کوئٹہ : ڈپٹی کمشنر کیچ بشیر بڑیچ نے کرپشن کو سامنے لانے والے تحقیقاتی صحافی کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں ، صحافی کا نمبر رابطہ کمیٹی کے کرپٹ افراد سمیت متعلقہ اداروں کو دیگر دھمکیاں دلوانا معمول بنا لیا ہے ، صحافی نے تحریری طور پر تمام ثبوتوں کے ہمراہ اسلام آباد اور بلوچستان حکومت کو درخواست دینے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق مکران ڈویژن کے ضلع کیچ کے بے روز گار افراد کے لئے حکومت پاکستان کی طرف سے سہولت دی گئی تھی ،بارڈر پر سہولت کے فیصلے کا ناجائز فائدہ اٹھانے والے ڈپٹی کمشنر بشیر بڑیچ نے اپنی کرپشن کو بے نقاب کرنے والے تحقیقاتی صحافی کو سنگیشن نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں، بذات خود اور رابطہ کمیٹی کے افراد کو نمبر دلوا کر فون کالز کرائی جا رہی ہیں اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں ۔
جس پر تحقیقاتی صحافی نے صحافتی تنظیموں کے علاوہ اسلام آباد اور بلوچستان حکومت کے اہم افراد سے رابطہ کر کے انہیں تمام تر معلومات دی ہیں کہ کون کس نمبر سے کال کر کے دھمکیاں دے رہا ہے ، صحافی نے بتایا کہ اس کی جان کو بشیر بڑیچ اور اس کے فرنٹ مین ، رابطہ کمیٹی کے ممبران سے سخت جان کا خطرہ ہے اور ان کی کرپشن کو روکتے ہوئے ، مجھے ان سے تحفظ دیا جائے ۔
مزید پڑھیں : آزاد جموں و کشمیر حکومت کا سیرت النبی ﷺ کتب مقابلے میں 1 کروڑ 80 لاکھ انعام کا اعلان
واضح رہے کہ مکران ڈویژن کے ضلع کیچ کے غریبوں کے لئے حکومت پاکستان کی جانب سے سہولت دی گئی تھی جس کے بعد رابطہ کمیٹی کی ملی بھگت سے ڈپٹی کمشنر کیچ بشیر بڑیچ کی اپنی گاڑیاں چل رہی ہیں ، اس کاروباری میں مافیہ ملوث ہو گئی ہے ، ایک طرف رابطہ کمیٹی کے خلیل الفت اور داد جان جب کہ دوسری جانب سابق صدر باڈر ٹریڈ یونین کا صدر حافظ ناصر الدین ضامرانی اس کے کارندوں نے اپنا دھندہ شروع کر دیا ہے جس پر پہلے رابطہ کمیٹی نے آواز اٹھائی اور بعد ازاں وہ اپنی لین سیٹ کر کے ڈپٹی کمشنر کی تعریفوں کے پل باندھنے لگے ہیں ۔
ڈپٹی کمشنر کے دفتر کا عملہ ، باڈر ٹریڈ یونین کے سابق صدر حافظ ناصر الدین زامرانی ، سمیت ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں کمپیوٹر پر لسٹنگ کرنے والے اور پرسنل سیکرٹری شیر جان بلوچ ، اے ڈی سی تابش ، رابطہ کمیٹی کے رہنما داد جان ، خلیل الفت اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں ۔
رپورٹر نے اس اسٹوری پر کام کرنے کے لئے مکران ڈویژن کا سروے کیا تھا جس میں مختلف افراد سے ملاقاتیں کیں تھیں ، جس میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے عملے کے علاوہ افسران بھی شامل ہیں جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ثبوت اور ریکارڈ مہیا کیا تھا ۔
مزید پڑھیں : سندھ کے کس ضلع میں کتنے اساتذہ کو بھرتی کیا گیا ہے ؟
ادھر اب مذکورہ اسکینڈل سامنے آنے پر ڈپٹی کمشنر سے موقف کے لئے رابطہ کیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے موقف میں بتایا کہ میرے سارے کام کو انسٹیلی جنس ادارے نظر میں رکھے ہوئے ہیں ، میں جو بھی کر رہا ہوں ، اس کے بعد انہوں نے کوئی موقف نہیں دیا ، تاہم اس کے بعد انہوں نے رپورٹر کا نمبر رابطہ کمیٹی کے ممبران کو دیکر اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کا حکم دیا رکھا ہے ۔
جس کے بعد رپورٹر کو مختلف نمبروں سے دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں جن میں داد جان سبزل کے نمبر 03370854814 ، 03268906297 ، کلرک جس کو نائب تحصیل دار کا غیر قانونی چارج دیا ہوا ہے اس کے نمبر 03310698468 ، 03344699909 ، شیر جان کے نمبر 03218006212 اور 03322335314 کے علاوہ میر شوکت کے نمبر 03322164237 ، ستا مکتا کے نمبر 0321794858 اور خالد اختر کے نمبر 03233137393 سمیت دیگر نمروں سے کالز کی جا رہی ہیں ۔
واضح رہے کہ ڈپٹی کمشنر سمیت کوئی بھی گورنمنٹ ملازم آرٹیکل 19 اے کے تحت کسی بھی شہری کو تمام تر معلومات دینے کا پابند ہے جس کے باوجود ڈپٹی کمشنر آپے سے باہر کر اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ جن کی آمدن سے زائد اثاثوں کے لئے بھی تحقیقات شروع کرنے کے لئے بھی نیب کو تفصیلات دی جا رہی ہیں ۔