منگل, ستمبر 26, 2023
منگل, ستمبر 26, 2023
- Advertisment -

رپورٹر کی مزید خبریں

بلاگگستاخی اور معافی کا ڈرامہ، پس چہ باید کرد ؟

گستاخی اور معافی کا ڈرامہ، پس چہ باید کرد ؟

ایک ہفتے میں ایسے تین واقعات ہو چکے، پہلا واقعہ العروۃ الوثقیٰ کی وحدتِ امت کانفرنس میں، جس میں اینکر و کالم نگار مظہر عباس برلاس نے حد درجہ گستاخانہ زبان اصحابِ رسولﷺ کے لیے استعمال کی۔ جب اس پر احتجاج شروع ہوا تو ایک ویڈیو ریکارڈ کرا لی کہ میں نے تو ریٹ لگانے والوں کی مذمت کی ہے، حیرت ہے س پ ا ہ ص ح ا ب ہ والوں کو یہ بات بری لگی، میرے مولانا محمدا ع ظ م ط ا ر ق سے بڑے قریبی تعلقات تھے حیرت ہے ان کی جماعت نے میرے خلاف احتجاج کیا۔

اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معذرت چاہتا ہوں۔اس معذرت نامے کو دیکھ لیں اور گستاخی کو، خود اندازہ ہو جائے گا کہ یہ محض دفع الوقتی اور آئی بلا ٹالنے کی کوشش ہے۔کسی نے قبول کر لی،کسی نے نہیں کی،مگر سوال یہ ہے کہ جب تمھیں پتا ہے کہ یہ مسلم اکثریتی ملک ہے۔ یہاں ایسی ہر بات فوراً نوٹ کر لی جاتی ہے اور بالآخر اپنا تھوکا خود ہی چاٹنا پڑتا ہے تو ایسی دریدہ دہنی کرتے کیوں ہو کیا اصحابِ احد کے بغیر تمھاری بات پوری نہیں ہو سکتی تھی؟ کس کو خوش کرنے کے لیے یہ سب ناگزیر سمجھا۔پھر یہ کیسی معافی ہے جس میں سرے سے اس گستاخی کا ذکر ہی نہیں، نہ اس پر اپنی لا علمی کا ، نہ پچھتاوے کا، نہ تجدید عقیدہ و ایمان کا!

ابھی یہ بازگشت فضاوں میں برقرار تھی کہ شہباز گل نے نبی اکرم ﷺکی ساس حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا کی گستاخی کی۔ پھر وہی ہوا۔ٹوئیٹر پر ٹرینڈ چلا ، بالآخر انھیں سیز فائر کرنا پڑا، اُن کی معذرت ہرچند کہ مظہر برلاس کی معذرت سے کافی مضبوط تھی، جس میں لاعلمی کا اعتراف بھی تھا اور اصحابِ رسولﷺ سے سچی محبت و عقیدت کا اظہار بھی۔ انھوں نے اوپر تلے تین ٹوئیٹس کیے ،تاہم اُن کی گستاخی ٹرینڈ پر آ چکی تھی، اس لیے گستاخانہ ٹوئیٹ کو اپنے ٹوئیٹر ہینڈل سے ہٹانے کے باوجود اُن کی گستاخی کے اسکرین شاٹس گردش کرتے رہے، شنید یہ بھی ہے کہ خود انھوں نے بھی اپنی فیس بک وال سے اِس کو نہیں ہٹایا۔

اس کے معاً بعد ایک پریس کانفرنس ہوئی، جس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے راہ نما علی زیدی نے سیدہ ہند رضی اللہ عنھا کی شان میں گستاخانہ کلمات ادا کیے۔اُن سے معذرت کی توقع رکھنی بھی نہیں چاہیے،کہ اُنھوں نے جو کچھ کہا اپنے عقیدے اور نظریے کے مطابق کہا ہو گا اور وہ جہاں ایک سکہ بند یوتھیے ہیں وہیں بلکہ اِس سے بڑھ کر اپنے دین دھرم میں بھی کٹّر واقع ہوئے ہیں۔
شاید اُن کی گستاخی ٹاپ ٹرینڈ بن جائے، احتجاجی ٹوئیٹس چلیں، دونوں طرف سے لفظوں کے تیر برسیں اور نتیجہ۔۔۔۔نکلے یا نکلے۔۔۔۔ٹوئیٹر پر جہاد کے بعد مجاہدین بھی سکون کا سانس لے کر بیٹھ جائیں گے کہ ہم نے اپنے حصے کا کام کر دیا۔ماضی سے یہی ہوتا رہا ہے۔

ہم عرض یہ کرنا چاہتے ہیں کہ کیا یہی کافی ہے؟کیا اِس رجحان کی روک تھام نہیں ہونی چاہیے؟کیا صحابہؓ کی گستاخی پر چند جماعتوں کا آواز اٹھا لینا ہی کافی ہے؟ نامی گرامی دینی قیادت اِن امور کو درخورِ اعتنا کیوں نہیں سمجھتی؟ وہ ایسے معاملات سے لاتعلق رِہ کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ کیا سیاسی مجبوریاں ایمان پر حاوی ہیں؟

دوسری بات یہ کہ آخر کون اِن سیاست دانوں، نام نہاد دانش وروں اور سلیبریٹییز کو دینی شعائر اور شخصیات کے بارے میں بلا سوچے سمجھے بولنے سے روکے گا ؟ کہاں گیا وہ تحفظ اسلام و پاکستان بل ؟ کہاں ہے نیشنل ایکشن پلان؟ کہاں ہے پیغامِ پاکستان اعلامیہ؟ کیا ایسا کوئی ضابطہ اخلاق نہیں بنایا جا سکتا کہ جس چیز کا تمھیں علم نہیں ہے اُس کے بارے میں مت بولو۔تمھارا جب دینی معلومات سے کوئی دور پرے کا بھی تعلق نہیں تو اِس پر بولتے کیوں ہو؟ کیا اپنی جہالت کا سرِ بازار بھانڈا پھوڑنا ضروری ہے؟

مسلمان، باعمل ہو یا بے عمل، مقدس شخصیات کے معاملے میں حساس اور دینی غیرت سے سرشار ہوتا ہے، تمھاری اِس قسم کی ہفوات سے معاشرے میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے، نقصِ امن کے مسائل بن سکتے ہیں ، قوم کا اتحاد و اتفاق پارہ پارہ ہو سکتا ہے ،فرقہ واریت کا جن بے قابو ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔اِس کاذمے دار کون ہے؟

تیسری بات اُن احباب، قائدین اور جماعتوں سے، جو فوری احتجاج کی روش اپناتے ہیں اور سوشل میڈیا کی ترقی کے دور میں یہ نسبتاً اور آسان ہو گیا ہے کہ بندہ جہاں کہیں بھی ہو، ایک دو ٹوئیٹس کر کے فرضِ کفایہ ادا کرے ، ان سے ہماری التجا ہے کہ از راہِ کرم ایسے لوگوں سے ایک نمائندہ وفد کی شکل میں ملاقات کر کے اُن کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرائیں، انھیں معاملے کی نزاکت کا احساس دلائیں، انھیں بتائیں کہ تم نے دہکتی ہوئی آگ میں ہاتھ ڈالا ہے ۔ اِس سے اتمامِ حجت بھی ہو جائے گی اور اگر کسی نے لاعلمی یا جہالت میں ایسا کچھ کیا ہو، جس کا اُس شخص کے عقیدے ،نظریے اور ملاقاتی وفد سے برتاو کے ذریعے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے تو وہ سچے دل سے توبہ کر لے گا، یوں اُس کی عاقبت بھی بگڑنے سے بچ جائے گی۔

یہ اتمام حجت کے بغیر فوراً مذمتی ٹوئیٹس اور مخالفانہ بیان بازی ایسے لوگوں کو بجائے ہمارے قریب لانے کے، ہم سے مزید دور کر رہی ہے، حالانکہ تقاضا یہ ہے کہ دوستوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، دشمنیاں پالنے سے صلاحیتیں دفاع میں ہی لگ جاتی ہیں، بندہ کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کر سکتا ۔

آخری بات یہ کہ ایسا کوئی سپریم دارالافتاء یا فقہی ادارہ ہونا چاپیے جو ایسے معاملات پر، جو تمام مسالک کے نزدیک متفق علیہ ہیں، فوری نوٹس لے، فتویٰ جاری کرے، روک تھام کرے، اس کا فتویٰ سب کے نزدیک قابلِ بھروسا ہو، اُسے کسی فورم پر چیلنج نہ کیا جا سکے۔آخر ہم کب ایک امت بنیں گے؟ کب ہم اِس جانب قدم بڑھائیں گے؟

مولانا جہان یعقوب
مولانا جہان یعقوبhttp://alert.com.pk
مولانا جہان یعقوب کالم نگار و بلاگر ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف اور جرائد کے مدیر ہیں۔ خطیب بھی ہیں اور آج کل جامعہ بنوریہ العالمیہ سائٹ کراچی سے وابستہ ہیں۔
متعلقہ خبریں