مشرکینِ مکہ کی طرف سے مسلسل بدسلوکی ٗ اور ایذاء رسانی کے اس لامتناہی سلسلے سے تنگ آ کر آخر نبوت کے دسویں سال ماہِ شوال میں رسول اللہ ﷺ نے شہر طائف کا رُخ کرنے اور وہاں کے باشندوں کو پیغامِ حق پہنچانے کا فیصلہ فرمایا، طائف مکہ مکرمہ سے تقریباً ساٹھ میل (سو کلومیٹر) کے فاصلے پر واقع پہاڑی علاقہ ہے، جہاں بلند و بالا پہاڑ بکثرت پائے جاتے ہیں، راستہ انتہائی مشکل ٗ خطرناک اور دشوار گذار ہے، آپ ﷺ نے یہ طویل مسافت پیدل اپنے قدموں پر چل کر طے کی، راستے میں متعدد قبائل کے مساکن سے گذر ہوا، آپ ﷺ نے ان سبھی کو دینِ اسلام کی دعوت دی، لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس پیغامِ حق کو قبول نہ کیا۔
آخر یہ دشوار گذار اور انتہائی خطرناک پہاڑی راستہ پیدل طے کرتے ہوئے آپ ﷺ طائف شہر جا پہنچے ٗ جو اس وقت مشہور قبائل ہوازن ٗ نیز بنو ثقیف کا مسکن تھا، وہاں آپ ﷺ نے مسلسل دس روز قیام فرمایا، اس دوران آپ ﷺ نے پہلے ان کے سرکردہ افراد کو ٗ اور پھر ان سے مایوس ہو جانے کے بعد ہر خاص و عام کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دی… مگران بدبختوں نے آپ ﷺ کی اس دعوت کو قبول کرنے کی بجائے حددرجہ بے مروتی اور سنگدلی کا مظاہرہ کیا، نیز آپ ﷺ کی شان میں گستاخی اور بدسلوکی کی انتہاء کر دی… شہر کے آوارہ اور اوباش قسم کے نوجوانوں کو پیچھے لگا دیا… جو مسلسل آپ ﷺ کا تعاقب کرتے رہے… آپ ﷺ پر آوازیں کستے رہے… بیہودہ گوئی کرتے رہے… اسی پر بس نہیں… بلکہ مسلسل پتھر برساتے رہے، یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاؤں مبارک لہولہان ہوگئے اور جوتے خون سے بھر گئے… اس حالت میں آپ ﷺ نے وہاں سے مکہ کی جانب واپسی کا سفر شروع کیا، تقریباً تین میل کی مسافت طے کرنے کے بعد آپ ﷺ جب ایک باغ میں سے گذر رہے تھے تو وہاں کچھ سستانے کی غرض سے انگور کی بیل کے نیچے سائے میں آپ ﷺ نے توقف فرمایا… عجب بیچارگی تھی… اس قدر طویل سفر کی مشقت … اور پھر یہ کہ کوئی اپنی ذاتی غرض نہیں تھی… بلکہ محض اللہ کا پیغام پہنچانا مقصود تھا… مگر… انجام کیا ہوا…؟ یہی سب کچھ سوچ کر آپ ﷺ اُس وقت انتہائی صدمے کی کیفیت میں تھے… بے بسی و بیچارگی کی انتہاء ہوگئی تھی… اسی کسمپرسی و بیچارگی کی کیفیت میں آپ ﷺ اپنے خالق و مالک سے لو لگائے ہوئے اس کے سامنے آہ و فریاد اور الحاح و زاری میں مشغول ہوگئے… اور تب آپ ﷺ کے دل سے وہ آہ نکلی جس نے زبان تک پہنچتے پہنچتے عجیب و غریب کلمات کا روپ دھار لیا… ایک ایسی دعاء آپ ﷺ کی زبان پر جاری ہوگئی جس کا ایک ایک کلمہ اپنے اندر ایک سمندر سمیٹے ہوئے ہے… جس کے ایک ایک لفظ میں عجب تأثیر ہے، کسی اور موقع پر آپ ﷺ سے ایسی عجیب وغریب دعاء منقول نہیں ہے…:
ترجمہ: ’’اے اللہ! میں تجھی سے شکایت کرتا ہوں اپنی قوت کے ضعف اور کمی کی، اور اپنی تدبیر کی ناکامی کی، اور لوگوں کی نظروں میں اپنی خفت و بے توقیری کی، اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، اور تو ہی کمزوروں کی پرورش کرنے والا ہے، تو ہی میرا رب ہے، پھر تو مجھے کس کے سپرد کر رہا ہے؟ کسی غیر آدمی کے جو مجھ سے درشتی سے پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے جو میرے ساتھ جو چاہے کرے؟ اگر تو مجھ سے ناراض نہ ہو… تو پھر مجھے ان سب چیزوں کی کوئی فکر نہیں، ہاں البتہ تیری دی ہوئی عافیت میرے لئے زیادہ بہترہے، میں تیرے مبارک نور کی پناہ طلب کرتا ہوں کہ جس سے تمام اندھیرے روشن ہو جاتے ہیں، اور جس کی بناء پر دنیا و آخرت کے تمام کام درست ہوجاتے ہیں ٗ اس بات سے کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو، یا تیری ناراضگی مجھے آ گھیرے، میرا کام بس یہی ہے کہ تجھے راضی کرنے اور منانے میں ہی لگا رہوں جب تک کہ تو راضی نہ ہو جائے… اور نہیں ہے کوئی سہارا اور نہ ہی کوئی وسیلہ سوائے تیرے۔‘‘
یہ باغ دراصل ربیعہ کے بیٹوں عتبہ اور شیبہ کی ملکیت تھا، اس وقت وہ دونوں کچھ فاصلے پر وہاں موجود تھے اورمسلسل رسول اللہ ﷺ کی نقل و حرکت کا مشاہدہ کر رہے تھے، آپ ﷺ کی یہ حالت دیکھ کر… اور پھر آپ ﷺ کی اس عجیب و غریب دعاء کے یہ دل سوز کلمات سننے کے بعد… ان کے دل میں کچھ رحم کے جذبات بیدار ہونے لگے، تب انہوں نے انگوروں کا ایک گچھا اپنے خادم کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ انگور اس شخص (یعنی رسول اللہ ﷺ) کو دے آؤ، اس خادم کا نام عدّاس تھا، جو کہ نصرانی تھا اور اللہ کے نبی حضرت یونس علیہ السلام کے شہر ’’نینویٰ‘‘ کا باشندہ تھا، چنانچہ وہ انگوروں کاگچھالئے ہوئے آپ ﷺ کے قریب پہنچا اور انگور پیش کئے، آپ ﷺ نے انگوروں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے ’’بسم اللہ‘‘ کہا، جس پر وہ خادم انتہائی حیران ہوا، اور کہنے لگا کہ یہاں کے باشندے تو یہ الفاظ (یعنی بسم اللہ) نہیں کہتے…؟ اس پر آپ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ ’’تم کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’میں نینویٰ کا رہنے والا ہوں‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’اس کامطلب ہے تم یونس بن متیٰ کے علاقے سے تعلق رکھتے ہو‘‘ اس پر وہ مزید حیران ہوا، اور کہنے لگا ’’آپ کو یونس بن متیٰ کے بارے میں علم کیسے ہوا؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’یونس میرے بھائی تھے، میری ہی طرح وہ بھی اللہ کے نبی تھے‘‘، آپ ﷺ کی زبانی یہ بات سن کر عداس نے دیوانہ وار آپ ﷺ کے ہاتھ پاؤں چومنا شروع کردئیے… اُدھر اس کے دونوں آقا عتبہ وشیبہ یہ منظر دیکھ کر آپس میں کہنے لگے ’’لو… یہ تو اب گیا کام سے۔‘‘
اور جب عداس رسول اللہ ﷺ کے پاس سے واپس اپنے ان آقاؤں کے قریب پہنچا تو انہوں نے اس سے پوچھا کہ ’’تم یہ کیا کررہے تھے؟ اس شخص کے ہاتھ پاؤں کیوں اس طرح چوم رہے تھے؟‘‘ عدّاس نے جواب دیا: ’’اس وقت تمام روئے زمین پر ان سے بہتر کوئی اور شخص نہیں ہے… انہوں نے مجھے ایک ایسی بات بتائی ہے جو کہ صرف اللہ کا کوئی نبی ہی بتاسکتاہے۔‘‘ اپنے غلام کی زبانی یہ بات سن کر ان دونوں نے اسے جھڑک دیا… اور پھر قدرے توقف کے بعد اسے مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے ’’تمہارا دین اس شخص کے دین سے بہترہے… تم کہیں اس کی باتوں میں آ کر اپنا دین نہ چھوڑ بیٹھنا۔‘‘
اُس باغ میں اس مختصر سی راحت کے بعد آپ ﷺ وہاں سے آگے سوئے منزل یعنی مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوگئے، راستے میں قرن الثعالب نامی مقام پر جب آپ ﷺ پہنچے تو وہاں جبریل امین علیہ السلام نازل ہوئے اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا رویہ دیکھ لیا ہے اور آپ کی باتوں کا جو کچھ انہوں نے جواب دیاہے ٗ وہ بھی سن لیاہے۔‘‘
اور پھر مزید فرمایا: ’’اللہ نے میرے ہمراہ آپ کیلئے پہاڑوں کے فرشتے کو بھی بھیجا ہے تا کہ ان اہلِ طائف کے بارے میں آپ اسے جو چاہیں حکم دیں۔‘‘
تب ملک الجبال یعنی پہاڑوں کے فرشتے نے خود آگے بڑھ کر سلام کیا اور کہا: ’’اگر آپ حکم دیں تو میں ابھی ان دونوں پہاڑوں کو آپس میں ملادوں‘‘ (تا کہ یہ اہلِ طائف دونوں پہاڑوں کے درمیان کچلے جائیں اور یوں ان کاخاتمہ ہوجائے) لیکن اس موقع پر پہاڑوں کے فرشتے کی طرف سے اس پیش کش کے جواب میں نبیٔ رحمت ﷺ کی زبان مبارک سے اپنے ان بدترین دشمنوں اور بدخواہوں کیلئے جو الفاظ نکلے… عفو و درگذر کے باب میں انسانی تاریخ شاید کوئی ایسی مثال کبھی پیش نہیں کرسکے گی…
آپ ﷺ نے اس فرشتے کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے ان دشمنوں کے بارے میں فرمایا: ’’انہیں ہلاک نہ کرو، کیونکہ مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ ان کی آئندہ نسلوں میں ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔‘‘(۱)
اس کے بعد رسول ا للہ ﷺ نے مکہ کی جانب اپنا سفر جاری رکھا، جب آپ ﷺ ’’وادیٔ نخلہ‘‘ سنامی مقام پرتھے ٗ اتفاقاً اسی وقت وہاں سے ’’جنوں‘‘کی ایک جماعت کاگذرہوا،اس وقت آپؐ تلاوتِ قرآن میں مشغول تھے ، جنوں نے آپؐسے قرآن سناتواسی جگہ رک گئے اوردیرتک قرآن سنتے رہے… اورپھراسلام بھی قبول کیا… سورۃ الجن کی ابتدائی آیات ٗنیزسورۂ احقاف کی آیات ۲۹تا۳۱میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
[جاری ہے]
(۱) پہاڑوں کے فرشتے کی طرف سے ان اہلِ طائف کو دونوں پہاڑوں کے درمیان یوں کچل کر ہلاک کر ڈالنے کی اس پیش کش کے جواب میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے یہ جواب ’’رحمت و ہمدردی‘‘ کے باب میں اگرچہ رہتی دنیا تک تمام دنیائے انسانیت کیلئے ایک روشن مثال ہے… لیکن ہم برصغیر اور خصوصاً پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کو اس موقع پر بطورِ خاص اس اہم ترین تاریخی حقیقت کا استحضار بھی کرنا چاہئے کہ برصغیر میں سب سے پہلے دینِ اسلام کی شمع لے کر جو کم سن سپہ سالار پہنچا… وہ عظیم فاتح جس نے صرف سترہ برس کی عمرمیں سندھ فتح کیا… یعنی محمد بن قاسم الثقفی رحمہ اللہ… ان کا تعلق بنوثقیف سے تھا، اور اہلِ طائف سب ثقفی ہی تھے۔ اگرچہ بعد میں بعض انتظامی امور کے پیشِ نظر محمد بن قاسم کے والد نیز چچا (حجاج بن یوسف ثقفی) و دیگر متعدد اہلِ خاندان طائف سے بصرہ (عراق) منتقل ہوگئے تھے اور پھر فتح سندھ کے موقع پر محمد بن قاسم نے مکران ٗ بلوچستان ٗ سندھ اور ملتان کی جانب پیش قدمی کا سلسلہ بصرہ سے ہی شروع کیا تھا… لیکن اصل میں تو اس کا وطن طائف تھا، لہٰذا اگر اہلِ طائف ہلاک کردئیے جاتے تو محمد بن قاسم بھی اس دنیا میں نہ آتا… وللہ فی خلقہٖ شؤون ۔