دنیا کے افق پہ ایک زمانہ وہ تھا کہ انسانیت ذات باری تعالٰی سے غافل اور اس کی معرفت سے بے بہرہ ہو چکی تھی، اس کے نام کی صدائیں بلند ہونا ایک قصہ پارینہ بن چکا تھا، اس وقت اللہ تعالٰی نے کائنات کو نبی کریمﷺ کی آمد سے منور و مطہر فرمایا، آپ علیہ السلام نے اس ماحول میں شب و روز کی محنت سے ایک مقدس و جاں باز جماعت تیار کی جو اللہ اور رسول کے ہر حکم پہ سر تن کی بازی لگاتے نظر آتی ہے، ایمان کے قبول کرنے کے بعد بدر پہلا معرکہ تھا جس سے اہل ایمان کو نبرد آزما ہونا پڑا۔
غزوہ بدر کی حیثیت ایک معرکہ جیسی ہی نہیں تھی بلکہ یہ کفر و اسلام میں فرق و امتیاز کا ایک عنوان تھا، حق و باطل میں پہچان و تفریق کی جنگ تھی۔ اسی اہمیت کے پیش نظر رسول کائنات محمد رسول اللہﷺ اللہ کے حضور گڑگڑاتے اور گریہ و زاری کرتے نظر آتے اور یہ جملہ فرماتے جاتے کہ آج اگر اس جماعت کو شکست ہو گئی تو روئے زمین پہ کوئی آپ کا نام لینے والا نہ ہوگا۔ چنانچہ اس غزوہ میں فتح کے بعد قرآن اس کو یوم الفرقان کہتا ہے۔ فرقان کا معنی ہے: حق و باطل میں فرق کرنے اور جدا کرنے والا۔ اس غزوہ سے قبل اللہ تعالٰی اس کے مقاصد کی طرف سورہ انفال میں اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حق کو خوب اس طور پہ واضح کر دیا جائے کہ کسی کے پاس انکار کی گنجائش باقی نہ ہو اور باطل کی شان و شوکت کو زیر کر کے ذلیل و رسوا کر دیا جائے۔
اس غزوہ کو پھر یوم الفرقان اسی مناسبت سے کہا گیا کہ ایک نہایت قلیل جماعت بے سرو سامانی کے عالم میں اللہ تعالٰی کے حکم پہ لبیک کہتے ہوئے میدان میں کود پڑی، اپنی تعداد و اسباب سے قطع نظر اللہ تعالٰی کی ذات بابرکات پہ یقین کرتے ہوئے کفار کی ایک بڑی با اثر اور جنگی سامان و اسباب سے صف آراء ہوئی۔ اہل ایمان نے شجاعت و بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے دشمن کے ہر جوڑ پہ ایسی کاری ضرب لگائی کہ اس کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا، نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کو باوجود ایک بڑی جماعت ہونے اور جنگی آلات سے لیس ہونے کے عبرتناک شکست کی ہزیمت اٹھانا پڑی، اور اس کے سرکردہ سردار اپنے بد ترین انجام سے دوچار ہوئے۔
یہ فتح اللہ تعالٰی کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھی، چنانچہ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں مختلف مواقع پہ اہل ایمان کی مدد کے لئے اور ان کے دلوں کو ثابت قدم رکھنے کے لیے اپنے فرشتوں کی جماعتیں اتارنے کا ذکر فرمایا، جو اس بات کی کھلی دلیل تھی کہ یہ جماعت اللہ کی محبوب ترین جماعت تھی، اس کو تائید و نصرت سے نوازا گیا۔ اس غیر معمولی کامیابی نے اس جماعت کی حقانیت پہ مہر ثبت کر دی تھی اور اس جماعت کو ابتدائی درجے میں پیغام الٰہی کو دنیا بھر میں پہنچانے کے لئے قبول کر لیا تھا۔ علاوہ ازیں روز آخر تک کے انسانوں کے لیے پیغام تھا کہ جب بھی اہل ایمان اس جماعت کے اوصاف کے حاملین ہوں گے تو اللہ تعالٰی اپنی تائید و نصرت سے ان کے ذریعے ایمان و اسلام کی حقانیت دنیا والوں پہ روشن کر دیں گے۔
نبی کریمﷺ کے اعجازات میں ایک اعجاز یہ تھا حضور علیہ السلام نے آنے والے حالات کی بابت مختلف خطرات و حوادث سے اپنی امت کو آگاہ کر دیا تھا، ان میں سے ایک اشارہ اس حادثہ کی جانب تھا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ میری امت میں دین اجنبی ہو جائے گا اور اسے انجان بنا دیا جائے گا۔ ہم اسی زمانے سے گزر رہے ہیں کہ دین اجنبی ہو چکا، اسلام اپنے گھر میں ہی انجان بنا دیا گیا، جو اسلام کے دعویدار ہیں وہی اسلام سے بیزار و خائف ہوئے پھر رہے ہیں، جنہیں اسلام کی آفاقی تعلیمات و تعبیرات سے چہار دانگ عالم کو روشناس کرانا تھا وہی اسلامی تشریحات میں تساہل و مداہنت سے کام لینے لگے، جنہیں اسلامی عقائد و تعلیمات کا مجسمہ پیکر و نمونہ بننا تھا، جنہیں امت کی قیادت کر کے ان کے مسائل کو حل کرنا تھا، جنہیں امت کی ناؤ بچا کر ساحل پہ لگانی تھی، جنہیں اسلامی تعلیمات کی افادیت کے مظاہر دنیا کو دکھانے تھے، جن کو دنیا کے تمام مذاہب پہ اسلام کا اعتقادی، علمی و عملی، قانونی و سیاسی، معاشی و معاشرتی غلبہ و برتری ثابت کرنا تھی وہ خود ہی دیگر مذاہب و افکار کے خوگر ہو گئے اور ذہنی و اعتقادی طور پہ ان کی برتری تسلیم کر چکے تھے۔
ایسے حالات میں اللہ تعالٰی نے اپنی سنت کو دہراتے ہوئے ایک قلیل جماعت کو دین الٰہی کے غلبے کے لئے قبول فرمایا، یہ اس مقدس سرزمین کی جماعت تھی جو کبھی انبیاء کا مسکن رہی، جس کی دھرتی پر تمام نبیوں نے امام الانبیاء حضور نبی کریمﷺ کی امامت میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل کیا تھا۔ اس قلیل جماعت نے اللہ کے کلمہ کو اطراف عالم میں بلند کرنے، کفریہ شوکت کو ڈھانے اور بیت المقدس کی آزادی کا عزم کرتے ہوئے اللہ تعالٰی سے اپنی جان و مال کا سودا کر لیا اور کسی صورت پیٹھ دکھانے سے انکار کر دیا۔
ان سر فروشان اسلام کی قربانیوں کی داستان تو ویسے عشروں پہ محیط ہے لیکن سال قبل 7 اکتوبر کو اس قلیل جماعت نے حتی الوسع ہتھیاروں اور جنگی ساز و سامان کے ساتھ مد مقابل ناقابل تسخیر کہلائی جانے والی اور غیر معمولی اسلحہ کی قوت کی حامل سمجھی جانے والی کثیر جماعت پہ ایک نئے ولولے اور جوش و عزم سے کاری ضرب لگانے کا بیڑا اٹھایا اور اس کے تمام عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے کمر کس لی۔ کون جانتا تھا کہ اس چھوٹی سی پٹی پہ بسنے والے عزم و استقلال کے کوہ گراں ثابت ہوں گے اور تاریخی اوراق میں مدفون عزیمت و استقامت کے افسانوں کو عملی جامہ پہنائیں گے۔
خطرے کی گھنٹیاں بجا کر اپنی کشتیوں کو جلاتے ہوئے ایک بار پھر میدان کارزار سجا دیا گیا، میدان کیا سجنا تھا کہ دنیا انہیں بے وقوفی کے طعنے دینے لگی، مظلوم کی حمایت کی بجائے اسے ہی مورد الزام ٹھہرانے لگی، پرائے تو کیا اپنے بھی انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے اور انہیں معصوم لوگوں کی جانوں کے ضیاع پہ کوستے رہے۔ وقت نے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ان کے دامن پہ لگنے والے دینے داغ اور دھبوں کو دھو دیا، دنیا ان کی مظلومیت کا اعتراف کرنے لگی، اہل ایمان خواص و عوام کے ذہنوں کے خلجان رفع ہونے لگے، ہر طرف سے ان کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کی باز گشت سنائی دی جانے لگی، آخر کیوں نہ ہوتا کہ انہوں نے آزادی کا بھولا سبق پوری امت کو پھر سے یاد کرا دیا۔
آج سال پورا ہو چلا ہے کہ محدود وسائل کے ساتھ ایک چھوٹی سی جماعت دنیا کی عالمی طاقتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے کھڑی ہے، ہزاروں معصوم لقمہ اجل بن چکے، ہزاروں مائیں بہنیں دودھ پیتے چیختے چلاتے اور فریاد کرتے بچوں کو چھوڑ بارگاہ الٰہی میں پیش ہو چکی ہیں، حماس کے قائدین سمیت ہزاروں افراد اس مقدس مشن پہ وعدہ کی پاسداری کرتے ہوئے قربان ہو چکے ہیں، کھانے، پینے اور علاج معالجہ کی ضروری سہولیات سمیت ہر چیز بند کر دی گئی، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، مساجد و مکاتب، کاروباری مراکز اور رہائشی عمارتوں سمیت ہر جگہ کو نشانہ بنا کر کھنڈرات و ملبے میں بدل دیا گیا، لیکن اس جماعت کے پائے استقلال میں ذرہ کمی نہیں آئی اور نہ ہی ہمت ہاری بلکہ ہر محاذ پہ کامیابی سے سرخرو ہوتے نظر آ رہے ہیں، دشمن کو عسکری و انتظامی، اقتصادی و معاشی، داخلی و خارجی اور میڈیا سمیت ہر میدان میں منہ کی کھانا پڑی ہے۔ کیا اس چھوٹی سی جماعت کا دنیا کی ایٹمی اور جدید ہتھیاروں سے لیس قوتوں کا مقابلہ کرنا اور سال گزرنے کے بعد اس عزم کی تجدید کرنا اللہ کی نصرت کے بغیر ممکن تھا؟ ہرگز نہیں واللہ یہ اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا۔
اس جماعت نے آج اسلام کی حقیقی تصویر امت کے سامنے پیش کی، اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ بن کر دکھایا، اسلامی پیغام کے غلبے کی عملی دلیل پیش کی، چنانچہ ان کے کردار و عزم اور استقامت و پائے مردی سے متاثر ہو کر سینکڑوں لوگ اسلام کی حقانیت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے دامن میں آ چکے ہیں، ایمان و اسلام کی طاقت دنیا پہ آشکارا ہو رہی ہے اور اہل باطل کی بزدلی و پست ہمتی کا مشاہدہ دانشواران عالم کھلی آنکھوں کر رہے ہیں۔ سو آج اس معرکہ کو یوم الفرقان بے محل نہ ہوگا کہ اس معرکہ نے پھر سے دنیا کو اور بطور خاص امت مسلمہ کو دین اسلام کی حقانیت سے پھر آشکارا کیا، ان بجھے ہوئے جذبوں کو پھر سے حرارت بخشی اور ان کا رشتہ بیت المقدس سے جوڑا اور آج یہ جماعت پوری دنیا میں اسلام کے ماتھے کا جھومر بن کر اس کی عزت افزائی کر رہی ہے، خدانخواستہ اگر یہ جماعت نہ ہوتی تو اسباب کے درجے میں امت اپنے دینی پیغام کو بھلا بیٹھتی اور اسلام کی آفاقی تعلیمات کی بجائے اس کی آنکھیں مغربی علوم و افکار اور ٹیکنالوجی سے چندھیا جاتیں اور اسلام کی اولوالعزمی و شجاعت کا سبق دہرانے والا کوئی نہ ہوتا۔ لیکن اسلام قیامت تک کے لئے ہے تو ایسی قلیل ایمانی صفات کا مجسمہ جماعتیں ہر دور میں اللہ تعالٰی اٹھاتے ہیں تاکہ دنیائے فانی کے ہر فرد پہ حجت تمام کرتے ہوئے اہل ایمان اور منافقین کی صف بندی کر کے حق و باطل میں تفریق کر دی جائے۔ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں کہ جب یہ جماعت بھی فاتحانہ انداز میں مسجد اقصی میں داخل ہو کر سجدہ ریز ہوگی اور کفریہ شوکت کو عبرتناک ہزیمت سے دوچار کرتے ہوئے اطراف عالم میں اسلام کا علَم بلند کرے گی اور اہل ایمان کے قلوب میں ایمانی حرارت کے شعلے بھڑکا کر انہیں جینے کے طور طریقے سکھائے گی۔ امت مسلمہ بزبان حال یوں ان کی شکر گزار ہوگی:
اے شہیدو! تمہارا یہ احسان ہے
آج ہم سر اٹھانے کے قابل ہوئے