کل کراچی میں عورت مارچ کی طرز پر ہونے والے مورت مارچ میں دینی طبقات کے خلاف خوب زہر اگلا گیا، گالیوں، توہین، تضحیک، دشنام طرازی کے ساتھ ساتھ سینیٹر مشتاق احمد خان اور ماریہ بی کی تصاویر میں چہروں پر کالا سپرے کیا گیا-
جبکہ ریاست ایسے شرپسند، نفرت پھیلاتے اور زہر اگلتے عناصر کے خلاف کارروائی کی بجائے ان کی حفاظت کرتی رہی-
مزید پڑھیں:احمد بخش ناریجو نے کمشنر سیسی کا چارج سنبھال لیا
پاکستان میں دینی طبقات اور دینی سوچ پر دشنام طرازی خاص طور پر مغربی نظریات کی مخالفت کے "جرم” میں ایسی تضحیک آمیز ڈی ہیومینائزیشن اب ایک معمول بن چکی ہے-
ریاست کو اب ایسے زہرخند رویوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی بجائے ہر صورت ان عناصر کا قلع قمع کرنا ہوگا-
ورنہ پچھلی تین دہائیوں سے میڈیا ٹرائل اور ریاستی جبر کے شکار دینی طبقے کا ردعمل ریاست کو کسی نئی آزمائش میں ڈال سکتا ہے-
کل ہونے والی سرگرمی میں نفرت اور انتہا پسندی پھیلانے والے سب عناصر کی جلد از جلد گرفتاری ممکن بنائی جانی چاہیے تاکہ ریاست کا عالمی اسٹیبلشمنٹ سے بلیک میل ہو کر کسی مخصوص طبقے کی حمایت کرنے کے تصور کو ختم کیا جا سکے-