تحریر: اسرار ایوبی
پس منظر:
قیام پاکستان کے بعد ملک میں سرکاری، نیم سرکاری، خودمختار اور دیگر اداروں کے ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں اور ان کے لواحقین کے لئے تاحیات پنشن کی ادائیگی کا ایک باقاعدہ نظام رائج تھا ۔
لیکن بدقسمتی سے ملک میں نجی شعبہ میں خدمات انجام دینے والے ملازمین کے لئے ان کی ریٹائرمنٹ، معذوری یا وفات کی صورت میں ان کے لواحقین کے لئے پنشن کا کوئی باضابطہ نظام قائم نہیں تھا ۔ جس کے باعث ملک کے نجی شعبہ سے وابستہ لاکھوں محنت کش اور ملازمین اور ان کی وفات کی صورت میں ان کے لواحقین اپنی جائز تاحیات پنشن کے حق سے محروم رہ جایا کرتے تھے اور یہ مجبور ملازمین ملک کی معیشت کی ترقی اور پیداواری عمل میں طویل عرصہ تک اپنا خون پسینہ بہانے کے باوجود اپنی ملازمت کے اختتام پر صرف اپنے جمع شدہ پروویڈنٹ فنڈ اور گریجویٹی کی رقم وصول کرکے رخصت ہو جایا کرتے تھے ۔
نجی شعبہ کے ملازمین کے لئے پنشن کے قانون کا اجراء:
ملک کی تاریخ میں پہلی بار 1972ء میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی حکومت نے ملک کے لاکھوں محنت کشوں اور ملازمین کے اس حساس معاملہ کی نزاکت کو شدت کے ساتھ محسوس کیا اور اقتدار میں آنے کے بعد ملک کے نجی شعبہ کے لاکھوں محنت کشوں اور ملازمین کو درپیش اس اہم مسئلہ کے پائیدار حل کے لئے بھرپور توجہ دی ۔
وفاقی حکومت نے اس مقصد کے حصول کے لئے عالمی ادارہ محنت (ILO) کی سفارشات کی روشنی اور چوٹی کے سماجی تحفظ کے ماہرین کی رہنمائی میں ایک ہمہ گیر پنشن منصوبہ کا خاکہ تیار کرایا گیا اور صوبوں سے مشاورت اور اس پنشن منصوبہ پر گہرے غور و خوض کے بعد ایک مسودہ قانون تیار کیا گیا ۔ جسے بعد ازاں ضعیف العمر ملازمین فوائد منصوبہ کے نام سے قانون سازی کر کے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ۔ جہاں پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر ضعیف العمر ملازمین فوائد ایکٹ 1976 ء کو منظور کر لیا ۔
مزید پڑھیں:نیا منظر نامہ
ای او بی آئی کا قیام:
اس قانون پر عمل درآمد کے لئے جولائی 1976ء وفاقی سطح پر ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) نامی ایک قومی ادارہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔ چونکہ یہ پنشن منصوبہ لازمی سماجی بیمہ ( Compulsory Social Insurance ) کے تحت متعارف کرایا گیا تھا ۔ لہذا ای او بی آئی کے قیام کے بعد اس فلاحی ادارہ کو ملک میں صنعت بیمہ کاری کے سب سے بڑے قومی ادارہ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان (SLIC) کی زیر نگرانی اس کے ایک ماتحت ذیلی ادارہ کی حیثیت سے قائم رکھا گیا تھا ۔ لیکن 1980ء میں وفاقی حکومت نے ای او بی آئی کو وفاقی وزارت محنت و افرادی قوت و سمندر پار پاکستانی،اسلام آباد کے سپرد کر کے اسے ایک خود مختار ادارہ کی حیثیت عطا کردی تھی ۔
آئین پاکستان میں شہریوں کے لئے پنشن کی ضمانت:
آئین پاکستان کی شق 38 (c) کے مطابق لازمی سماجی بیمہ (Compulsory Social Insurance) کے تحت ملک کا ہر برسر روزگار کسی بھی نوعیت کا ملازم خواہ مستقل، عارضی، یومیہ اجرت، بدلی، موسمی زیر تربیت فرد، مزدور، کارکن اور ملازم اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ای او بی آئی کی تاحیات بڑھاپا پنشن کا حقدار ہے ۔
آجران اور ملازمین کی رجسٹریشن:
اس قانون پر عمل درآمد کرتے ہوئے ای او بی آئی ملک بھر کے ایسے تمام صنعتی، تجارتی، کاروباری، طبی، تعلیمی، رفاہی، خیراتی اور دیگر اداروں میں خدمات انجام دینے والے دس( 10) یا زائد ملازمین کے حامل آجران/ اداروں اور ان کے ملازمین کو پنشن منصوبہ میں رجسٹر کرتا ہے ۔
مزید پڑھیں:سندھ، کورونا ہیلتھ رسک الاﺅنس ختم ہونے پر سرکاری اسپتالوں کے عملے کا احتجاج
آجران سے ماہانہ کنٹری بیوشن کی ادائیگی اور شرح:
رجسٹر شدہ آجران حکومت کی جانب سے مقرر کردہ رواں کم از کم اجرت کے 6 فیصد کے مساوی ماہانہ کنٹری بیوشن ای او بی آئی کو ادا کرتے ہیں ۔ ای او بی آئی میں رجسٹر شدہ محنت کشوں اور ملازمین کو بیمہ دار فرد (Insured Person) کہا جاتا ہے ۔
پنشن کی اہلیت:
ای او بی آئی کی تاحیات بڑھاپا پنشن کی اہلیت کے لئے 15 برس کی بیمہ شدہ ملازمت اور 15 برس کی مدت کے کنٹری بیوشن کی ادائیگی لازمی ہے ۔
پنشن کی اہلیت کے لئے مقررہ عمر:
جبکہ پنشن کے لئے مرد بیمہ دار افراد کے لئے عمر کی حد 60 برس جبکہ خواتین بیمہ دار افراد اور کان کنی کے پیشہ سے وابستہ بیمہ دار افراد کے لئے 5 برس کی رعایت کے ساتھ 55 برس عمر مقرر کی گئی ہے ۔
پنشن کی اقسام:
ای او بی آئی اپنے بیمہ دار افراد کو مقررہ شرائط وضوابط کے مطابق درج ذیل کوئی ایک تاحیات پنشن ادا کرتا ہے ۔
1- تاحیات بڑھاپا پنشن
2- تاحیات پسماندگان پنشن
3- تاحیات معذوری پنشن
اور
مقررہ بیمہ شدہ مدت ملازمت کم ہونے کی صورت میں
4- یکمشت بڑھاپا امداد
مزید پڑھیں:اللہ تعالی کی عبادت و بندگی – خطبہ جمعہ مسجد نبوی شریف
خدانخواستہ بیمہ دار فرد یا پنشن یافتہ کی وفات کی صورت میں قانون کے مطابق متوفی کی/ کے شریک حیات کو 100 فیصد پنشن منتقل ہو جاتی ہے ۔
غیر شادی شدہ بیمہ دار فرد کی وفات کی صورت میں اس کے والدین کو 5 برس تک پنشن ادا کی جاتی ہے ۔
دوران ملازمت وفات کی صورت میں بیمہ دار فرد کی 36 ماہ کی بیمہ شدہ ملازمت اور کنٹری بیوشن کی بنیاد پر اس کی/ کے شریک حیات کو تاحیات پسماندگان پنشن ادا کی جاتی ہے ۔
وفاقی حکومت اور آجران/ مالکان کی ذمہ داری:
ای او بی آئی قانون مجریہ 1976ء کے تحت وفاقی حکومت اور آجران کو اس پنشن اسکیم کا مالی سرپرست مقرر کیا گیا تھا ۔ وفاقی حکومت ای او بی آئی کو سالانہ بنیاد پر مساوی امداد (Matching Grant) فراہم کرنے اور رجسٹر شدہ آجران ای او بی آئی کو رواں کم از کم اجرت کے 6 فیصد کے مساوی ماہانہ کنٹری بیوشن کی ادائیگی کے پابند ہیں ۔
وفاقی حکومت کی عدم دلچسپی اور لاپرواہی:
لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ملک میں وقتاً فوقتاً برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے ای او بی آئی کو سرے سے نظر انداز کر رکھا ہے ۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وفاقی حکومت نے اپنی قانونی ذمہ داری کے باوجود 1995ء سے ای او بی آئی کی مساوی امداد (Matching Grant) بلا جواز بند کر رکھی ہے ۔ جس کے باعث ای او بی آئی پنشن فنڈ کو زبردست خسارہ کا سامنا ہے ۔ لیکن ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود حیرت انگیز طور پر ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز اور انتظامیہ نے اس مسئلہ پر کبھی صدائے احتجاج بلند نہیں کی ۔ جبکہ ای او بی آئی کے لاکھوں بیمہ دار افراد اور پنشن یافتگان کی ایک بڑی اکثریت اس صورت حال سے قطعی لاعلم ہیں ۔
مزید پڑھیں:صغیر احمد قادیانی کو مسلمان لڑکی کے اغوا کیس میں جیل بھیج دیا گیا
اٹھارہویں آئینی ترمیم اور ای او بی آئی پر اس کے مضر اثرات :
اسی طرح 2010ء میں ملک میں ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد محنت، صحت، تعلیم اور امن و عامہ سمیت متعدد شعبے وفاق سے خاتمہ کرکے صوبوں کو منتقل کر دیئے گئے تھے ۔ لیکن چونکہ 1976ء میں ای او بی آئی کے قیام کے وقت اس فلاحی ادارہ کے اغراض و مقاصد، ڈھانچہ اور اس کی تشکیل ایک وفاقی ادارہ کی صورت کی گئی تھی ۔ لہذا ای او بی آئی کی صوبوں میں تقسیم کسی طور بھی ممکن نہیں تھی ۔ اس بٹوارہ سے ای او بی آئی کی مکمل تباہی کے خدشات پیدا ہوگئے تھے ۔
ای او بی آئی کو وفاق کے تحت برقرار رکھنے کے متعلق مشترکہ مفادات کونسل کا متفقہ فیصلہ:
چنانچہ اس تشویش ناک صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے اس مسئلہ کو مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا ۔ واضح رہے کہ مشترکہ مفادات کونسل(CCI) اٹھارہویں آئینی ترمیم کے نتیجہ میں وفاق اور صوبوں کے درمیان اداروں کی تقسیم سے متعلق پیدا ہونے والے تنازعات کے حل کے لئے ایک اعلیٰ سطحی بین الصوبائی کونسل ہے ۔ جس کے سربراہ وزیر اعظم پاکستان اور اس کے ارکان میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شامل ہوتے ہیں ۔
مزید پڑھیں:کشمور 25 روز قبل اغوا ہونے والا ٹیکسی ڈرائیور ممتازعلی ملک بازیاب نہ ہو سکا
مشترکہ مفادات کونسل نے مورخہ 23 دسمبر 2019ء کو اسلام آباد میں منعقدہ اپنے 41 ویں اجلاس میں کافی غور و خوض اور بحث کے بعد متفقہ طور پر ای او بی آئی (EOBI) اور ورکرز ویلفیئر فنڈ (WWF) کو وفاق پاکستان کے عالمی ادارہ محنت (ILO) کے ایک فعال رکن کی حیثیت سے اس کی سفارشات پر عملدرآمد کو لازمی بنانے ، ان دونوں وفاقی اداروں کے قیام کے طے شدہ اغراض و مقاصد ،بنیادی ڈھانچہ اور تشکیل اور ملک کے لاکھوں محنت کشوں ،بیمہ دار افراد اور پنشنرز کے عظیم تر مفادات کو مد نظر رکھتے ان دونوں قومی فلاحی اداروں کو وفاق کے تحت قائم رکھنے کی منظوری دی تھی ۔
ملک کی آجر برادری کا غیر ذمہ دارانہ رویہ:
لیکن مشترکہ مفادات کونسل کے اس اعلیٰ سطحی اجلاس اور واضح فیصلہ کے باوجود ملک کے آجران کی ایک بڑی اکثریت کو اٹھارہویں آئینی ترمیم کی آڑ میں اپنے اداروں کے ملازمین کی فلاح وبہبود کے قومی فریضہ سے جان چھڑانے کا ایک سنہری موقع ہاتھ آگیا ہے اور انہوں نے اس آئینی ابہام سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اور چند قانونی موشگافیوں کا سہارا لیتے ہوئے ای او بی آئی کو وفاق اور صوبہ کا تنازعہ کا قرار دیتے ہوئے ای او بی آئی کے واجب الادا کنٹری بیوشن کی ادائیگی روکنے کے لئے مختلف حیلے بہانے اختیار کرنے شروع کر دیئے اور بے شمار آجران نے تو ای او بی آئی کے کنٹری بیوشن کی وصولی کے خلاف مختلف عدالتوں میں مقدمات تک دائر کر دیئے ہیں، جو تاحال زیر سماعت ہیں ۔
مزید پڑھیں:کشمور 25 روز قبل اغوا ہونے والا ٹیکسی ڈرائیور ممتازعلی ملک بازیاب نہ ہو سکا
آجران کی اکثریت کی جانب سے کنٹری بیوشن کی قلیل ادائیگی:
موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ملک میں بدترین مہنگائی اور بلند افراط زر کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر ہنر مند کارکن کی کم از کم اجرت 25,000 روپے ماہانہ مقرر کی ہے ۔ جس کے مطابق ای او بی آئی کے فی بیمہ دار فرد کا 6 فیصد ماہانہ کنٹری بیوشن 1500 روپے بنتا ہے ۔ لیکن اس رقم کے بجائے ای او بی آئی میں رجسٹر شدہ آجران اور اداروں کی ایک بڑی اکثریت آج بھی پرانی روش پر چلتے ہوئے برسوں پرانی کم از کم اجرت کے لحاظ سے 170 روپے سے لے کر 780 روپے ماہانہ تک کی شرح سے قلیل کنٹری بیوشن کی ادائیگی کر رہی ہے ۔
ای او بی آئی پنشن فنڈ کو لاحق سنگین خطرات:
آجران اور اداروں کی جانب سے کنٹری بیوشن کی ادائیگی میں شدید کمی اور پنشن یافتگان کی تعداد میں دن بدن اضافہ کے باعث ای او بی آئی پنشن فنڈ تیزی سے تنزلی کا شکار ہے ۔ پنشن فنڈ کی اس تشویشناک صورت حال کا جائزہ لینے والے ایکچوریل ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس صورت حال میں بہتری نہ لائی گئی تو ای او بی آئی پنشن فنڈ رفتہ رفتہ ختم ہوسکتا ہے ۔ جس کا سراسر خمیازہ صرف اور صرف ملک کے لاکھوں محنت کشوں، بیمہ دار افراد اور بزرگ، معذور اور بیوگان پنشن یافتگان کو بھگتنا پڑے گا ۔
مزید پڑھیں:جے ڈی سی فاونڈیشن کی جانب سے لیاری میں فری ڈائلیسز سینٹر قائم
سندھ ہائیکورٹ کا صائب فیصلہ:
جبکہ کچھ عرصہ قبل سندھ ہائی کورٹ نے بھی متعدد آجران اور اداروں کی جانب سے دائر شدہ ایک ایسی ہی ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ جب تک اعلیٰ سطح پر ای او بی آئی کی قسمت کا فیصلہ نہیں ہو جاتا ، اس وقت تک ای او بی آئی کے لاکھوں بیمہ دار افراد اور پنشن یافتگان کے مفادات کے تحفظ کا تقاضہ ہے کہ آجران اور ادارے ای او بی آئی کو حسب دستور رواں کم از کم اجرت کے مطابق کنٹری بیوشن کی ادائیگی کرتے رہیں ۔ لیکن سندھ ہائیکورٹ کے اس واضح فیصلہ کے باوجود اکثر آجران اور ادارے بدستور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں ۔
ماہانہ پنشن کی موجودہ شرح:
ای او بی آئی پنشن کی موجودہ کم از کم شرح 8,500 روپے ماہانہ جبکہ زیادہ سے زیادہ ماہانہ پنشن کا تعین پنشن فارمولا کے مطابق کیا جاتا ہے ۔
پنشن میں اضافہ کا مطالبہ:
ای او بی آئی پنشن میں پچھلا اضافہ جنوری 2020ء میں کیا گیا تھا ۔ لیکن ملک میں موجودہ بدترین مہنگائی اور افراط زر کی بلند شرح نے ہر طبقہ کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ اس پر آشوب دور میں ای او بی آئی کے پنشن یافتگان کی معاشی حالت شدید طور سے متاثر ہوئی ہے ۔ بدترین مہنگائی کے اس دور میں محض 8٫500 روپے ماہانہ کی پنشن میں میاں بیوی کا باعزت گزر بسر کیسے ممکن ہے جبکہ ضروری ادویات اور علاج و معالجہ تو ان کی دسترس سے باہر ہوگیا ہے ۔
لیکن ای او بی آئی قانون مجریہ 1976ء کی دفعہ21 کے مطابق ای او بی آئی کو کنٹری بیوشن اور پنشن کی شرح میں کسی قسم کے ردوبدل سے قبل ہر تین برس کے وقفہ میں ادارہ کے اثاثہ جات اور واجبات کی تخمینہ کاری ( Actuarial Valuation ) کرانا لازمی ہے ۔ اب جبکہ سال 2023ء کی آمد آمد ہے، لہذا ای او بی آئی کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ جلد از جلد ای او بی آئی کے اثاثہ جات اور واجبات کی تخمینہ کاری کے عمل کا آغاز کرے ۔ تاکہ آئندہ برس ماہ جنوری سے پنشن میں کما حقہ اضافہ ممکن ہوسکے ۔
پنشن یافتگان کے لئے سہولت:
ای او بی آئی ملک میں ATM کارڈ کے ذریعہ پنشن کی فراہمی کا اولین ادارہ ہے ۔ اس سہولت کی بدولت پنشن یافتگان جب چاہیں جہاں چاہیں اپنی پنشن وصول کرسکتے ہیں ۔ واضح رہے کہ بینک دولت پاکستان کے خصوصی احکامات کے تحت بینک الفلاح لمیٹڈ کے علاوہ کسی اور بینک کی ATM مشین کے ذریعہ پنشن کی وصولی کی صورت میں پنشن یافتگان پر کوئی اضافی چارجز لاگو نہیں ہوتے۔
پنشن یافتگان کی کل تعداد:
اس وقت ملک بھر میں چار لاکھ سے زائد بیمہ دار افراد ای او بی آئی سے ماہانہ پنشن حاصل کر رہے ہیں ۔ جن میں ضعیف العمر معذور اور بیوگان شامل ہیں۔