تحریر : بشریٰ جبیں
اردو ایک جامع زبان ہے اور یہ ہر قسم کے انسانی تاثرات کو الفاظ دینے پر قادر ہے۔ کوئی بھی قوم و ملک اس وقت تک حقیقی معنوں میں کامیابی و ترقی نہیں کر سکتے جب تک وہ اپنی قومی زبان کو زندگی کے ہر شعبہ میں لازم و ملزوم نہیں کر لیتے۔ ہر قوم کے رہن سہن، مزاج اور تہذیب اپنی مادری زبان سے اچھی طرح جڑے ہوتے ہیں،کہ جس کا ہرایک لفظ زبان سے اچھی طرح جھلکتا ہے۔اس لیے اپنی مادری قومی زبان کو چھوڑ کر اوروں کی زبان کا سہارا لینا اوران کی تہذیب کواپنانے کی کوشش کرنا اپنی سوچ اور افکار کو تبدیل کرنا ہے۔
لیکن الیکٹرانک میڈیا اور معاشرے کے ایک طبقے میں اس کو اس قسم کے مصنوعی انداز میں بولا جاتاہے کہ سننے والے کو شرمندگی ہوتی ہے۔ جب تک ٹیلیویژن صرف پی ٹی وی تک محدود تھا اس میں زبان کی درست ادائیگی پر بہت زور دیا جاتا تھا اس سلسلے میں ٹیلیویژن کے ابتدائی بیس پچیس سال کے پروگرام اور نشریات بطور مثال پیش کئے جا سکتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بہترین اردو سیکھنے اور بولنے والے ٹی وی کیلئے لکھتے اور کام کرتے تھے۔ الفاظ کا چنائو بہترین ہوتا تھا اور ان کی ادائیگی اور صوتی تاثرات پر بہت زور دیا جاتا تھا۔ چنانچہ ناظرین کے اعلیٰ ذوق کی تسکین کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی ہوتی تھی۔ لوگ خبریں سُنتے تھے، ڈرامے اور مذاکرے دیکھتے تھے اور اسی میڈیا سے انہیں بہترین شاعری اور موسیقی سُننے کو ملتی تھی۔آج جبکہ الیکٹرانک میڈیا بہت ترقی کر چکا ہے، بذریعہ کیبل وغیرہ بے شمار چینلز دیکھے جا سکتے ہیں۔
نجی سطح پر بہت سے ٹیلیویژن چینلز کام کر رہے ہیں، اردو زبان کی ادائیگی کی صورتِ حال نہایت مضحکہ خیز ہے۔ چند چینلز تو نجانے کس ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں کہ ان کے بیشتر پروگرام مقبولیت سے عاری ہیں۔ اس وقت زیربحث چونکہ زبان کا مسئلہ ہے اس لئے اس موضوع پر ہی گفتگو کی جاتی ہے۔ ان چینلز پر اردو زبان میں بہتات کے ساتھ انگریزی الفاظ شامل کرکے بولے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خبریں پڑھنے والے اور پروگرام کے کمپیئر خواتین و حضرات قومی زبان میں انگریزی سمیت دیگر غیر ملکی زبانوں کے الفاظ شامل کرکے نہایت مضحکہ انداز میں بولتے ہیں اور اپنے چہرے کے تاثرات بھی ایسے بنا لیتے ہیں جیسے وہ غیر ملکی چینلز کے لوگوں کو کرتا دیکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں : ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی وجہ سے جیل سپرنٹنڈنٹ معطل
اسی طرح دیکھا جائے تو معاشرے میں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو اپنی زبان میں بات کرنا مناسب خیال نہیں کرتا۔ یہ لوگ یا تو مکمل طور پر غیرملکی زبان بولتے ہیں یا اردو میں انگریزی کے الفاظ کثرت سے شامل کرکے گفتگو کرتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ایسے لوگوں میں ایک محدود طبقہ ایسا ہے جو نفسیاتی طور پر اُلجھا ہوا ہے۔ ان لوگوں کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں جو زیادہ تر مادیت پر مبنی ہیں جو ان کو اپنی روایات سے بیگانہ کرنے کا باعث بن رہی ہیں اور غیرملکی زبان میں بات کرنا ان لوگوں کیلئے بڑائی کی علامت ہے۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ انگریزی زدہ حکمران طبقے، نام نہاد اشرافیہ اور خصوصاً بیوروکریسی اردو زبان کو اس کا مقام دلانے میں حائل ہیں۔ یہ طبقات اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ چونکہ ان طبقات کی معاشرے پر گرفت بہت مضبوط ہے اور جمہوریت ہونے کے باوجود عوام الناس کی پسند اور رائے ثانوی حیثیت رکھتی ہے اس لئے دیگر اور بہت سے معاملات و مسائل کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان کا غلبہ بھی قائم ہے اور آئینِ پاکستان میں دی گئی مہلت سے ستائیس سال مزید گزر جانے کے بعد بھی انگریزی زبان کا غلبہ قائم ہے۔ قومی زبان کو اس کا صحیح مقام دلانے کیلئے اس زبان سے محبت کرنے والے بہت سے لوگ انفرادی و اجتماعی سطح پر کوششیں کرتے رہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ والدِ گرامی پروفیسر حمید کوثر (مرحوم) ان لوگوں کی اولین صف میں شامل تھے جو اردو زبان کو اس کا قانونی اور آئینی مقام دلانے کیلئے سرگرم تھے۔ اردو زبان سے محبت ان کے ایک ایک فقرے سے ظاہر ہوتی تھی۔ انہوں نے نفاذِ اردو کیلئے قانونی جنگ بھی لڑی اور عدالتِ عالیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔
آج معاشرے میں یہی اہم ضرورت ہے کہ اپنے حلقہ و احباب میںبھرپور طریقے سے اپنے اپنے انداز میں نفاذ اردو کے لیے بھرپور کوشش کی جائے اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کے فرمان کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستان میں دُھوم ہماری زبان کی ہے