Home بلاگ نوجوانان ملت اور مرض کی درست تشخیص

نوجوانان ملت اور مرض کی درست تشخیص

پوری دنیا میں بالخصوص وطن عزیز پاکستان میں اس وقت جس مسئلے کو عالمی سطح پہ اجاگر کیا جا رہا ہے وہ غربت ہے۔ اسی مسئلے کو بنیاد بنا کر پوری امت کو اس بات کی دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کمائی کے ذرائع اختیار کرے اور وافر مقدار میں مال و اسباب جمع کرے تاکہ وہ ایک خوشحال اور پر سکون زندگی گزار سکے۔ مادہ پرستی کی محنت اس قدر ہو چکی ہے کہ اب لوگ اسی کو کامیاب اور خوش قسمت سمجھتے ہیں جس کی اچانک لاٹری نکل آئی اور وہ لاکھوں کا مالک بن گیا، یا بیٹھے بیٹھے اس نے آن لائن لاکھوں روپے کما لئے۔ اس وقت بھی نوجوانوں کی اکثریتی تعداد مختلف آن لائن بزنس کر رہی ہے لیکن ان میں اس چیز کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ یہ بزنس حلال ہے یا حرام ہے؟ حلال و حرام کی تفریق کے بغیر پیسے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔

اس تناظر میں ماحول بھی یہ بنایا جا رہا ہے کہ اب آن لائن کا دور ہے بس آن لائن ہی ہر کام کرنا چاہیے لیکن شاید ہم اس حقیقت کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں کہ اگر ہم نے اپنی آمدن کا مدار صرف آن لائن ہی رکھا تو اگر کسی وقت آن لائن سسٹم روک دیا جائے تو ہمارے پاس متبادل ذریعہ معاش کیا ہوگا؟
بندہ کی رائے میں غربت کوئی بڑا مسئلہ نہیں بلکہ یہ خود اصل مسائل سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ اگر غربت کو ہی سب بڑا مسئلہ مان بھی لیا جائے تو سوال ہوگا کہ کیا غربت ختم ہوتے ہی تمام مسائل حل ہو جائیں گے؟ اگر زمینی حقائق کو سامنے رکھا جائے تو اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ اس وقت جن ممالک کو دنیا کا ترقی یافتہ ممالک سمجھا جاتا ہے اور ان کی خوشحالی و ترقی کی مثالیں دی جاتی ہیں، آج انہی ممالک میں نفسیاتی امراض و مسائل اور خود کشی کے واقعات خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔

آج معلومات کے تمام تر وسائل مہیا ہونے کے باوجود ہم حقیقت سے آنکھیں بند کئے ہوئے کیوں ہیں؟ شاید میڈیا کی طرف سے دی جانے والی چیزوں کو ہم اپنے اوپر اس قدر حاوی کر چکے ہیں کہ سوچ و فکر کے تمام راستے مسدود کر کے بھیڑ چال چلنے کے عادی ہو چکے ہیں اور ہم بھی اسی پیسے کی دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں۔ آج ہم اصل امراض کی طرف توجہ دینے کی بجائے اس نتیجہ پر اپنی تمام صلاحیتیں استعمال کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

ستم ظریفی یہ کہ جن مقتدا اور پیشواؤں نے اس کی اصلاح کرنی تھی وہ خود بھی اس رو میں بہہ گئے۔ اس وقت ایک بہت بڑا طبقہ ان پیشواؤں اور علماء کو فکر معاش کی دعوت دیتا ہے اور پیسہ کمانے کے نت نئے طریقے سکھاتا ہے، فکر معاش سے اختلاف نہیں ہے بلکہ اصل ترجیحات کا اختلاف ہے۔ اگر دین کو اول ترجیح بنا کر جزوی اور ثانوی طور پر فکر معاش ہو تو وہ مذموم بھی نہیں ہے لیکن عموما اس کو ترجیح بنا لیا جاتا ہے اور دینی امور ثانوی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔

اب اصل امراض کی طرف کچھ نشاندہی کئے دیتا ہوں۔اس وقت امت مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ اعتقادی تشکیک ہے۔ آج کا نوجوان معلومات کے ہر طرح کے ذرائع موجود ہونے اور ان کے استعمال کی وجہ سے ذہنی طور پر متعدد نوعیت کی اعتقادی الجھنوں کا شکار ہو چکا ہے، جو در حقیقت امت مسلمہ کے ایمان پر حملہ ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ دینی علم کا فقدان ہے، تیسرا اہم مسئلہ عملی کمزوری ہے۔ چوتھا اہم مسئلہ اخلاقی بحران ہے۔ پانچواں اہم مسئلہ ذاتی و اجتماعی، خانگی و معاشرتی فرائض سے یکسر ناواقفیت و غفلت اور ادائیگی میں کوتاہی ہے، چھٹا اہم مسئلہ اغیار کی تہذیب و ثقافت سے مرعوبیت اور متاثر ہونا ہے، ساتواں اہم مسئلہ حلال و حرام کی تمیز نہ ہونا ہے، آٹھواں اہم مسئلہ نفسانی خواہشات کی تکمیل کو ہی مقصد سمجھ لینا ۔ انہی مسائل سے غفلت و کوتاہی کی وجہ سے غربت سمیت کئی دیگر مسائل جنم لے چکے ہیں جو در حقیقت ان مسائل کا نتیجہ ہیں۔

ان تمام مسائل پر تفصیلا گفتگو کی جا سکتی ہے لیکن فی الوقت اس کا موقع نہیں، صرف توجہ دلانے کے لیے اصل مرض کی نشاندہی کرنا مقصود ہے۔ ان مسائل پر کسی درسگاہ میں بات نہیں کی جاتی، چاہے وہ درسگاہ والدین کی ہو، اساتذہ کی ہو یا منبر و محراب ہو۔ ان مسائل کا دن بدن بگاڑ کی طرف جانے کی بھی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ معاشرے کے ان تینوں طبقات والدین، اساتذہ، اور علماء کرام کو شاید ان مسائل کا ادراک نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کی حساسیت سمجھ پا رہے ہیں، یا پھر اگر کہیں ادراک و حساسیت ہے بھی تو اس کی تشخیص کے لئے درکار علمی رسوخ اور بلند ہمت سے عاری ہیں۔

اس صورتحال میں تینوں طبقات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ سب سے پہلے وہ ان مسائل کی نوعیت کو سمجھیں اور ٹھوس علمی دلائل سے خود کو آراستہ کریں، بعد ازاں ان مسائل پر بچوں سے گفتگو کریں، ان کو ان مسائل کی حساسیت سے آگاہ کریں اور دلائل کے ساتھ مطمئن کرنے کی کوشش کریں۔ ایک شعر پیش خدمت کر کے اجازت چاہوں گا

نہیں ہے نا امید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

Exit mobile version