کھلے عام دینِ برحق کی طرف دعوت دینے کی وجہ سے مشرکینِ مکہ طیش میں آگئے… طاغوتی قوتیں حرکت میں آگئیں، اور اب انہوں نے سچائی کا راستہ روکنے اور آپ ﷺ کو نیز آپ ﷺ کے مٹھی بھر ساتھیوں کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچانا شروع کیں، کسی کو شدید گرمی کے موسم میں آگ اُگلتے ہوئے سورج کے نیچے تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر سینے پر بڑا بھاری پتھر رکھ دیا جاتا ٗ تا کہ اپنی جگہ سے حرکت نہ کرسکے… کسی کو پاؤں میں رسیاں ڈال کر دن بھر مکہ کی پتھریلی اور گرم گلیوں میں گھسیٹا جاتا… کسی کو انگاروں پر لٹایا جاتا… اس دور میں جن حضرات پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور انتہائی وحشیانہ طریقے سے ان پر ہر قسم کا تشدد کیا گیا ٗ ان میں خاص طور پر بلال بن رباح ٗ یاسر اور ان کے بیٹے عمار ٗ نیز عمار کی والدہ سمیہ ٗ اسی طرح خباب بن الأرت ٗ وغیرہ… قابلِ ذکر ہیں رضی اللہ عنہم اجمعین۔
اُس دورمیں خود رسول اللہ ﷺ کو بے حد تکلیفیں پہنچائی گئیں، کبھی آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھا دئیے جاتے، کبھی غلاظت کے ڈھیر ڈال دئیے جاتے، کبھی آپ ﷺ کے قتل کی سازش کی جاتی، نیز ایک بار جب آپ ﷺ بیت اللہ کے قریب نماز کے دوران اپنے رب کے سامنے حالتِ سجدہ میں تھے ٗ توچند بدبختوں نے اونٹ کی اوجڑی لا کر آپ ﷺ کی پشت مبارک پر ڈال دی، جس کے بوجھ اور وزن کی وجہ سے آپ ﷺ کافی دیر تک کوئی حرکت نہ کرسکے… جبکہ نجاست و غلاظت اور بدبو کی تکلیف اس کے علاوہ تھی…!!
مزید یہ کہ آپ ﷺ کو ان جسمانی اذیتوں اور تکلیفوں کے علاوہ ہر قسم کی ذہنی و نفسیاتی تکلیف پہنچانے میں بھی ان ظالموں اور بدبختوں نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی… چنانچہ کبھی آپ ﷺ کو ’’دیوانہ‘‘ کہا گیا، جیسا کہ قرآن کریم میں اسی طرف اشارہ ہے:
وَقَالُوا یَا أیُّھَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَیہِ الّذِکرُ اِنَّکَ لَمَجْنُون
الحجر [۶]
ترجمہ : انہوں نے کہا کہ اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے ٗ یقیناً تو تو کوئی دیوانہ ہے۔
کبھی کہتے کہ یہ قرآن تو نعوذ باللہ اس شخص نے خود ہی لکھوا لیا ہے اور اللہ کی طرف اس کی جھوٹی نسبت کردی ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
وَقَالُوا أسَاطِیرُ الأوّلِینَ اکْتَتَبَھَا فَھِيَ تُمْلَیٰ عَلَیہِ بُکرَۃً وّ أصِیلَا
الفرقان [۵]
ترجمہ : اور یہ بھی کہا کہ یہ تو محض گذشتہ لوگوں کے افسانے ہیں ٗ جو اس نے لکھا رکھے ہیں ٗ بس وہی صبح و شام اس کے سامنے پڑھے جاتے ہیں۔
اور کبھی بطورِ استہزاء و تمسخر یوں کہتے ہیں کہ یہ کیسا عجیب رسول ہے جو کھاتا پیتا اور بازاروں میں گھومتا پھرتا ہے…؟ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
وَقَالُوا مَا لِھٰذا الرّسُولِ یَأکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِي فِي الأسْوَاقِ …
الفرقان [۷]
ترجمہ : اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسا رسول ہے؟ جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟
نیز کبھی ’’جادوگر‘‘ اور کبھی ’’جھوٹا‘‘ کہا گیا، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
وَقَالَ الکَافِرُونَ ھٰذَا سَاحِرٌ کَذَّابٌ
ص [۴]
ترجمہ : اور کہا کافروں نے کہ یہ تو بس جادوگر ہے جھوٹا ہے۔
غور طلب بات ہے کہ وہی مشرکینِ مکہ جو آپ ﷺ کو بعثت و رسالت سے قبل ہمیشہ سے ’’صادق و امین‘‘ کے لقب سے پکارتے چلے آرہے تھے… اب وہی لوگ یک بہ یک آپ ﷺ کو ’’جھوٹا‘‘ کہنے لگے… اور پھر خاص طور پر جبکہ ان میں سے اکثریت کے ساتھ آپ ﷺ کا قرابت داری کا تعلق بھی تھا… اپنوں ہی کی زبانی دل چھلنی کر دینے والی یہ باتیں… یقیناً یہ چیز آپ ﷺ کیلئے انتہائی صدمے اور نفسیاتی تکلیف کا باعث تھی۔
نیز یہ مشرکینِ مکہ بغض و نفرت کی شدت کی وجہ سے آپ ﷺ کو تیز نگاہوں اور کھا جانے والی نظروں سے دیکھاکرتے تھے، جس کا قرآن کریم میں یوں تذکرہ کیا گیا ہے:
وَاِن یَّکَادُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَیُزْلِقُونَکَ بِأبْصَارِھِم لَمَّا سَمِعُوا الّذِکرَ وَ یَقُولُونَ اِنَّہٗ لَمَجْنُونٌ
القلم [۵۱]
ترجمہ : اور قریب ہے کہ کافر اپنی تیز نگاہوں سے آپ کو پھسلادیں جب کبھی قرآن سنتے ہیں ٗ اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو ضرور دیوانہ ہے۔
مزید یہ کہ آپ ﷺ کو دلی رنج اور نفسیاتی صدمہ پہنچانے کی غرض سے بدبخت ابولہب نے اپنے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کو حکم دیا کہ وہ دونوں اپنی بیویوں کو طلاق دے دیں، جو کہ آپ ﷺ کی صاحبزادیاں یعنی حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم (رضی اللہ عنہما) تھیں، جن کا نکاح آپ ﷺ کی بعثت سے قبل ابولہب کے ان بیٹوں کے ساتھ ہوا تھا۔
البتہ متعدد مؤرخین کے بقول اُس وقت تک رخصتی کی نوبت نہیں آئی تھی، محض نکاح ہوا تھا، واللہ أعلم
[جاری ہے]