منگل, ستمبر 26, 2023
منگل, ستمبر 26, 2023
- Advertisment -

رپورٹر کی مزید خبریں

بلاگسرزمینِ بے آئین کا یوم آزادی

سرزمینِ بے آئین کا یوم آزادی

دنیا میں ایک ایسا ملک بھی معرض وجود میں آیا ، جس کی عمر محض پندرہ دن تھی ، اس ملک کی خود مختاری کی حیثیت کسی غیرنے نہیں ، بلکہ خود مالی اور جانی قربانیاں دے کر آزاد ریاست بنانے والوں نے ہی ختم کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری کہلانے پر فخرمحسوس کیا ۔ شاید اس لیے کہ اب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی اصولوں اور قوانین کے مطابق سب کو برابر کے حقوق ملیں گے اور ہندوستان کے زمانے کی طرح کسی پر ظلم و جبرنہیں ہو گا ، آزاد زندگی ملے گی ، ایک دوسرے کی ثقافت اورعقائد کا احترام ہو گا ، اپنے فیصلے خود کرنے کا موقع ملے گا ۔

ان کو کیا معلوم ان کی عظیم قربانی کا کسی کو احساس تک بھی نہ ہو گا اور ان کی نسلیں مایوسی اور نا امیدی کا شکار ہوں گی ، سات دہائیاں گزر گئیں ہرآنے والی حکومت انتخابات کے ایام میں کچھ جھوٹے وعدے کرتی ہے اور مقصد پورا ہونے کے بعد ایسے فراموش کر جاتی ہے کہ علاقے کا نام بھی ان کے ذہن سے نکل جاتا ہے ۔

ان جھوٹے وعدوں اور بے نتیجہ بیانات کی وجہ سے خطے کی جوان نسل میں روز بہ روز مایوسی اور بے چینی بڑھ رہی ہے ۔پاکستان، دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آیا تو جموں و کشمیر کے مہا راجا نے گلگت، استور، ہنزہ، نگر، گلتری، روندو، شگر، کھرمنگ، خپلو، غذر، دیامر وغیرہ کو بدستور ہندوستان کا حصہ قرار قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ علاقے ہندوستانی حکومت کے ماتحت ہی ہوں گے ۔

مقامی اکابرین نے مہا راجا کے اعلان پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان کے زیرقبضہ رہنے سے نہ صرف مکمل طور پر انکار کیا بلکہ گلگت میں آزادی کی تحریک کا آغاز کیا اور ایک سال بعد یکم نومبر 1948 کو اس خطے کے عوام تمام تر مالی اور جانی قربانیاں دے کر اس خطے کو ہندوستان سے الگ کر کے ایک آزاد ریاست بنانے میں کامیاب ہوئے۔ جسے نہ صرف حکومت پاکستان نے بھی قبول کیا؛ بلکہ اقوام متحدہ کےسکیورٹی کونسل کو خط بھی لکھا گیا۔

مذید پڑھیں : گلگت بلتستان کے یوم آزادی کی تقریبات کا چلاس پریس کلب کے صحافیوں کا بائیکاٹ

راجہ شاہ رئیس خان اسلامی جمہوریہ گلگت کے پہلے صدر بنے، پندرہ دن تک آزاد ریاست رہنے کے بعد خطے کے عوام نے اسلامی جذبات کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا.

لحاق کے کچھ عرصہ بعد؛ یعنی اپریل 1949ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مرکزی شہر کراچی میں حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کا باہمی اجلاس منعقد ہوا؛ جس میں گلگت بلتستان کے سیاسی رہنماؤں کی مرضی کے بغیر اس خطے کو مسئلہ کشمیر کے ساتھ ملحق کرنے کا اعلان کیا گیا جو بعد میں معاہدہ کراچی کے نام سے مشہور ہوا۔

گلگت بلتستان میں سال 1950 سے 1974 تک ایف سی آر کا کالا قانون نافذ رہا، پھر آئین پاکستان میں شامل کرنے کے بجائے محض احساس شمولیت کے نام پر آرڈر پر آرڈرز کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا، جو تاحال جاری ہے ۔ سال 1970ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر جنرل محمد یحیی خان نے گلگت بلتستان کو شمالی علاقہ جات کے نام سے ایک علیحدہ انتظامی حصے میں تبدیل کر دیا۔

مزید پڑھیں : دعا اور ظہیر کی جان کو خطرہ ہے ، مجھے شہلا رضا نے قتل کی دھمکیاں دی ہیں :‌ ڈاکٹر فاطمہ ریاض

سال 2009 میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے گلگت بلتستان کو صوبائی طرز حکومت کے تحت جزوی طور پر اختیارات منتقل کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ اس آرڈیننس کے تحت گلگت بلتستان اسمبلی میں 24 نشستیں قائم کی گئیں جن کا سربراہ وزیر اعلیٰ کو مقرر کیا گیا اور ساتھ ہی گورنر کا نظام بھی متعارف کرایا گیا۔

گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے میں مختلف قسم کی قانونی پیچدگیاں رکاوٹ ہیں،جن میں سے چند درج ذیل ہیں :

۱۔پاکستان کا باقاعدہ صوبہ بنانے سے اقوام متحدہ میں ملک کا موقف کمزور ہو گا۔

۲۔پاکستان کو کشمیر کے مسئلے پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
حالانکہ یہ خدشات درست نہیں۔گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینے سے پاکستان کا موقف کمزور نہیں؛بلکہ مضبوط ہو گا۔
گلگت بلتستان ملک کی ضرورت بن چکا ہے اور پوری دنیا کے سامنے اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے، اب یہ خطہ نہ صرف ملک کی ترقی کا ضامن ہےبلکہ پاکستان کی اہم اکائی بن چکا ہے ۔

ملکی و بین الاقوامی تناظر میں گلگت بلتستان کے عوامی امنگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخی فیصلہ وقت کی ضرورت ہے،لہٰذا گلگت بلتستان کی عوام کے مطالبات کو پورا کیا جائے،ان کوآئینی حقوق دئیے جائیں،گلگت بلتستان کی عوام کو سینٹ اور پارلیمنٹ میں بھی نمائندگی دے کر اس خطے کے عوام کی مایوسی کو فوری طور پردور کی جائے۔

نوٹ : کالم نگار کا ننھیالی تعلق گلگت بلتستان کی تحصیل استورکے دورافتادہ گاوں ڈوئیاں سے ہے ۔

مولانا جہان یعقوب
مولانا جہان یعقوبhttp://alert.com.pk
مولانا جہان یعقوب کالم نگار و بلاگر ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف اور جرائد کے مدیر ہیں۔ خطیب بھی ہیں اور آج کل جامعہ بنوریہ العالمیہ سائٹ کراچی سے وابستہ ہیں۔
متعلقہ خبریں