تحریر : نیاز احمد کھوسہ ایڈووکیٹ
ادارے آپس میں ملکر کس طرح کام کر رہے ہیں ۔ ان کے متعلق ایک آنکھیں کھول دینے والی حقیقت، دو دن قبل ڈیفینس میں قتل ہونے والے کانسٹیبل عبدالرحمان کی کہانی
پولیس کے مطابق ملزمُ خُرم ایک لڑکی کو اغوا کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کانسٹیبل عبدالرحمان نے مُلزم کو کار سمیت تھانے لیجانے کی کوشش کی ۔ مُلزم خرم نے کانسٹیبل عبدالرحمان پر فائرنگ کر دی جس سے کانسٹیبل موقع پر ہی شہید ہو گیا، کانسٹیبل کی اگلے ماہ شادی تھی ۔
واقعہ 21.11.2022 رات کو 1150 پر ہوا، ایس ایس پی ساؤتھ اسد رضا اور ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان بلوچ صاحب نے کچھ ہی گھنٹوں میں مُلزم خرم کا گھر تلاش کر لیا جہاں سے پولیس نے واقعہ میں استمال ہونے والی کار، پسٹل، پاسپورٹ کی فوٹو کاپی اور دیگر سامان برآمد کرلیا مگر مُلزم خرم گھر پر کار اور پسٹل چھوڑ کر فرار ہوُ چکا تھا ۔
ایس ایس پی ساؤتھ اسد رضا اور ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان بلوچ صاحب نے اُسی وقت کراچی ایئر پورٹ پر FIA حکام کو مُلزم کے پاسپورٹ کے کوائف سمیت خط لکھ کر رات 0430 پر ایس ایچ او ایئر پورٹ موسی کلیم نے ایف آئی اے حکام کو اطلاع کر دی، مُلزم پہلے ہی 4 بج کر 11 منٹ پر ایئرپورٹ کے اندر داخل ہو چُکا تھا۔
یہاں سے نااہلی کا باب شروع ہوتا ہے ۔
جیسا کہ کہ مُلزم پاکستانی پاسپورٹ پر 5th نومبر کو سُیڈن سے کراچی آیا تھا، FIA حکام نے پاکستانی پاسپورٹ نمبر سسٹم میں چیک کیا سسٹم صرف مُلزم کا 5th نومبر پر کراچی آنا بتا رہا تھا جبکہ مُلزم سوئڈن کے پاسپورٹ سے چیک ان کر چُکا تھا، پولیس بار بار FIA حکام سے رابطہ کر رہی تھی کہ مُلزم کو چیک کریں، فلائیٹ TK 708 کو 6 بجے نکلنا تھا مگر کچھ ٹیکنیکل وجوہات کی بنا پر فلائیٹ 0730 پر روانہ ہوئی اور مُلزم اُسی جہاز میں سوار تھا اور FIA کو علم ہی نہیں تھا ۔
ہوا یہ کہ مُلزم نے پاکستان سے نکلنے کیلئے سوئڈن کا پاسپورٹ استعمال کیا اور FIA کی نااہلی دیکھی جائے کہ جب مُلزم کراچی ایئرپورٹ پر اُترا تو اُس کی آنے کی انٹری پاکستانی پاسپورٹ میں کی گئی، جاتے وقت FIA کی ڈیوٹی میں شامل ہے کہ مُلزم سے یہ تو پوچھتے کہ سوئڈن سے پاکستان آنے کی انٹری سوئڈن پاسپورٹ پر نہیں ہے، کیا تم غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوئے ہو ؟ FIA حکام نے Entry کی اسٹیمپ یا سسٹم پر چیک نہیں کیا اور نہ یہ چیک کیا کہ مُلزم کے دو پاسپورٹ تو نہیں ہیں ؟؟؟؟
پولیس حکام کو رات گئے کیس کی تفتیش خاتون ایس زاہدہ پروین سے لے کر ایس پی گارڈن ہیڈ کواٹر علی مردان کھوسہ ( جن کے پاس ایس پی انویسٹیگیشن ( 2 ) کا Dual چارج ہے ) کو دینی پڑی ۔ ایس پی انویسٹیگیشن ( 1 ) محترمہ زاہدہ پروین اتنی شفارشی ہیں کہ وہ اپنے ڈی آئی جی یا ایس ایس پی کا فون اٹھانا پسند نہیں کرتیں، ابھی 6 ماہ پہلے اُن کو بچہ پیدا ہوا ہے ۔ وہ اپنے چار بچوں کو سنبھالے یا 13 تھانوں کی تفتیش، مُلزمان کی گرفتاری وغیرہ کو دیکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟؟؟؟ !!!!!!
ورنہ SOP یہ ہے کہ ہر واقعہ پر ایس پی انویسٹیگشن نے اطلاع ملتے ہی اپنی ٹیم کے ساتھ موقعہ پر پہنچنا ہے اور تفتیش اور ُملزم کی گرفتاری کے لیئے اقدامات کرنے ہیں، لیکن انویسٹگیشن کا سارا کام ڈی آئی جی اور ایس ایس پی ساؤتھ کرتے رہے اور FIA کی نااہلی آپ سے سامنے ہے ۔
پاکستان کا سوئڈن کے ساتھ مُلزمان کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے، پاکستان کو مُلزم خُرم واپس نہیں ملنا اور یہ سمجھ لینا چاہئے کہ شہید کانسٹیبل عبدالرحمن پیدا ہی نہیں ہوا تھا ۔