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھا کر خفیہ سرگرمیوں میں ملوث تھے جن میں براہ راست یا اپنے مخبروں کے ذریعے رضاکارانہ یا جبر کے ساتھ انڈین حکومت کے لیے معلومات حاصل کرنا شامل تھا۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ شہریوں اور کاروبار کرنے والوں کو انڈین حکومت کے لیے کام کرنے کے لیے دھمکایا اور مجبور کیا جاتا تھا اور انڈیا کی حکومت ان افراد سے حاصل کی گئی معلومات کی بنیاد پر جنوبی ایشیائی نژاد شہریوں کو ٹارگٹ کرتی تھی۔
اسسٹنٹ کمشنر بریگٹ گاوین نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ کینیڈا میں سنگین نوعیت کے مجرمانہ کیسوں میں مبینہ طور پر انڈین حکومت کے ایجنٹوں کے ملوث ہونے کے کئی معاملات کی تفتیش چل رہی ہے۔تاہم انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ خالصتان کے حامیوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے جرائم پیشہ گینگ کا استعمال کیا جاتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں خاص طور سے بشنوئی گینگ کا نام لینا چاہوں گی، وہ انڈین ایجنٹوں کے ساتھ کام کرتے تھے۔
یاد رہے کہ لارنس بشنوئی انڈیا کا ایک گینگسٹر ہے جو گجرات کی ایک جیل میں قید ہے۔ لارنس بشنوئی پر پنجابی گلوکار سدھو موسے والا سمیت درجنوں افراد کے قتل کا الزام ہے اور حال ہی میں فلمی اداکاروں خاص طور پر سلمان خان سے قریب سمجھے جانے والے ممبئی کے سیاسی لیڈر بابا صدیقی کے قتل میں بھی بشنوئی پر ہی شک کیا جا رہا ہے۔اس سے قبل کینیڈا نے نجار کے قتل کے الزام میں چار انڈین شہریوںکرن برار، کمل پریت سنگھ اور کرن پریت سنگھ،امن دیپ سنگھ کوہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں 3 مئی 2024 کو گرفتار کیا تھا۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے وزیر خارجہ اور عوامی سلامتی کے وزیر کے ہمراہ اوٹاوا میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ وہ تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے لیکن انڈیا اس سلسلے میں تعاون نہیں کر رہا۔کینیڈین اہلکاروں نے پولیس کی تفتیش سے حاصل ہونے والے شواہد انڈیا کو فراہم کر دیے تھے جن کے مطابق انڈیا کے چھہ سفارتکار مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ثبوت تھے۔دوسری طرف ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے کہاہے کہ بھارت کینیڈا کی طرف سے قتل کی سازش کے الزامات کو سنجیدگی سے لے ہم نے واضح کردیا ہے کہ الزامات انتہائی سنگین ہیں، بھارت اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہا، انہوں نے متبادل راستا چنا ہے۔
اب آتے ہیں اس واقعہ کی طرف جس کی وجہ سے اس تنازعہ نے جنم لیاہے ۔یہ 18 جون 2023 کی ایک عام سی اتوار کی شام تھی۔ دنیا بھر میں اور سوشل میڈیا پر ‘فاردز ڈے’ منایا جا رہا تھا جبکہ کینیڈا کے برٹش کولمبیا کے سرے قصبے میں گرودوارہ نانک صاحب میں شام کی پراتھنا (عبادت) کے لیے معمول کے مطابق عقیدت مند جمع تھے کہ اچانک پارکنگ کے حصے سے فائرنگ کی آواز آنا شروع ہو ئی۔دو نامعلوم نقاب پوش افراد نے ایک شخص کو نشانہ بنایا اور ان پر پے در پے کئی گولیاں داغ دیں۔ پولیس نے مرنے والے شخص کی شناخت گرودوارے کے صدر ہردیپ سنگھ نِجر کے طور پر کی۔
ان کے قتل کو کینیڈا میں بسنے والی سکھ برادری نے ‘سیاسی قتل’ قرار دیا اور ٹورنٹو اور وینکوور سمیت متعدد شہروں میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے۔جولائی کے اوائل میں لندن، میلبرن اور سین فرانسسکو میں بھی اس قتل کے خلاف انڈین حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے۔کینیڈا کی ورلڈ سکھ آرگنائزیشن کے مطابق انھیں ٹارگٹڈ شوٹنگ میں قتل کیا گیا۔ کینیڈا کی انٹیلی جنس ایجنسی نے ان کو لاحق خطرات کے بارے میں آگاہ بھی کیا تھا۔
تین مہینے بعد کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے جب ان کے قتل میں انڈیا کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے کینیڈا سے انڈیا کے سفارتکار کو رخصت کر دیا تو یہ معاملہ بین الاقوامی سطح کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ ‘کینیڈا کی سرزمین پر کینیڈین شہری کے قتل میں غیر ملکی حکومت کا کسی طرح بھی ملوث ہونا ناقابل قبول ہے اور ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔ یہ ان بنیادی اصولوں کے منافی ہے جن کے ذریعے آزاد، کھلے اور جمہوری معاشرے اپنے آپ کو چلاتے ہیں۔
ہردیپ سنگھ نِجر کا تعلق انڈین ریاست پنجاب کے جالندھر ضلع کے گاں بھرا سنگھ پورہ سے تھا۔ انڈین حکومت کے مطابق نِجر علیحدگی پسند تنظیم خالصتان ٹائیگر فورس کے سربراہ تھے اور خالصتان ٹائیگر فورس کے ماڈیول ارکان کو آپریشن، نیٹ ورکنگ، تربیت اور مالی مدد فراہم کرنے میں سرگرم تھے۔پنجاب حکومت کے مطابق نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے)نے جالندھر کے پھیلور سب ڈویژن میں ان کے آبائی گائوں بھرا سنگھ پورہ میں واقع نجر کی کل 11 کنال 13.5 مرلہ اراضی بھی ضبط کر لی تھی۔ نجر کی جائیدادیں 2020 میں ان کی آن لائن مہم سکھ ریفرنڈم 2020 کی وجہ سے ضبط کی گئی تھیں۔ یہ مقدمہ آن لائن مہم کی جانب سے ایک علیحدہ سکھ ریاست خالصتان کے لیے سکھ فار جسٹس کے خلاف دائر کیا گیا تھا۔
نجر1997میں کینیڈا چلے گئے تھے۔ وہ کینیڈا جانے کے بعد کبھی انڈیا واپس نہیں آئے لیکن ان کے والدین کووڈ 19 لاک ڈان سے پہلے آبائی گائوں ضرور آئے تھے۔نجرکینیڈامیں پلمبرنگ کاکام کرتے تھے وہ شادی شدہ تھے اور انھوں نے سوگواروں میں اپنے والدین کے ساتھ اپنی اہلیہ اور دو بیٹے چھوڑے ۔انڈیا کی قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے )نے الزام عائد کیا تھا کہ نجر مبینہ طور پر 2013-14 میں خالصتان ٹائیگر فورس (کے ٹی ایف)کے سربراہ جگتار سنگھ تارا سے ملنے کے لیے پاکستان گئے تھے۔تارا کو15 20میں تھائی لینڈ سے گرفتار کر کے انڈیا لایا گیا تھا۔ایجنسی کے مطابق نجر کا تعلق انڈیا میں کالعدم تنظیم سکھ فار جسٹس سے بھی تھا۔ نجر کوقتل سے قبل میں آسٹریلیا میں خالصتان ریفرنڈم کے لیے ووٹنگ کے دوران دیکھا گیا تھا۔
45 سالہ ہردیپ سنگھ نِجر انڈیا کو کئی کیسوں میں مطلوب تھے کیونکہ وہ انڈیا کی مغربی ریاست پنجاب میں ایک علیحدہ سکھ ریاست کے حامی تھے اور وہ دنیا بھر میں اس کی حمایت میں آن لائن ریفرینڈم میں پیش پیش رہتے تھے۔نجر نے ایک آزاد سکھ ریاست خالصتان کے لیے تحریک چلائی تھی اور جولائی 2020 میں انڈیا نے انھیں دہشت گرد قرار دیا تھا اور ان کی گرفتاری کے لیے دس لاکھ روپے کی انعامی رقم رکھی گئی تھی۔پنجاب پولیس کے مطابق نجر کا نام اس مطلوبہ فہرست میں شامل تھا جو پنجاب کے وزیر اعلی کیپٹن امریندر سنگھ نے سنہ 2018 میں انڈیا کے دورے پر آنے والے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کو پیش کی تھی۔
انڈیا کی ریاست پنجاب میں تقریبا 58 فیصد سکھ اور 39 فیصد ہندو ہیں۔ 1980 اور 1990 کی دہائی کے اوائل میں ایک پرتشدد خالصتان علیحدگی پسند تحریک نے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔انڈیا میں وہ تحریک اب بظاہر دم توڑ چکی ہے لیکن اس تحریک کے زیادہ تر حامی بنیادی طور پر بیرون ملک آباد پنجابی ہیں اور کینیڈا میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہے۔
دسمبر 2020 میں این آئی اے کے ذریعہ درج ایف آئی آر میں بھی نجر کا نام شامل تھا جب پنجاب اور دیگر ریاستوں کے کسان دہلی میں زراعت سے متعلق تین وفاقی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مستقل احتجاج کے بعد یہ قوانین واپس لے لیے گئے۔ان پر لوگوں میں خوف پیدا کرنے، لوگوں میں مایوسی پیدا کرنے اور انھیں انڈیا کے خلاف اکسانے اور بغاوت کی سازش کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
وینکوور پوسٹ کے مطابق سنہ 2016 میں حکومت ہند نے نجر پر ہندوستان میں ایک ہندو پجاری کے قتل کی سازش کا الزام لگایا تھا۔ انڈین میڈیا رپورٹس نے 2007 میں پنجاب کے ایک سینما ہال میں ہونے والے بم دھماکے کابھی الزام عائد کیا تھا جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔