Home اسلام جوتے سے متعلق شگون

جوتے سے متعلق شگون

➊ «جــوتـا چــڑھ جــانــا، ســـفــر کـی عــلامــت سـمجـھـنـا»

➋ «الٹـا جـوتـا بـد قـسمـتـی کـی عـلامــت سمـجھـنا»

➌ «جـوتـا اگـر دوسـرے پر چـڑھ جـائے تـو لـڑائی ہونـے کـی عـلامـت سـمجـھـنا»

لوگوں میں جوتے کو لے کر چند باتیں مشہور ہیں:-

◂ جوتے کو اُتارتے وقت جوتا ایک دوسرے پر اگر چڑھ جائے تو اسے مستقبل میں سفر درپیش ہونے کی علامت سمجھا جاتا ھے۔

◂ جوتا اتارتے وقت اگر الٹا ہو جائے تو اسے نحوست کہنا اور اس سے رزق میں کمی ہونے کا شگون لینا۔

خوب جان لیجیے یہ سوچ غلط ھے

اَصل:-

ہندوؤں کی ایک کتاب واستو شاسترا سے اقتباس ھے:-

"انسان کے پاؤں اس کے مقام تک پہنچنے میں اس کی مدد کرتے ہیں اور وہ اپنے پاؤں کی دیکھ بھال کیسے کرتا ھے یہ اس کی خوش قسمتی یا بُرے شگون کی وجہ بن سکتا ھے۔”
(ملاحظہ ہو: جوتوں کا تعارفی شاسترا )

¤ ہمارے پاؤں میں پہننے والے جوتوں کا تعلق "شَنی دیوتا” سے ہوتا ھے۔ اسی لیے یہ ھدایت کی جاتی ھے کہ جب بھی "شَنی” کا کوئی "سخت اثر” انسان کی زندگی پر آئے تو اپنے جوتوں کو خیرات کر دینا چاہیے۔ تو سختی دور ہو جاتی ھے۔

¤ بعض اوقات ہماری زندگی پر مصیبت اور آفت پڑ جاتی ھے جو کہ نادانستہ طور پر ہمارے جوتوں کی وجہ سے ہوتا ھے۔

¤ ہندو علماء (پادریوں) کا کہنا ھے کہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ کونسا جوتا کہاں، کیسے اور کب پہننا چاہیے ورنہ ہمیں اپنی زندگی میں اچھے مواقع اور دولت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
(ملاحظہ ہو: جیوتش شاسترا)

○ ہندوؤں کی تاریخی کتب کو کھنگھولنے سے جوتوں سے متعلق متعدد عقائد معلوم ہوئے، جو کہ درج ذیل ہیں:-

۱. تحفے میں ملا اور چوری ہوا جوتا نہیں پہننا چاہیے ورنہ یہ تقدیر اور قسمت کے زوال کا ذریعہ بنیں گے۔

۲. جوتے ایک دوسرے پر چڑھ جائیں تو جس کا جوتا ہوتا ھے اس کی جلد کسی سے لڑائی کا اندیشہ ھے۔

۳. کام وغیرہ کی جگہ پر بُھرے رنگ کے جوتے پہن کر جانے سے بہت سخت بُرے اثرات پڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ نوکری اور تنخواہ سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ھے۔

۴. جوتوں کو کبھی تسموں کے ساتھ نہیں لٹکانا نہیں چاہیے، ورنہ گھر میں بیماری اور موت بھی آسکتی ھے۔

۵. جوتوں کو ایک دوسرے کے اوپر یا ایک دوسرے کے اندر نہیں رکھنا چاہیے ورنہ اس سے گھر کی قوت اور آپ کے پیشے کو شدید نقصان ہو سکتا ھے۔

٦. جو شخص مر جائے اس کے جوتے یا تو خیرات کر دیں یا جلا دیں ورنہ یہ بُرے شگون کا ذریعہ بنیں گے۔

(ملاحظہ ہو: بریھات سمھیت – از: واراہمی ھیرا/واستو شاسترا گھر )

اِضافی:-

ان تمام باتوں کا دارومدار ہندوانہ مذہب اور ہندوانہ تاریخ پر مبنی ھے۔ جن میں ایک دو باتیں کچھ بدلاؤ کے ساتھ ہم مسلمانوں خصوصاً پاکستان تک پہنچ گئیں۔ درج بالا عقائد بہت تخصیص کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں وگرنہ اس سے متعلق بیسیوں اور عقائد ہندوؤں کی کتب میں درج ہیں۔ تو خوب سمجھ لیں ان سب عقائد کا دینِ اسلام سے کچھ تعلق نہیں۔

● حاصلِ کلام:-

جوتوں سے متعلق درج بالا سوچیں جو پاکستان میں مشہور ہیں وہ فقط توہم پرستی اور غلط سوچیں ہیں، جن کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ خود بھی بچیں اور دوسروں جو بھی ایسی فضول سوچوں سے دور رہنے کی تلقین کیجئے۔ الله ﷻ ہم سب کو ہندوانہ رسومات سے بچائیں۔ ۔ ۔آمین!

Exit mobile version