رسول اللہ ﷺکاآبائی وطن چونکہ مکہ مکرمہ تھا لہٰذاآپ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اورحیاتِ طیبہ کے تذکرہ و بیان کے ضمن میں اس شہر اور اس خطے کا مختصر تذکرہ بھی ضروری ہے، اور جب شہر مکہ کا تذکرہ ہوگا تو ضرور حضرت ابراہیم علیہ السلام کاتذکرہ بھی ہوگا، کیونکہ یہ دونوں لازم وملزوم ہیں۔
شہر مکہ کی اولین آبادی دوپاکیزہ نفوس پرمشتمل تھی، یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام اوران کی والدہ ’’ہاجر‘‘۔[’’ہاجَر‘‘کو اردو دان طبقے میں برصغیرمیںعام طورپرحضرت ہاجرہ کہا جاتا ہے۔]
حضرت اسماعیل علیہ السلام اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند تھے،جنہیں ابوالأنبیاء بھی کہاجاتاہے،کیونکہ ان کے بعدجتنے بھی نبی آئے وہ سب انہی کی اولادمیںسے تھے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت پرایمان قبول کرنے والوں کی تعداد تو اگرچہ بہت کم تھی، یعنی صرف ان کی اہلیہ حضرت سارہ ،دوسری اہلیہ حضرت ہاجر، نیز بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام [حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دونوں صاحبزادوں حضرت اسماعیل اورحضرت اسحاق علیہماالسلام کی ولادت تو بعدمیں ہوئی، لہٰذا وہ تو پیدائشی ہی مؤمن تھے، جبکہ آپ کی دعوت پر ایمان قبول کرنے والوں کی کل تعداد تین ہی تھی۔] یہ کل امت تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی،لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے انہیں مقام ورتبہ بہت ہی بلندعطاء کیاگیااور’’امام الناس‘‘کالقب عطاء کیاگیا۔
قانونِ قدرت یہ ہے کہ جب کسی کوبلند مقام و رتبہ سے نوازنا مقصود ہو تو اس کیلئے آزمائشوں اور ابتلائات کاسلسلہ بھی اسی قدر دشوار اور سخت ہوتاہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا، اور ابتلائات کے ایک طویل سلسلہ سے انہیں گذرنا پڑا۔
قرآن کریم میںارشادہے:
{وَاِذِ ابْتَلَیٰ اِبرَاھِیمَ رَبُّہٗ بِکَلِمَاتٍ فَأتَمَّھُنَّ قَالَ اِنِّي جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماً…} البقرہ[۱۲۴]
ترجمہ: اور جب ابراہیم [علیہ السلام] کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا اور انہوں نے ان سب کو پورا کردیا تواللہ نے فرمایا میں تمہیں لوگوں کا امام بنادوں گا…
یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام متعدد و مختلف قسم کی آزمائشوں سے گذارے گئے اور ہر آزمائش میں کامیاب و کامران رہے، جس کے صلے میں انہیں اللہ کی طرف سے ’’امام الناس‘‘ کے عظیم ترین منصب پر فائز کیا گیا، چنانچہ صرف مسلمان ہی نہیں ٗ یہود و نصاریٰ کے نزدیک بھی ان کی شخصیت انتہائی محترم اورپیشوامانی اورسمجھی جاتی ہے، حتیٰ کہ مشرکینِ عرب کے نزدیک بھی وہ واجب الاحترام تھے، اگرچہ ان کی اپنی امت اور اپنے پیروکار محض تین افراد ہی تھے۔
اسی طرح قرآن کریم میں ارشادہے:
{وَاِبْرَاھِیمَ الَّذِي وَفَّیٰ} النجم[۲۷]
ترجمہ: اور وہ ابراہیم جنہوں نے وفاء کی
یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے ساتھ کئے گئے تمام وعدے وفاء کئے اورہر آزمائش میں ثابت قدم رہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کیلئے آزمائشوں کے اس طویل سلسلے کی ابتداء تو خود ان کے گھرسے ہی ہوگئی تھی جب خود ان کے مشرک باپ آزر نے انہیں گھرسے نکال دیاتھا [اس واقعہ کی تفصیل سورہ مریم آیات۴۱۔۵۰ میں موجودہے ۔]
اس کے بعد انہیں اپنا وطن چھوڑنا پڑا اور ہجرت کی نوبت آئی، پھر آگ میں ڈالے گئے… آزمائشوں کے اسی سلسلے کے دوران آپ علیہ السلام کا اپنی اہلیہ محترمہ حضرت سارہ کے ہمراہ ایک ایسے علاقے سے گذر ہوا جہاں ایک بدکردار اور ظالم انسان کی حکمرانی تھی، اس نے اپنے کارندے چھوڑ رکھے تھے جن کے ذمے یہ کام تھاکہ اس علاقے سے گذرنے والے مسافروں اور قافلوں پر نظر رکھیں، اگر کبھی کسی قافلے میں کوئی خوبصورت عورت نظر آئے تو وہ اسے زبردستی اغواء کرلیں اور اس حکمران کے سامنے پیش کریں تاکہ وہ بدبخت اسے اپنی ہوس کانشانہ بناسکے۔
جب ان دونوں حضرات یعنی ابراہیم علیہ السلام اوران کی اہلیہ محترمہ حضرت سارہ کا گذر اس علاقے سے ہوا تو اس بدبخت حکمران کے کارندوں نے حضرت سارہ کو بالجبر اس حکمران کے پاس پہنچادیا، جبکہ اس عجیب و غریب اور انتہائی پریشان کن اور نازک ترین صورتِ حال میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس مشکل سے نجات کیلئے اللہ سے فریاد اور دعاء و مناجات کاسلسلہ شروع کیا… ان برگزیدہ ہستیوں کایہی مزاج تھا…یہی ان کامذہب ومسلک تھا… اوریہی ان کاشیوہ و شعار تھا… کہ… ہرمشکل سے نجات کیلئے صرف اللہ کے سامنے دعاء و فریاد… اور صرف اسی سے استعانت و التجاء…!
ادھر اس بدبخت شخص نے حسبِ معمول بری نیت اور غلط ارادے سے حضرت سارہ کی طرف دست درازی کی، جس پر اس کا ہاتھ شل ہوگیا، جس پر اسے کچھ اندازہ ہواکہ شاید یہ کوئی بزرگ خاتون ہیں اس لئے ان کی طرف دست درازی کی وجہ سے مجھے یہ سزا ملی ہے، لہٰذا اس نے ان سے کہاکہ میں وعدہ کرتاہوں کہ دوبارہ ایسی حرکت نہیں کروں گا، آپ میرے لئے دعاء کیجئے تاکہ میرا ہاتھ ٹھیک ہوجائے، حضرت سارہ نے اس کیلئے دعاء کی جس کے نتیجے میں اس کا ہاتھ ٹھیک ہوگیا، مگر فوراً ہی اس نے پھر وہی حرکت کی اور پھر اس کا ہاتھ مفلوج اور شل ہوگیا، اور اب دوبارہ اس نے منت سماجت اور خوشامد شروع کی کہ میرے لئے دعاء کیجئے اوریہ کہ اب میں ایسی حرکت ہرگز نہیں کروں گا، حضرت سارہ نے دوبارہ دعاء کی، جس پر اس کا ہاتھ درست ہوگیا، مگراب پھر اس نے وہی حرکت کی اور پھر وہی ہوا… یوں تین بار یہی صورتِ حال پیش آئی، تب اسے یقین ہوگیاکہ یہ تو واقعی کوئی بہت ہی عظیم ترین اور پہنچی ہوئی خاتون ہیں… اور اس نے سچی توبہ کی اور خوب منت سماجت کی، تب حضرت سارہ کی دعاء کے نتیجے میں اس کاہاتھ درست ہوا تو اس نے نہ صرف یہ کہ حضرت سارہ کو آزاد کردیا اور جانے کی اجازت دی بلکہ ایک کنیز بھی بطورِ ہدیہ پیش کی اور خدمت کی غرض سے اسے بھی ان کے ہمراہ روانہ کیا، اس کنیز کا نام تھا ’’ہاجرہ‘‘(۱)
چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس وقت تک بے اولادتھے اور کافی عمر رسیدہ بھی ہوچکے تھے، جس کا حضرت سارہ کو بہت قلق اور رنج تھا اس لئے حضرت سارہ نے اپنے شوہرِ نامدار حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ اصرار کیا کہ مجھ سے تو آپ کو اولاد کی خوشی مل نہیں سکی… لہٰذا میری خواہش یہ ہے کہ میں یہ کنیز آپ کو ہبہ کردوں، یوں شاید اللہ ہمیں اولاد کی نعمت عطاء فرمادے اور ہماری زندگی میں بھی خوشی کا جھونکا آسکے…!
چنانچہ حضرت سارہ نے خود اصرار کرکے وہ کنیزحضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہبہ کردی ٗ جس کے نتیجے میں اللہ نے انہیں بیٹا اسماعیل (علیہ السلام) عطاء کیا، یوں ہاجرہ ’’اُم اسماعیل‘‘ بن گئیں۔ اللہ کی قدرت ملاحظہ ہوکہ اس کے بعدحضرت سارہ سے بھی بیٹے یعنی اسحاق(علیہ السلام)کی ولادت ہوئی۔
لیکن اس سے قبل جب حضرت سارہ بے اولاد تھیں جبکہ حضرت ہاجرہ کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوچکی تھی… یہ ایسی صورتِ حال تھی کہ جس کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام خود اپنے گھرمیں ہی بڑی آزمائش کاشکار ہو کررہ گئے اور صورتِ حال اس قدر بگڑی کہ بالآخر حضرت سارہ نے اب یہ اصرار کیا کہ ہاجرہ اور اسماعیل کو ان سے دور کر دیا جائے۔ جس پرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان دونوں کو حضرت سارہ سے الگ کہیں دور بسانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ وہ ان دونوں کولئے ہوئے اُس وقت اپنی جائے اقامت یعنی فلسطین سے روانہ ہوئے اورپہاڑوں ٗ بیابانوں اورچٹیل، میدانوں میں مسلسل سفر کرتے ہوئے آخر ایک ویران و سنسان مقام پر پہنچ کر رُک گئے، حضرت ہاجرہ اپنے شیر خوار بیٹے اسماعیل کو گود میں لئے ہوئے زمین پر بیٹھ گئیں۔ جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ابھی بیٹھے بھی نہیں تھے کہ کھڑے کھڑے اچانک مڑے اور واپس چل دئیے، حضرت ہاجرہ نے پوچھا کہ کہاں چل دئیے آپ…؟ مگر شوہر کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا، دوبارہ پوچھاکہ ہمیں یہاں اس ویرانے میں چھوڑ کر آپ کہاں چلے جارہے ہیں…؟ مگر اس بار بھی کوئی جواب نہیں آیا، آخر تیسری بار پوچھا: کیا آپ کو اللہ نے یہ حکم دیاہے؟ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام رک گئے ٗ پلٹ کرپیچھے دیکھا اور فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ اس پرحضرت ہاجرہ نے کہا: ’’تب اللہ ہمیں برباد نہیں ہونے دے گا۔‘‘
اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام ان دونوں کو چھوڑ کر وہاں سے روانہ ہوگئے، کچھ دورچلنے کے بعد جب ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئے تو ایک جگہ رُک کرپہاڑی کی اوٹ سے اس مقام کی طرف دیکھتے ہوئے کہ جس کے بارے میں انہیں من جانب اللہ یہ خبر دے دی گئی تھی کہ ’’آخرکار یہاں اللہ کا گھر تعمیر ہوگا، جو کہ تمام دنیائے انسانیت کیلئے توحید کا مرکز اور رُشد و ہدایت کا منبع قرار پائے گا…‘‘ خوب گڑگڑا کر اللہ سے دعاء ومناجات میں مشغول ہوگئے۔ (پوری دعاء سورہ ابراہیم میں ملاحظہ ہو،آیات:۳۵۔۴۱)
اس دعاء میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے اپنی اولاد کیلئے دین و دنیاکی صلاح و فلاح اور خیر و خوبی کاسوال کیا، مثلاً: امن وامان ٗسکون واطمینان ٗ شرک اور بت پرستی سے حفاظت ٗ نماز کی پابندی کی توفیق ٗ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل و متوجہ کردینا ٗ ان کیلئے رزق کاانتظام ٗاورپھراس رزق پراللہ کاشکراداکرنے کی توفیق…!
چنانچہ اس جامع دعاء میں اللہ سے اپنی اولادکیلئے بیک وقت دین و دنیا دونوں کی خیر و خوبی مانگی۔ اس سے معلوم ہواکہ اپنی اولاد کیلئے دینی صلاح و فلاح کی دعاء کے ساتھ ساتھ ان کی معاشی بہتری اود نیاوی خیر و خوبی کیلئے دعاء اور محنت و کوشش توکل علیٰ اللہ یاتعلق مع اللہ کے منافی نہیں ہے، بلکہ یہ تو اُسوۂ انبیاء ہے اوریہی پیغمبرانہ استقامت وحسنِ انتظام کی مثال ہے کہ ایک پہلو کی رعایت کے وقت دوسرا پہلو کبھی نظرانداز نہیں ہوتا۔
چنانچہ اس موقع پرحضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم کی تعمیل میں اگرچہ اپنے اہل و عیال کو اس ویران وسنسان مقام پر چھوڑ کر وہاں سے روانہ ہوگئے اوریوں حضرت ہاجرہ اور شیرخوار بیٹا اسماعیل ان کی نظروں سے اوجھل تو ضرور ہوگئے… لیکن وہ ان کی رعایت و نگہبانی اور ان کیلئے فکرمندی کے فریضے سے غافل ہرگز نہیں ہوئے، اور خوب گڑگڑا کر اپنے اللہ سے ان کیلئے یوں دعاء وفریادکی:
{رَبّنا اِنِّي أسْکَنتُ مِن ذُرِّیَّتِي بِوَادٍ غَیرِذي زَرعٍ عِندَ بَیتِکَ المُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیمُوا الصَّلَاۃَ فَاجْعَل أفْئِدَۃً مِنَ النَّاسِ تَھْوِي اِلَیھِمْ وَارزُقْھُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّھُم یَشکُرُونَ} ابراہیم[۳۷]
ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھرکے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھیں، پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے، اور انہیں پھلوں کا رزق عطاء فرما، تاکہ یہ شکرگذاری کریں)۔
اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام وہاں سے روانہ ہوگئے اور یوں اپنے اس عمل سے ہمیشہ کیلئے دنیائے انسانیت کویہ پیغام دے گئے کہ جہاں اللہ کے ہر حکم کے سامنے ہرتعلق بے معنیٰ اور ہر رشتہ ہیچ ہے… وہیں انسان کیلئے یہ بات بھی ضروری ہے کہ شفقتِ پدری کے تقاضے کے مطابق اپنی اولاد کی سلامتی اور دنیوی و اخروی صلاح و فلاح کیلئے ہمیشہ خوب گڑ گڑا کر اور دل لگا کر اللہ سے دعاء و فریاد کیا کرے۔
[جاری ہے]