Home پاکستان کراچی کے تعلیمی بحران پر توجہ ناگزیر، کنسرنڈ سیٹیزنز الائنس اور پاکستان...

کراچی کے تعلیمی بحران پر توجہ ناگزیر، کنسرنڈ سیٹیزنز الائنس اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی پریس کانفرنس

کراچی: کنسرنڈ سیٹیزنز الائنس کراچی اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی نے پریس کانفرنس منعقد کرتے ہوئے کراچی کی سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں اور کالجز کی دگرگوں علمی و انتظامی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ سول سوسائٹی، اساتذہ، طلبا، اور ملازمین کی مشاورت کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے بحران پر فوری توجہ اور ایک مربوط تحریک کی ضرورت ہے۔

پریس کانفرنس میں جامعہ کراچی اور وفاقی اردو یونیورسٹی میں ملازمین کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی، انتظامی بریک ڈاؤن، اور طلبا کے تعلیمی انحطاط جیسے اہم مسائل پر روشنی ڈالی گئی۔ مقررین نے کہا کہ طلبا، اساتذہ، اور ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک منظم تحریک کا آغاز ضروری ہے تاکہ تعلیمی اداروں میں اصلاحات لائی جا سکیں اور تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے عملی اقدامات کیے جا سکیں۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں سٹیزنز الائنس کے جناب اظہر جمیل و محترمہ تحسین فاطمہ، اردو یونیورسٹی کے ڈاکٹر اصغر دشتی، ڈاکٹر اقبال نقوی اور صدر امپلائیز ویلفئر عدنان خان، انقلابی کمیونسٹ کے طالبعلم آنند کمار، بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے بہرام بلوچ، پروگریسو اسٹوڈنٹس فرنٹ کے جسونت سنگھ، سندھی شاگرد ستھ کے ارسلان سومرو، انصاف اسٹوڈنٹس فرنٹ کے ساجد حسین، ٹمپریری ٹیچرز سوسائٹی کے جواد حسین، کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر ریاض احمد اور ڈاکٹر منور رشید شامل تھے.

بنیادی نکات:

1- اپنے قانونی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے اساتذہ و عمال کے نمائندوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کو فی الفور بند کیا جائے ۔

2- طلبہ یونین بحال کی جائیں اور انکے انتخابات فوری کرائے جائیں۔طلبہ کی اظہارِ رائے پر پابندیاں ختم کی جائیں۔

3- اساتذہ و عمال کی تنخواہوں، ہاؤس سیلنگ اور دیگر واجبات کی فوری ادائیگی کی جائے ۔ ادارے کے رٹائرڈ اساتذہ و عمال کو بر وقت پنشن کی ادائیگی اور ان کے دیگر واجبات کو فوری ادا کیا جائے ۔ملازمین کے میڈیکل پینلز کو بحال کیا جائے اور پینل ہسپتال میں مزید اضافہ کیا جائے۔

4- جامعات میں ایوننگ پروگرام میں اساتذہ و عمال کے سالوں سے روکے معاوضوں کو فوری ادا کیا جائے۔

5- سلیکشن بورڈ قواعد کے مطابق مقررہ وقت پر ہو تاکہ اس میں تاخیر سے اساتذہ کی حوصلہ شکنی نہ ہو اور قابل اساتذہ اور مختلف شعبوں کے ماہرین کی صلاحیتوں سے صوبے کو مستفید کیا جائے نہ کہ ان سے محروم ہونے کے خدشات سے دوچار ہونا پڑے۔ جامعات میں اساتذہ کی ترقیوں کے لیے ٹائم پے اسکیل کی پالیسی کو نافذ کیا جائے

6- جامعات میں طلبہ کی فیسوں میں فل فور کمی کی جائے۔اور انہیں عام آدمی کی دسترس کے مطابق رکھا جائے۔ فیسوں میں بے محابا اضافے کی وجہ سے داخلہ لینے والے طلبا کی تعداد میں تشویش ناک حد تک کمی واقع ہورہی ہے۔

7- وزیٹنگ اور کنٹریکٹ فیکلٹی کے مشاہروں /اعزازیہ میں اضافہ کیا جائے اور سلیکشن بورڈز میں ان کو ترجیحی بنیادوں پر مستقل کیا جائے.

8- تعلیمی اداروں میں طلبا کی تعداد کی مناسبت سے اساتذہ کی تقرری کی شرح HEC کے قواعد و ضوابط کے مطابق کی جاے۔ جامعات میں ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ کی معیاری سہولت مہیا کی جائے

9- کالجز میں امتحانات کے اوقات میں تبدیلی کی جائے۔ اور بہتر انتظامات کئے جائیں۔

10- جامعات میں ریسرچ کی سہولیات فراہم کی جائیں اور ریسرچ کے لیے فنڈ مختص کیا جائے۔

فوری توجہ کے حامل ان مطالبات کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور طلبا اور سول سوسائٹی کے نمائندے مندرجہ ذیل مسائل کا بھی دیرپا حل چاہتے ہیں۔ جن پر غوروخوض کے لیے مفصل مشاورت درکار ہے۔

1- سندھ کے دیگر اضلاع کے اساتذہ نمائندوں سے رابطہ کر کے انھیں بھی مقاصد کے حصول کی جدو جہد میں شمولیت کی دعوت دی جائے۔

2- سندھ کے کالجز کی عمارتوں کی خستہ حالی کے پیش نظر عمارتوں کی مرمت یا تبدیلی کی جائے ۔

3- 2010 کے ایکٹ آف پارلیمنٹ آن ہراسمنٹ اور HEC کی ہدایات کی روشنی میں تمام یونیورسٹیوں میں ہراسمنٹ سیل کا قیام یقینی بنایا جائے ۔

4- تمام تعلیمی اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر داخلے دیے جائیں ۔

5- قانون کے شعبے میں داخلے پاکستان بار کونسل کی ہدایات و احکامات کی روشنی میں کیے جائیں ۔

6- پورے سندھ کا ایک کنونشن بلایا جائے ۔

7- تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے اساتذہ ، ماہرین تعلیم، طلبا، سول سوسائٹی اور حکومت کے درمیان ایک مکالمہ شروع کیا جائے ۔

8- آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے تعلیمی اداروں اور کالجز کا قیام عمل میں لایا جائے ۔

9- ہائی اسکول اور اسکولوں کے نمائندوں سے بھی رابطہ کیا جائے ۔

10- مقامی آبادی کو ان کے اپنے قریبی علاقوں میں تعلیمی سہولیات مہیا کی جائیں۔ بڑے شہروں میں تعلیمی اداروں خاص کر یونیورسٹیوں کے ارتکاز کی پالیسی پر نظرثانی کی جائے ۔

11- تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیا جائے اور عالمی کنونشن برائے تعلیم کے مطابق 7 فیصد تک تعلیمی بجٹ بڑھایا جائے ۔

12- وومن کالجز میں ڈے کئیر سینٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے ۔

13- یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی پروموشن پالیسیوں کو صرف تحقیقی مقالہ جات کی اشاعت سے مشروط نہ کیا جائے۔ اس بارے میں دیگر معیار بھی مدنظر رکھے جائیں ۔

14- وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کل تعلیمی نصاب پر نظرثانی کی جائے اور اساتذہ کی تربیت کا مناسب انتظام کیا جائے ۔

15- تعلیمی اداروں میں فنڈز کے جائز استعمال کی نگرانی کے لیے کوئی مفید نظام تشکیل دیا جائے ۔

16- اجلاس میں طے پانے والے نکات کی بنیاد پر دیگر تنظیموں / سول سوسائٹی سے رابطہ کیا جائے تاکہ ان کی حمایت بھی اساتذہ کے حقوق کے تحفظ کے لیے معاون ثابت ہو ۔

Exit mobile version