منگل, ستمبر 26, 2023
منگل, ستمبر 26, 2023
- Advertisment -

رپورٹر کی مزید خبریں

بلاگایڈووکیٹ نیاز احمد کھوسہ کی دلوں کو تسکین دینے والی کہانی

ایڈووکیٹ نیاز احمد کھوسہ کی دلوں کو تسکین دینے والی کہانی

تحریر: ایڈووکیٹ نیاز احمد کھوسہ

پچھلے دنوں سانحہ گھوٹکی کے بعد پہلی بار ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی صاحب سے اُن کی دفتر ملنے گیا ورنہ میں ذاتی طور پر افسروں کے پاس آنے جانے کو اچھا نہیں سمجھتا۔

جانے سے پہلے جسکانی صاحب کے آپریٹر کو فون کرکے ڈی آئی جی صاحب سے ملنے کیلئے ٹائم لینے کا معلوم کیا، آپریٹر نے بتایا کہ صاحب آنے والے ہیں، ٹائم لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، صاحب نے پوسٹنگ کے پہلے ہی دن بتادیا تھا کہ ہر ملنے والے کو بُلالیا کریں، میں نے دوبارہ پوچھا کہ ایسا نہ ہو کہ میں آؤں اور صاحب میٹنگ میں مصروف ہوجائیں، آپریٹر نے جواب دیا کہ جب میٹنگ ہوتی ہے تو صاحب پہلے سے بتا دیتے ہیں اور ہم ملنے والوں کو منع کردیتے ہیں۔

میں جسکانی صاحب کے دفتر چلا گیا، جسکانی صاحب سے نوکری کے دوران مُختصر مُلاقاتیں تھیں لیکن مجھے اب پتہ چلا کہ وہ ایک حیرت انگیز شخصیت کے مالک ہیں جسکانی صاحب 10 سے زیادہ کتابوں کے مصنف بھی ہیں اُن کے 100 سے زیادہ آرٹیکل اخبارات میں چھپ چُکے ہیں اُن کو 40/50 لاکھ روپیہ سالانہ کتابوں کی رائلٹی کی مد میں ملتا ہے ۔

مزید پڑھیں:سندھ: JUI کے صوبائی نائب امیر حضرت مولانا عبدالکریم عابد کی مفتی محمد رفیع عثمانی کے انتقال پر اظہار تعزیت

لوگ اپنی اصلیت چُھپاتے ہیں، میرے ایک دوست جو بچپن میں ہماری طرح غریب تھے اب وہ بُہت بڑے آدمی ہیں وہ اپنے پُرانے تعلق داروں سے صرف اس لئے ملنے جلنے سے پرہیز کرتے ہیں کہ کہیں وہ باتوں باتوں میں پُرانے وقت کی باتیں میرے سامنے لوگوں کو نہ بتادیں ۔

بُرا اور غربت والا وقت کسی کو خود بتانا بڑا پن ہے اور کسی کو یاد دلانا چھوٹا پن اور حسد ہے

جسکانی صاحب نے بتایا کہ وہ پاک فوج کے ایک ریٹائرڈ سپاہی کے بیٹے ہیں، مجھے کوئی نوکری نہیں مل رہی تھی، میں ایک دن اُس وقت کے ڈی آئی جی حیدرآباد نیاز صدیقی صاحب کے پاس سپاہی بھرتی ہونے کیلئے درخواست لے کر گیا، نیاز صدیقی صاحب نے کہا کہ بیٹا جب اخبار میں ایڈورٹائیز منٹ ہوتو آپ درخواست دینا ورنہ اُن دنوں بغیر ایڈورٹائیزمنٹ کے بھی سپاہی بھرتی ہوتے تھے

مزید پڑھیں:وفاقی اردو یونیورسٹی اکیڈمک کونسل اجلاس میں ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام کیلئے کمیٹی تشکیل

(جسکانی صاحب نے بتایا کہ ) میں بہت دل گرفتہ اور دُکھ کے ساتھ ڈی آئی جی دفتر سے باہر نکلا اور باہر نکل کر آسمان کی طرف دیکھ کر کہا کہ یا اللہ مجھے ایک دن اسی دفتر میں ڈی آئی جی لگا مجھے معلوم نہیں تھا وہ قبولیت کی گھڑی تھی اور شُکر گذاری کی لہجہ میں کہا کہ “ میں آج سپاہی کی بجائے ڈی آئی جی ہوں”

سپاہی کی نوکری نہ ملنے کے بعد میں نے ٹیچر بھرتی ہونے کیلئے انٹرویو دیا وہاں مجھ سے ٹیچری کے آرڈر دینے کیلئے کلرک نے 25 ہزار مانگے، میں نے والد صاحب سے ذکر کیا کہ مجھے 25 ہزار دیں تاکہ میں ٹیچر بن سکوں۔ والد صاحب ناراض ہوگئے میں تم کو رشوت دے کر بھرتی نہیں کروا سکتا!!!! اس سے بہتر ہے کہ تم بے روزگار ہی رہو !!!!!

اُس کے بعد نے ادھر اُدھر سے معلومات لے کر CSS کی تیاری شروع کی اور CSS کے امتحان میں ٹاپر پوزیشن لی۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے CSS کی تیاری کیلئے کون سی اکیڈمی جوائن کی ؟ جسکانی صاحب نے ہنس کر کہا کہ کھوسہ صاحب ہم غریب لوگ تھے آپ خود اندازہ لگائیں کہ جو آدمی پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہونے کیلئے کوشش کرتا پھرے اُس کی مالی پوزیشن کیا ہوگی ؟ اکیڈمیز میں پڑھنے کیلئے پیسے چاہیئں جو میرے پاس نہیں تھے ۔

مزید پڑھیں:سندھ : DJ سائنس کالج کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانا لازمی ہے : منور عباس

جسکانی صاحب نے بتایا کہ ایک ڈی آئی جی صاحب ( اُن کا نام اُن کی اجازت کے بغیر لکھنا مناسب نہیں ہے ) میرے گاؤں کے قریب رہتے ہیں وہ اُس وقت بکریاں چراتے تھے اُن کو ڈی سی بنے کا شوق تھا وہ انگریزی بہت اچھی جانتا تھا ۔

میں اُس کے گاوں چلا جاتا اور وہ بکریاں چراتے چراتے ایسی انگریزی بولتا کہ میں “ کلین بولڈ” ہوجاتا اور واپس گھر آکر ڈکشنری کھولتا ۔ وہ ڈی آئی جی صاحب انگریزی میں اتنا ماہر ہے کہ آگر آپ اُس سے انگریزی کا کوئی لفظ دریافت کریں تو وہ آپ کو اُس لفظ کی سات پشتیں بتا دے گا اور یہ بھی بتائے گا کہ اُس لفظ کی ماں کون ہے ؟ باپ کون ہے ؟ !!!!!

جسکانی صاحب نے بتایا کہ ہم دونوں نے CSS کا امتحان ساتھ دیا اُس کے مارکس کم آئے اور میں ٹاپر شامل تھا اور سندھ میں میری دوسری پوزیشن تھی انھوں نے بتایا کہ CSS کیلئے آسان انگریزی چاہیئے وہ صاحب ایسی انگریزی بولتے اور لکھتے ہیں کہ ممتحن کو ڈکشنری کھولنے پڑتی ہوگی ۔

مزید پڑھیں:متنازعہ فلم کیلئے کلیئرنس؟

گاؤں کے قریب رہنے والے ڈی آئی جی صاحب نے ڈی سی بننے کا ارادہ ترک کر دیا اور مجھے کہا کہ مجھے اپنے شاگردی میں لو میں CSS Improve کرنا چاہتا ہوں، میں نے اُن کو سمجھایا کہ مُشکل انگریزی استعمال نہ کرو آسان لفظ بولا اور لکھا کرو وہ صاحب دو سال بعد CSS کے امتحان میں ٹاپر میں شامل ہوا اور پولیس میں ASP ہوگیا اور آج کراچی میں ڈی آئی جی ہے ۔

جسکانی صاحب نے بتایا کہ اُن کے والد صاحب کینسر کے موذی کی وجہ سے سول اسپتال حیدر آباد میں داخل تھے میں اُن کی خدمت میں تھا ایک دن والد صاحب نے مجھے بتایا کہ بیٹا اب میرا وقت پورا ہوگیا ہے ، میں نے ایک بات تم سے چھپائی تھی جو آج تم کو بتانا ضروری ہے،

والد صاحب نے مزید بتایا کہ میں حج کے دوران مسجد نبوی میں ظہر کی نماز کے بعد سو گیا میں نے خواب دیکھا کہ میرے ہاتھ میں آپ کے کاغذات ہیں اور میں پریشان ادھر ادھر گھوم رہا ہوں اتنے میں ایک بزرگ جن کے چہرے پر نور ہی نور تھا میرے قریب آئے اور مجھ سے کہا جاوید کے کاغذات مجھے دے دو اور جاوید کی فکر چھوڑ دو اُس کو انصاف کی کُرسی ملے گی، ( میرا اپنا تجربہ ہے کہ پولیس افسر دونوں فریقین کو تسلی اور نیک نیتی سے سُن کر ایک دو گھنٹے میں سچا انصاف فراہم کرسکتا ہے جو عدالت دس سالوں میں لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود نہیں دے سکتی انصاف کی پہلی منزل پولیس ہے آگر کوئی پولیس والا یہ سمجھے !! آگر سمجھ گیا تو وہ زندہ ولی ہے, آگر اس طرح سے نوکری نہیں کرسکتا تو اللہ پاک کو اُس کی نمازوں، تہجدوں اور سجدوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا )

مزید پڑھیں:ملک بھر کی مساجد کے ائمہ و خطباء نے متنازعہ فلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر دی

میرے والد صاحب نے مجھے کہا کہ بیٹا میں تمہیں وردی میں دیکھ نہیں سکوں گا : اور رونے لگے اور روتے ہوئے مجھے تلقین کی کہ بیٹا یہ کبھی مت بھولنا کہ تم سونھارو خان کے بیٹے ہو جو ایک غریب، فقیر اور حقیر انسان ہے اور یہی تمھاری بھی اوقات ہے، عہدہ ملنے سے انسان کا سر چکرا جاتا ہے غرور و تکبر کرنے لگتا ہے اور تم اپنی اصلیت کبھی نہ بھولنا ۔ میرے والد صاحب 1997 میں فوت ہوئے اور میں 1999 میں ASP ہوگیا

جسکانی صاحب ایک ایماندار، شریف اور اپنے غربت کو نہ بھولنے والے ، یاد رکھنے والے اور فخر یہ بتانے والے اچھے انسان اور ادارے میں ایک ادارہ والی شخصیت ہیں اُن سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے ۔

ہماری بات چیت کے دوران اردلی آتا اور بتاتا کہ فلان نام کا کوئی سائل آیا ہے، جسکانی صاحب فوراً اُس کو بُلا لیتے اور نہایت عزت، احترام اور محبت سے کام پوچھتے اور کام کردیتے ۔

میں نے پوچھا کہ ہر محکمے کے بڑے افسران تو سائل کو انسان نہیں سمجھتے اور ہر سائل کو لگتا ہے کہ میرا پالا کس متکبر، فرعون بندے سے پڑا ہے اور سفارش یا پیسے کے بغیر کسی کی سنتے نہیں، جسکانی صاحب نے جواب دیا کہ میں ایسے رویوں سے گُذر چُکا ہوں اور ہمیشہ اپنے والد کی تلقین پر چلتا رہتا ہوں

مزید پڑھیں:اقوام متحدہ کے تعاون سے دریائے سندھ کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کے لیے کوشاں ہیں، فلورنس رولی

میری نوجوانوں سے درخواست ہے کہ اور اپنا کیریئر بنانے کیلئے آسمان کی طرف دیکھ کر صدق دل سے جسکانی صاحب کی طرح اللہ پاک سے مانگیں ضرور اللہ پاک اُن کا مستقبل روشن کردے گا، آگر دنیا اور آخرت میں عزت چاہتے ہیں تو اپنے والدین سے ہمیشہ پیار، محبت و شفقت سے پیش آئیں اور اُن کی بات کو حقیر نہ سمجھیں ۔

آج کی نسل کیریئر کی جگہ اللہ پاک سے پہلے لڑکی سے شادی کیلئے مانگتے ہیں اور مل جانے کے بعد اُسی سے بیزار ہوتے ہیں شادی کے بعد عورت اور بچوں کے چکر میں آدمی اپنے کیریئر کے متعلق بھول جاتا ہے، میں نے ایسے لڑکوں کو اپنے ہی گھر میں جھاڑو پونچہ لگانے کا سُنا ہوا ہے باقی سب کی اپنی اپنی مرضی ہے ۔

جب دیہاتوں میں بغیر وسائل کے بچے اپنے مستقبل سنوار سکتے ہیں تو بڑے بڑے نام والے اسکولوں میں پڑھنے والے بچے ایسا کیوں نہیں کر سکتے ؟؟؟؟؟،

میرے ایک جاننے والے ایک سب انسپکٹر کے بیٹے کو اپنے ہی رشتہ دار ایس ایس پی کی بیٹی سے یک طرفہ پیار ہوگیا تھا، بیٹے کی ضد پر والد صاحب ایس ایس پی کے پاس رشتہ لے کرگیا اور وہاں سے بے عزت ہوکر واپس آیا اور بیٹے کو غصہ میں کہا کہ ایس ایس پی کسی CSS افسر کو اپنی بیٹی کا رشتہ دے گا تم جسے جاہل کو وہ اپنی بیٹی کیوں دے گا ؟؟؟؟؟ بیٹے نے تین سال کے اندر اندر CSS پاس کرکے کسٹم جوائن کرلیا اور فوراً ایس ایس پی جو اُس وقت ڈی آئی جی بن چکے تھے اُن سے بیٹی کا رشتہ مانگا جو طے ہوگیا اور شادی ہوگئی ۔

مزید پڑھیں؛مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی انتقال کر گئے

شادی کے بعد لڑکی اُٹھتے بیٹھتے شوہر کو کہتی کہ میں ڈی آئی جی کی بیٹی ہوں اور تم سب انسپکٹر کے بیٹے ہو اور ایک سال میں شادی طلاق تک آگئی، ڈی آئی جی صاحب نے اپنے داماد پر پرچہ کرواکر گرفتار کروالیا، شکایت پر آئی جی صاحب نے کیس مجھے دے دیا، میرے ڈی آئی جی صاحب سے بہت ہی اچھے تعلقات تھے، پرچہ جھوٹا تھا میں نے ڈی آئی جی کے داماد کو چھوڑ دیا اور کیس ختم کردیا ۔

زندگی کی دوڑ مُختلف ہے جو کبھی بھی فلمی انداز میں نہیں ہوتی، سب انسپکٹر کے بیٹے کے خوابوں کی اس طرح بھیانک تعبیر بھی نکلتی ہے۔

جسکانی صاحب جیسے پریکٹکل اور Self Made اور Genius لوگوں سے رہنمائی لیں اور اپنا کیریئر دُرست کریں ۔

ایک چینی کہاوت ہے کہ عورت اور گھوڑی کے پیچے نہ چلیں، میں اسی کہاوت پر ہمیشہ سے عمل پیرا رہا ہوں ۔

متعلقہ خبریں