رسول اللہ ﷺ کی تیئس سالہ پیغمبرانہ زندگی اس قدر وسیع موضوع ہے اور اس کی اتنی جزئیات ہیں کہ ان میں سے ہر موضوع پرمستقل ضخیم کتابیں لکھی گئی ہیں، یہ سلسلہ ہر دور میں جاری رہا اور آئندہ بھی تا قیامت جاری رہے گا۔
البتہ سہولت کی خاطر بطورِ خلاصہ اس تیٔس سالہ زندگی کو یوں تقسیم کیا جاسکتا ہے کہ ابتداء میں اسے مکی دور اور مدنی دور میں تقسیم کر دیا جائے، اور پھر ان دونوں ادوار میں سے ہر ایک کو مزید تین مختلف ادوار میں تقسیم کردیا جائے، اس سلسلہ میں تفصیل درجِ ذیل ہے:
پہلا دور؛ غیر اعلانیہ دعوت و تبلیغ:
مکی زندگی کے تین مختلف ادوار میں سے پہلا دور وہ ہے جسے ’’خفیہ دعوت و تبلیغ‘‘ کا دور کہا جاتا ہے، اور جو کہ تین سال کے عرصہ پر محیط ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے جب آپ ﷺ کو دینِ برحق کی تبلیغ کا فریضہ سونپا گیا تو اس حکمِ ربانی کی تعمیل میں آپ ﷺ نے سب سے پہلے اپنے افرادِ خانہ کو پیغامِ حق پہنچایا، جس کے نتیجے میں آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ٗ آپ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ٗ آپ ﷺ کے چچازاد بھائی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے (جو کہ آپ ﷺ ہی کے زیرِ کفالت تھے) آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس پیغامِ حق کو قبول کیا۔
ان افرادِ خانہ کے بعد آپ ﷺ نے گھر سے باہر ان لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دی جن میں آپ ﷺ کو خیر و خوبی کی جھلک نظر آتی تھی، ان افراد میں آپ ﷺ کے انتہائی قریبی رازدار اور خاص ترین دوست اور بااعتماد ساتھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قابلِ ذکر ہیں۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، و دیگر متعدد ایسے حضرات تھے جو کہ بالکل ابتدائی دور میں ہی دعوتِ حق پر لبیک کہتے ہوئے مشرف باسلام ہوگئے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہ تمام حضرات وہ تھے کہ جن کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بہت قدیم اور قریبی تعلق چلا آ رہا تھا، جس کی وجہ سے یہ حضرات آپ ﷺ کے اخلاق و کردار سے بخوبی واقف تھے، آپ ﷺ کی زندگی کا کوئی گوشہ ان سے مخفی نہیں تھا… اس کے باوجود سب سے پہلے انہی حضرات کا آپ ﷺ کی دعوت کو قبول کرنا اور بلا چون و چرا آپ ﷺ کی تصدیق کرنا آپ ﷺ کی صداقت و حقانیت ٗ نیز آپ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ کردار کی مضبوط دلیل ہے۔
تین سال کے عرصے پر محیط غیر اعلانیہ دعوت و تبلیغ کا یہ دور یوں مکمل ہوا کہ گنے چنے چند افراد نے اس دینِ برحق کو قبول کیا، جس کی خبر اگرچہ مشرکینِ مکہ کے کانوں تک جا پہنچی ، تا ہم انہوں نے اسے محض وقتی چیز سمجھتے ہوئے اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔
[جاری ہے]