6 اکتوبر 1976ء کو برصغیر کے ممتاز عالم دین، تحریک پاکستان کے صف اول کے رہنما اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے وفات پائی۔
مولانا مفتی محمد شفیع 1897ء میں دیوبند میں پیدا ہوئے تھے۔ دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی اور پھر وہیں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ 1922ء میں منصب افتاء پر فائز ہوئے اورایک طویل عرصے تک دارالعلوم دیوبند جیسے شہرہ آفاق دینی مرکز کے مفتی رہے۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے مختلف مسائل پر بڑے اہم فتاویٰ دیئے جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں ان فتاویٰ کا انتخاب کئی ضخیم جلدوں میں شائع ہوچکا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد مفتی صاحب کراچی چلے آئے۔ اور یہاں ایک عظیم دینی درس گاہ دارالعلوم کی بنیاد رکھی۔ جو اس وقت بھی کراچی میں علوم اسلامیہ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔
مولانا مفتی محمد شفیع ابتدا میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن سے بیعت تھے ان کی وفات کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے اور ان کے خلیفہ ہوگئے۔آپ مولانا اشرف علی تھانوی کے علمی، روحانی اور سیاسی جانشین تھے۔
مولانا مفتی محمد شفیع نے درس و تدریس اور خدمت افتاء کے علاوہ قرآن و حدیث فقہی مسائل اور تصوف اصلاح کے موضوعات پر بے شمار علمی اور دینی کتب تصنیف فرمائیں۔ ان تصانیف میں قرآن پاک کی تفسیر معارف القرآن کو اعلیٰ مقام حاصل ہے جو آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔
مفتی محمد شفیع عثمانی تحریک پاکستان کے ایک اہم رہنما اور مفتی اعظم پاکستان تھے۔ آپ نے مولانا شبیر آحمد عثمانی کی دعوت پر اپنا آبائی وطن دیوبند چھوڑ کر پاکستان ہجرت کی۔ آپ کا شمار دارالعلوم دیوبند کے اہم اساتذہ میں ہوتا تھا۔ پاکستان آکر سب سے سے پہلے پاکستان میں دستور سازی کے عمل میں شریک ہوئے اور قائد اعظم کے وعدوں کے مطابق پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے راہ ہموار کیں۔ 1949ء میں قرارداد مقاصد اور 1951ء میں 22 نکات پر مشتمل دستوری تجاویز کی ترتیب و تدوین میں آپ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ نے کراچی کے علاقے کورنگی میں ایک وسیع و عریض مدرسہ جامع دارالعلوم کراچی قائم کیا جو آج پاکستان کا سب سے بڑا دینی مدرسہ ہے۔
مولانا مفتی محمد شفیع نے 6 اکتوبر 1976ء کو کراچی میں وفات پائی۔ آپ کی نماز جنازہ مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ ڈاکٹر عبدالحئی نے پڑھائی اور آپ کو دارالعلوم کراچی کے احاطے میں سپرد خاک کردیا گیا۔