تحریر : تجمل حسین
سپریم کورٹ کے آرڈر 2014 کے مطابق 358 برطرف ملازمین کی ایک بار پھر بحالی کے حوالے سے گردش کرتی تمام خبروں کی تردید کرتا ہوں ۔ افواہوں کے حوالے سے وضاحت پیش کر رہا ہوں کہ ایسا ممکن ہی نہیں 358 افراد کی برطرفی بحالی میں بدل سکے۔
اس سلسلہ میں چند گذارشات کر رہا ہوں چونکہ غیر قانونی بھرتیوں کا کیس میری درخواست HRC 48012/2010 پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا، اور CP.6/11 سید مبشر رضی کی پٹیشن پر ان تمام غیر قانونی بھرتیوں کو 17.3.2014 کو غیر قانونی قرار دے کر ختم کر دیا۔
اب قومی اسمبلی کی کوئی کمیٹی اور EOBI کی انتظامیہ کسی ایڈمنسٹریٹو آرڈر کے ذریعے ان کو بحال کرکے سنگین توہین عدالت کے مرتکب ہونگے۔ اور جو آفیسر بھی کسی دباؤ میں آ کر یا کسی اور وجہ سے ان ملازمین کو بحال کرے گا جیل کی سلاخیں اس کا مقدر بنیں گی۔
مختلف قسم کے جواز تراشے جا رہے ہیں ہاں اگر کوئی قانونی جواز بنتا بھی ہو تو اسکے لئے سپریم کورٹ ہی مناسب فورم ہے نہ کے کوئی کمیٹی ۔ اگر کوئی دھونس اور دھاندلی کر کے اس طرح کا اقدام کرتا ہے تو اس کو توہین عدالت اور گورنمنٹ کے خزانہ کو نقصان پہنچانے کے سنگین نتائج بھی بھگتنا ہوں گے۔
تجمل حسین کے مطابق یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس وقت جو سیاسی لوگ ان غیر قانونی بھرتیوں میں ملوث تھے وہی اب انکی غیر قانونی بحالی میں ملوث ہیں ۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ جس کو جواز بنایا جا رہا ہے وہ حاضر خدمتِ ہے جس کے conclusion کو دیکھ کر کوئی گنجائش ہی باقی نہیں بچتی انکی برطرفی کے سوا۔
باقی چند دن تک ایک بڑا مالیاتی سیکنڈل بھی اس سلسلہ میں سامنے آ جائے گا کہ کس طرح یہ سارا معاملہ شروع ہوا۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ EOBI کی موجودہ انتظامیہ معزز چیئرپرسن ، قابل احترام DG HR اس معاملے میں اتنا علم نہ رکھتی ہوں۔ کیونکہ 10سال پرانا کیس ہے اس وقت کے کسی سینئر آفیسر جو ان کمیٹیوں میں نہ رہے ہوں سے بریفننگ لینی چاہیے یا جن لوگوں نے سپریم کورٹ میں کیس لڑا ہے ان سے ملاقات کر کے معلومات لینی چاہیے کسی رپورٹ سے پہلے تا کہ صیح صورت حال سامنے آ سکے۔
یہ ایسا کھلم کھلا رولز ، قوانینِ کی خلاف ورزی کا کیس ہے کہ مثلاً 21438 درخواستوں کو شارٹ لسٹ ہی نہیں کیا گیا، تحریری ٹیسٹ پابندی تھی نہیں لیا گیا، کوٹہ سسٹم کی خلاف ورزی کی گئی ، تعلیم بعد میں مکمل ہوئی اور درخواستیں پہلے لی گئیں ، پوسٹ کے مطابق تعلیم کی خلافت ورزی کی گئی ، پوسٹ کے مطابق تجربہ نہیں تھا۔
تمام سلیکشن کمیٹیاں جعلی بنائی گئیں، کوئی انٹرویو خط جاری نہیں ہوے، جعلی منٹس تیار کئے گئے ، جس دن انٹرویو کی تاریخ دی گئی جو کہ جعلی تھی اسی تاریخ کو منٹس بھی بنائے گئے۔
سابق چیئرمین ظفر گوندل کے بھائی نظر گوندل اور ندیم افضل چن کے دو حلقوں سے 83 افراد بھرتی کئے گئے ، خورشید شاہ اس وقت متعلقہ وزیر تھے ان کے حلقہ سے 60 افراد بھرتی کئے ، اسی طرح یوسف رضا گیلانی وزیراعظم کے حلقہ سے 14 افراد کو ملازمت دی گئی ، بے شمار وزیر، پارلیمنٹیرینز کے رشتے داروں کو ملازمتیں دی گئیں۔
اسکے علاؤہ بےشمار قواعد کی خلاف ورزیاں کی گئیں، وزراء کے دفاتر سے لسٹیں بھیجی گئیں کہ ان افراد کو ایڈجسٹ کیا جائے ، سپریم کورٹ کے سٹے آرڈر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کنٹریکٹ پر بھرتیاں کی گئیں۔
ایسا بھی ہوا کہ ایک بندہ 5 دن پہلے EO بھرتی ہوا اور 5دن بعد وہی بندہ اسٹنٹ ڈائریکٹر بھرتی ہوگیا ، ایسا عجوبہ بھی ہوا کہ ایک امیدوار کو بھرتی کا خط EO کا جاری ہوا اور اسکی جائنگ بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہوئی، ایک خاتون کو سندھ کے کوٹہ میں EO بھرتی کیا اسی خاتون کو پنجاب کے کوٹہ میں اسٹنٹ ڈائریکٹر بھرتی کیا گیا اب خدا جانے دونوں جگہ پر وہ کس طرح نوکری کرے گی۔
سپریم کورٹ میں اعتزاز احسن، حفیظ پیرزادہ، جناب اطہر من اللہ، سردار اسلم، افنان کریم کنڈی جیسے قابل احترام نامور وکلاء بھی ان کا دفاع نہ کر سکے ۔
لہذا اتنے کرسٹل کلئر کیس اور فیصلہ کو سیاسی طور پر بلڈوزر تو کیا جا سکتا ہے لیکن سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی کارروائی میں یہ پہلی سماعت پر ہی خارج بھی ہو گا اور ذمہ دار قانون کے شکنجے میں بھی ہونگے۔