بنی براک اسرائیل کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ جس میں یہودیوں کا سب سے شدت پسند مذہبی فرقہ الحريديم رہائش پذیر ہے۔ الحریدم کے ماننے والے لوگ مذہب پر سختی سے کاربند ہیں۔ ان کی خواتین بلکہ بچیاں بھی مکمل جسم کا پردہ کرتی ہیں۔
الحریدم کے مفتیوں نے فتویٰ دیا ہے کہ اسمارٹ فون کا استعمال حرام ہے۔ اس سے نوجوانوں میں مذہب سے دوری پیدا ہوتی ہے۔ فرقے کے پیروکار اس فتویٰ پر کاربند بھی ہیں۔ اس کے باوجود حکومت نے بنی براک شہر میں اسمارٹ فون کی تجارت کا ایک مرکز کھول دیا۔
اس کے ردعمل میں گزشتہ رات حریدم والے سڑکوں پر نکل آئے اور پرتشدد مظاہرے کئے۔ پولیس کو بھاگنا پڑا اور یہ تجارتی مرکز بند کرنے کے وعدے پر مظاہرین گھروں کو لوٹ گئے۔ اسرائیل میں اس فرقے کے اثر و نفوذ کا اندازہ اس بات لگالیں کہ نئی بننے والی حکومت میں 8 وزارتیں حریدم کی ہوں گی۔
اس سب کے باوجود نہ تو میڈیا میں انہیں دقیانوسیت کا طعنہ دیا جاتا ہے اور نہ "مہذب” دنیا کے کان میں جوں رینگتی ہے۔ یہود حریدیم نے کورونا پابندیوں کی بھی سرعام ایسی کی تیسی کی تھی۔ وہ بھی کورونا کو اپنے مذہب کے خلاف سازش قرار دے رہے تھے۔ بالفرض ایسا کوئی فتویٰ ہمارا کوئی مفتی دے دے تو یہ لوگ اس کا کیا حشر نشر کر دیں گے۔
مزید پڑھیں:سردموسم کے اثرات سے سیلاب زدگان کو محفوظ رکھنا چیلنج ہے ر اؤ کاشف اکرم
قارئین کی دلچسپی کیلئے حریدم پر چند سطور:
یہودیوں کی سب سے مذہبی جماعت حسیدم (Hasidim) اور حریدم (Haredim) کی رہی ہے۔ یہ لوگ بہت زیادہ روایتی ہیں۔ ان کی طبعیت میں ایک قسم کا یہودی تصوف بہت پایا جاتا ہے۔
ان لوگوں نے ریاستِ اسرائیل کی سب سے بڑھ کر مخالفت کی تھی۔ مگر ہٹلر نے جب یہودیوں کو قتل کیا، تو ان کی ایک بڑی اکثریت ختم ہوگئی۔ لیکن اس کے باوجود اس کا نام بہت ہے اور یہودی ثقافت کا یہ بڑا نمائندہ ہے۔ مگر ان میں سے بعض لوگوں نے سختی چھوڑ دی اور اپنے آپ کو نرم بنا لیا اور ریاستِ اسرائیل کے حامی ہوگئے، مگر بہت سی یہودی روایات پر قائم رہے۔
ان ہی کو آرتھوڈوکس یہودی (Orthodox Jews) کہا جاتا ہے اور یہی اب یہودیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ یہ فرقہ بھی دو سو سال پرانا ہے۔ اگرچہ نام سے لگتا ہے کہ یہ فرقہ کوئی یہودی روایت کا مشترکہ نمائندہ رہا ہوگا۔
یہودیوں کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور پوری بنی اسرائیل نے ایک ساتھ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سنا اور وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ایمان کی بنیاد بھی یہی ہے کہ خدا نے ہم سے خود بات کی ہے، شک کی گنجائش ہی نہیں۔ مگر بعض لبرل یہودی جس میں ریفارم یہودیت (Reform Judaism) شامل ہے، وہ اس کا انکار کرتے ہیں اور اس کی تاویل کرتے ہیں۔
دیدارِ الہی کو ناممکن قرار دیتے ہیں اور اس کی سختی سے نفی کرتے ہیں۔ توریت کی تاویل و تشریحات کرتے ہیں۔ اسی طرح توریت کے اندر بیان کردہ تاریخی واقعات کی تاریخیت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سبق کے لیے ہیں، ضروری نہیں کہ ان کی تاریخی حیثیت بھی کوئی ہو۔ یہودیت کی ایک قسم تو خالص ملحدانہ ہے، جس کا نام ہومنسٹک یہودیت (Humanistic Judaism) ہے۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم شادیاں یہودی طریقے سے کریں گے۔ یہودی تہواروں پر خوش ہوں گے۔ یہودی ثقافت کو منائیں گے اور اس پر فخر کریں گے۔ مگر نہ خدا کو مانیں گے اور نہ پیغمبروں پر ایمان لائیں گے، ہم صرف ثقافت کو مانیں گے۔ اسرائیل کی بنیاد صیہونی تحریک (زایونسٹ) نے رکھی تھی اور یہ لوگ اسی لبرل و ملحد قسم کے فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس لئے اسرائیل کو یہودی ریاست کہنا نہایت کام ہے کہ جتنا زیادہ مذہبی قسم کا یہودی تھا، وہ اس زایونسٹ تحریک کا مخالف تھا۔ اس کو "یہودیوں” کی فتح قرار دینا بھی غلط ہے۔
اس کے سارے بانی اور محرک ملحدین یا سخت قسم کے لبرل لوگ تھے، جو تہذیبِ مغرب کی مرعوبیت سے سرشار تھے اور یہودی ویسے ہی دنیا میں بہت کم ہیں اور ان یہودیوں میں بھی بہت ہی بڑی تعداد جو نہایت ہی روایت پسند (ultra-orthodox Jews) اور حریدیم یہودیوں کی ہے، وہ اسرائیل کے خلاف ہے، کیونکہ تلمود کا حکم تھا کہ جب تک مسیح نہیں آجاتے ہیں، سرزمینِ مقدس کی طرف اس طرح چڑھائی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
مزید پڑھیں:قادیانیوں کیخلاف پریڈی اور جمشید کواٹرز تھانوں میں درج مقدمات کی سماعت
ہٹلر نے انہی حریدم یہودیوں کو سب سے زیادہ مارا تھا جس کے نتیجے میں ان کا اسّی فیصد صفحہ ہستی سے ہی مٹ گئی ورنہ زایونسٹ تحریک بہت پہلے سے چل رہی تھی اور جرمنی وغیرہ کے روایت پسند یہودی ان سب کے مخالف تھے۔ بلکہ زایونسٹ ان کو قتل بھی کرتے رہے۔
یعقوب اسرائیل دی ہان (Jacob Israel de Haan) صیہونیت مخالف ایک یہودی شاعر و ادیب تھا، جس کو صیہونی(Zionist) جماعت ہگانا(Hagana) نے ۱۹۲۴ء میں قتل کر دیا تھا۔
یہ شخص خود فلسطین اس حال میں آیا تھا کہ یہ صیہونی تھا۔ مگر جب اس کے کچھ حریدم(Haredim) ربیوں سے ملاقات ہوئی تو اس کے نظریات میں تبدیلی آئی اور اس نے صیہونیت کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کر دیا۔
اس کے بعد یہ قتل کردیا گیا جب یہ ایک یہودی عبادت گاہ سیناگوگ(Synagogue) سے نکل رہا تھا۔ یہ شخص اس بات کا حامی تھا کہ فلسطین پر برطانیہ سے آزادی کے بعد مسلمانوں کی حکومت ہی ہونی چاہئے، جس میں امن کے ساتھ یہودیوں کو رہنے دیا جائے۔