اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریائوں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
دکن میں اردو:
نصیر الدین ہاشمی اردو زبان کا سراغ دکن میں لگاتے ہیں۔ ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ طلوع اسلام سے بہت پہلے عرب ہندوستان میں مالابار کے ساحلوں پر بغرض تجارت آتے تھے۔ تجارت کے ضمن میں ان کے تعلقات مقامی لوگوں سے یقیناً ہوتے تھے روزمرہ کی گفتگو اور لین دین کے معاملات میں یقیناً انہیں زبان کا مسئلہ درپیش آتا ہوگا۔ اسی میل میلاپ اور اختلاط و ارتباط کی بنیاد پر نصیر الدین ہاشمی نے یہ نظریہ ترتیب دیا کہ اس قدیم زمانے میں جو زبان عربوں اور دکن کے مقامی لوگوں کے مابین مشترک وسیلۂ اظہار قرار پائی وہ اردو کی ابتدائی صورت ہے۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں یہ نظریہ قابلِ قبول نہیں۔ ڈاکٹر غلام حسین اس نظریے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں :
عربی ایک سامی النسل زبان ہے جب کہ اردو کا تعلق آریائی خاندان سے ہے۔ اس لیے دکن میں اردو کی ابتداء کا سوال خارج از بحث ہو جاتا ہے۔ دکن میں اردو شمالی ہند سے خلجی اور تغلق عساکر کے ساتھ آئی اور یہاں کے مسلمان سلاطین کی سرپرستی میں اس میں شعر و ادب تخلیق ہوا۔ بہر کیف اس کا تعلق اردو کے ارتقاء سے ہے۔ ابتداء سے نہیں۔
اسی طرح دیکھا جائے تو جنوبی ہند (دکن) کے مقامی لوگوں کے ساتھ عربوں کے تعلقات بالکل ابتدائی اور تجارتی نوعیت کے تھے۔ عرب تاجروں نے کبھی یہاں مستقل طور پر قیام نہیں کیا یہ لوگ بغرض تجارت آتے، یہاں سے کچھ سامان خریدتے اور واپس چلے جاتے۔ طلوعِ اسلام کے ساتھ یہ عرب تاجر، مالِ تجارت کی فروخت اور اشیائے ضرورت کے تبادلے کے ساتھ ساتھ تبلیغ اسلام بھی کرنے لگے۔ اس سے تعلقات کی گہرائی تو یقیناً پیدا ہوئی مگر تعلقات استواری اور مضبوطی کے اس مقام تک نہ پہنچ سکے جہاں ایک دوسرے کا وجود ناگزیر ہو کر یگانگت کے مضبوط رشتوں کا باعث بنتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ نزدیکی اور قرب پیدا نہ ہو سکا جہاں زبان میں اجنبیت کم ہو کر ایک دوسرے میں مدغم ہو جانے کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ عربوں کے یہ تجارتی و مقامی تعلقات لسانی سطح پر کسی بڑے انقلاب کی بنیاد نہ بن سکے، البتہ فکری سطح پر ان کے اثرات کے نتائج سے انکار نہیں۔
سندھ میں اردو:
یہ نظریہ سید سلیمان ندوی کا ہے جس کے تحت ان کا خیال ہے کہ مسلمان فاتحین جب سندھ پر حملہ آور ہوئے اور یہاں کچھ عرصے تک ان کی باقاعدہ حکومت بھی رہی اس دور میں مقامی لوگوں سے اختلاط و ارتباط کے نتیجے میں جوزبان وجود پزیر ہوئی وہ اردو کی ابتدائی شکل تھی۔ ان کے خیال میں :
”مسلمان سب سے پہلے سند ھ میں پہنچے ہیں اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں۔ اس کا ہیولیٰ اسی وادی سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔ “
اس میں شک نہیں کہ سندھ میں مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت اور تمدن و کلچر کا اثر مستقل اثرات کا حامل ہے۔ مقامی لوگوں کی زبان، لباس اور رہن سہن میں دیرپا اور واضح تغیرات سامنے آئے ہیں بلکہ عربی زبان و تہذیب کے اثرات سندھ میں آج تک دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ آج سندھی زبان میں عربی کے الفاظ کی تعداد پاکستان و ہند کی دوسری تمام زبانوں کی نسبت زیادہ ہے اس کا رسم الخط بھی عربی سے بلاو اسطہ طور پر متاثر ہے۔ عربی اثرات کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بعض مورخین کے نزدیک دوسری زبانوں میں جہاں دیسی زبانوں کے الفاظ مستعمل ہیں وہاں سندھی میں عربی الفاظ آتے ہیں مثال کے طو ر پر سندھی میں پہاڑ کو ”جبل“ اور پیاز کو ”بصل“ کہنا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ اثرات زبان میں الفاظ کے دخول سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اس لیے کوئی مشترک زبان پیدا نہ ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ سید سلیمان ندوی اپنے اس دعوے ٰ کا کوئی معقول ثبوت نہیں دے سکے۔ بقول ڈاکٹر غلام حسین:
”اس بارے میں قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ابتدائی فاتحین عرب تھے جن کے خاندان یہاں آباد ہو گئے۔ نویں صدی میں جب ایران میں صفاریوں کا اقتدار ہوا تو ایرانی اثرات سندھ اور ملتان پر ہوئے۔ اس عرصہ میں کچھ عربی اور فارسی الفاظ کا انجذاب مقامی زبان میں ضرور ہوا ہوگا اس سے کسی نئی زبان کی ابتدا کا قیاس شاید درست نہ ہوگا۔ “
اس دور کے بعض سیاحوں نے یہاں عربی، فارسی اور سندھی کے رواج کا ذکر ضرور کیا ہے مگر ان بیانات سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ یہاں کسی نئی مخلوط زبان کا وجود بھی تھا۔ البتہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سندھی اور ملتا نی میں عربی اور فارسی کی آمیزش ہوئی ہو گئی۔ اس آمیز ش کا ہیولیٰ قیاس کرنا کہاں تک مناسب ہے۔ خاطر خواہ مواد کی عدم موجودگی میں اس کا فیصلہ کرنا دشوار ہے۔
پنجاب میں اردو:
حافظ محمود شیرانی نے اپنے گہرے لسانی مطالعے اور ٹھوس تحقیقی بنیادوں پر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ اردو کی ابتدا پنجاب میں ہوئی۔ ان کے خیال کے مطابق اردو کی ابتدا اس زمانے میں ہوئی جب سلطان محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری ہندوستان پر باربار حملے کر رہے تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں فارسی بولنے والے مسلمانوں کی مستقل حکومت پنجاب میں قائم ہوئی اور دہلی کی حکومت کے قیام سے تقریباً دو سو سال تک یہ فاتحین یہاں قیام پزیر رہے۔ اس طویل عرصے میں زبان کا بنیادی ڈھانچہ صورت پزیر ہوا اس نظریے کی صداقت کے ثبوت میں شیرانی صاحب نے اس علاقے کے بہت سے شعرا کا کلام پیش کیا ہے۔ جس میں پنجابی،فارسی اور مقامی بولیوں کے اثرات سے ایک نئی زبان کی ابتدائی صورت نظرآتی ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اس سلسلہ میں لکھتے ہیں :
”سلطان محمود غزنوی کی فتوحا ت کے ساتھ ساتھ برصغیر کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ فتوحات کا یہ سلسلہ 1000ء سے 1026ء تک جاری رہا اور پنجاب و سندھ کے علاوہ قنوج، گجرات (سومنات) متھرا اور کالنجر تک فاتحین کے قدم پہنچے لیکن محمود غزنوی نے ان سب مفتوحہ علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہ کیا البتہ 1025ء میں لاہور میں اپنا نائب مقرر کرکے پنجاب کو اپنی قلم رو میں شامل کر لیا۔ نئے فاتحین میں ترک اور افغان شامل تھے۔ غزنوی عہد میں مسلمان کثیر تعداد میں پنجاب میں آباد ہوئے، علما اور صوفیا نے یہاں آکر رشد و ہدایت کے مراکز قائم کیے اور تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں مقامی باشندے گروہ درگروہ اسلام قبول کرنے لگے اس سماجی انقلاب کا اثر یہاں کی زبان پر پڑا۔ کیونکہ فاتحین نے پنجاب میں آباد ہو کر یہاں کی زبان کو بول چال کے لیے اختیار کیا۔ اس طرح غزنوی دور میں مسلمانوں کی اپنی زبان، عربی، فارسی اور ترکی کے ساتھ ایک ہندوی زبان کے خط و خال نمایا ں ہوئے۔ “
مسلمان تقریباً پونے دو سو سال تک پنجاب، جس میں موجودہ سرحدی صوبہ اور سندھ شامل تھے حکمران رہے۔ 1193ء میں قطب الدین ایبک کے لشکروں کے ساتھ مسلمانوں نے دہلی کی طرف پیش قدمی کی اور چند سالوں کے بعد ہی سارے شمالی ہندوستان پر مسلمان قابض ہو گئے۔ اب لاہور کی بجائے دہلی کو دار الخلافہ کی حیثیت حاصل ہو گئی تو لازماً مسلمانوں کے ساتھ یہ زبان جو اس وقت تک بول چال کی زبان کا درجہ حاصل کر چکی تھی، ان کے ساتھ ہی دہلی کی طر ف سفر کر گئی۔
تاریخی اور سیاسی واقعات و شواہد کے علاوہ پرفیسر محمود خان شیرانی، اردو اور پنجابی کی لسانی شہادتوں اور مماثلتوں سے دونوں زبانوں کے قریبی روابط و تعلق کو واضح کرکے اپنے اس نظرے کی صداقت پر زور دیتے ہیں کہ اردو کا آغاز پنجاب میں ہوا۔ فرماتے ہیں : ”اردو اپنی صرف و نحو میں پنجابی و ملتانی کے بہت قریب ہے۔ دونوں میں اسماء و افعال کے خاتمے میں الف آتا ہے اور دونوں میں جمع کا طریقہ مشترک ہے یہاں تک کہ دونوں میں جمع کے جملوں میں نہ صرف جملوں کے اہم اجزاء بلکہ ان کے توابعات و ملحقات پر بھی ایک باقاعدہ جاری ہے۔ دنوں زبانیں تذکیر و تانیث کے قواعد، افعال مرکبہ و توبع میں متحد ہیں پنجابی اور اردو میں ساٹھ فی صدی سے زیادہ الفاظ مشترک ہیں۔ “
مختصراً پروفیسر شیرانی کی مہیا کردہ مشابہتوں اور مماثلتوں پر نظر ڈالیں تو دونوں زبانوں کے لسانی رشتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اردو اپنی ساخت اور صرفی و نحوی خصوصیات کی بنا پر پنجابی زبان سے بہت زیادہ قریب ہے اور اس سے بھی پروفیسر موصوف کے استدلال کو مزید تقویت پہنچتی ہے۔
الغرض اگر ہم پروفیسر شیرانی کی تحقیق پر تنقیدی نظر ڈالیں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ واقعی اردو اپنی ہیئت ساخت اور صرف و نحو کی خصوصیات کی بنا پر پنجابی سے قریب تر ہے۔ مثلاً
1۔ اردو اور پنجابی میں تذکیر و تانیث کے قواعد یکساں ہیں۔ مثلاً اکثر الفاظ جو الف پر ختم ہوں اگر ان کی تانیث کرنی مقصود ہو تو ’’الف ‘‘کو ’’ ی‘‘ میں بدل دیا جاتا ہے۔ مثلاً بکرا، بکری۔ گھوڑا، گھوڑی۔ کالا، کالی وغیرہ
2۔ مصدر کا قاعدہ بھی دونوں زبانوں میں یکساں ہے۔ یعنی فعل امر کے آخر میں ’’نا‘‘ کے اضافے سے مصدر بنایا جاتاہے۔
3۔ فعل تذکیر و تانیث دونوں میں اپنے فاعل کی حالت کے مطابق آتا ہے۔ مثلاً گھوڑی آئی (اردو) کوڑی آئی (پنجابی) لڑکا آیا (اردو) منڈا آیا( پنجابی)
4۔ فعل لازم سے فعل متعدی بنانے کے قاعدے بھی دونوں زبانوں میں یکساں ہیں جیسے سیکھنا سے سکھانا (اردو)، سکھنا سے سکھانا (پنجابی) بیٹھنا سے بٹھانا (اردو) اور بہنا سے بہانا (پنجابی) اس کے علاوہ ماضی مطلق، ماضی احتمالی شکیّہ، مضارع، مستقبل کے اصول، مضارع، امر کے قاعدے، معروف و مجہول، دعائیہ، ندائیہ کے اصول و ضوابط دونوں زبانوں میں یکساں ہیں۔
یاد رہے کہ ’’پنجاب میں اردو‘‘ کی اشاعت سے قبل مولانا محمد حسین آزاد کے پیش کردہ نظریے کو ہی قبولیت عام حاصل تھی مگر حافظ صاحب کی کتاب نے تحقیق کے تمام تر دروازے پنجاب کی سرزمین کی طرف وا کر دیے۔ خود حضرت علامہ محمد اقبال کو جب نصیر الدین ہاشمی نے اپنی تصنیف ’’دکن میں اردو‘‘ پیش کی تو انہوں نے کہا: ’’ غالباً پنجاب میں بھی کچھ پرانا مسالا موجود ہے۔ اگر اس کے جمع کرنے میں کسی کو کامیابی ہو گی تو مورخ اردو کے لیے نئے سوالات پیدا ہوں گے ‘‘۔
پروفیسر سینٹی کمار چیٹر جی نے بھی پنجاب میں مسلمان فاتحین کے معاشرتی اور نسلی اختلاط کا ذکر کیا ہے اور ڈاکٹر زور کے نقطہ نظر کی تائید کی ہے۔ ان کے خیال میں قدرتی طور پر مسلمانوں نے جو زبان ابتداً اختیار کی وہ وہی ہوگی جو اس وقت پنجاب میں بولی جاتی تھی وہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں پنجابی زبان خاص طور پر مشرقی پنجاب اور یو پی کے مغربی اضلاع کی بولیوں میں کچھ زیادہ اختلاف نہیں اور یہ فرق آٹھ، نوسو سال پہلے تو اور بھی زیادہ کم ہوگا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وسطی و مشرقی پنجاب اور مغربی یوپی میں اس وقت قریباً ملتی جلتی بولی رائج ہو۔ مزید براں پروفیسر موصوف حافظ محمود شیرانی کی اس رائے سے بھی متفق دکھائی دیتے ہیں کہ پنجاب کے لسانی اثرات کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔
حافظ محمود شیرانی کی تالیف ”پنجاب میں اردو“ کی اشاعت کے ساتھ ہی مولانا محمد حسین آزاد کے نظریے کی تردید ہو گئی جس میں وہ زبان کی ابتدا کے بارے میں اردو کا رشتہ برج بھاشا سے جوڑتے ہیں۔ پنجاب میں اردو کا نظریہ خاصہ مقبول رہا مگر پنڈت برج موہن و تاتریہ کیفی کی تالیف ”کیفیہ“ کے منظر عام پر آنے سے یہ نظریہ ذرا مشکوک سا ہو گیا۔ مگر خود پنڈت موصوف اردو کی ابتدا کے بارے میں کوئی قطعی اور حتمی نظریہ نہ دے سکے۔ یوں حافظ محمودشیرانی کے نظریے کی اہمیت زیادہ کم نہ ہوئی۔
دہلی میں اردو:
اس نظریے کے حامل محققین اگرچہ لسانیات کے اصولوں سے باخبر ہیں مگر اردو کی پیدائش کے بارے میں پنجاب کو نظر انداز کرکے دہلی اور اس کے نواح کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔ لیکن دہلی اور اس کے نواح کی مرکزیت اردو زبان کی نشو و نما اور ارتقا میں تو مانی جا سکتی ہے ابتدا اور آغاز میں نہیں۔ البتہ ان علاقوں کو اردو کے ارتقا میں یقینا نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ دہلی اور اس کے نواح کو اردو کا مولد و مسکن قرار دینے والوں میں ڈاکٹر مسعود حسین اور ڈاکٹر شوکت سبزواری نمایاں ہیں۔ وہ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ:
”یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ارد و کی ابتدا کا مسلمانوں سے یا سرزمین ہند میں ان کے سیاسی اقتدار کے قیام اور استحکام سے کیا تعلق ہے۔ اردو میرٹھ اور دہلی کی زبان ہے اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اردو اپنے ہار سنگھار کے ساتھ دہلی اور یوپی کے مغربی اضلاع میں بولی جاتی ہے لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اس زبان کا آغاز انہی اضلاع میں ہوا یا کسی اور مقام میں جہاں سے اسے دہلی اور یوپی کے مغربی اضلاع میں لایا گیا۔ “
ان نظریات کے علاوہ میر امن، سرسید اور محمد حسین آزاد نے بھی کچھ نظریات اپنی تصانیف میں پیش کیے لیکن یہ نظریات متفقہ طور پر حقیقت سے دور ہیں اور جن کے پیش کنندگان فقدان تحقیق کا شکار ہیں۔
مجموعی جائزہ:
اردو کی ابتدا کے بارے پروفیسر محمود شیرانی کا یہ استدال بڑا وزن رکھتا ہے کہ کہ غزنوی دور میں جو ایک سو ستر سال تک حاوی ہے ایسی بین الاقوامی زبان ظہور پزیر ہو سکتی ہے۔ اردو چونکہ پنجاب میں بنی اس لیے ضروری ہے کہ وہ یا تو موجودہ پنجابی کے مماثل ہو یا اس کے قریبی رشتہ دار ہو۔ بہرحال قطب الدین ایبک کے فوجی اور دیگر متوسلین پنجاب سے کوئی ایسی زبان ہمراہ لے کر روانہ ہوئے جس میں خود مسلمان قومیں ایک دوسرے سے تکلم کر سکیں اور ساتھ ہی ہندو اقوام بھی اس کو سمجھ سکیں اور جس کو قیام پنجاب کے زمانے میں وہ بولتے رہے ہیں۔ یوں محققین کی ان آراء کے بعد یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ قدیم اردو کا آغاز جدید ہند آریائی زبانوں کے طلوع کے ساتھ 1000ء کے لگ بھک اس زمانے میں ہو گیا جب مسلم فاتحین مغربی ہند (موجودہ مغربی پاکستان) کے علاقوں میں آباد ہوئے اور یہاں اسلامی اثرات بڑی سرعت کے ساتھ پھیلنے لگے۔