برنس روڈ کی اصل اور پرانی سوغاتوں میں فریسکو سوئٹ، دل بہار و پنجاب لسی ہاؤس، انور کٹاکٹ، سلیم بھائی والے دہلی دہی بڑے، ملک نہاری، وحید ہوٹل اور دہلی ربڑی ہاؤس (جو کبھی ٹھیلا ہوا کرتا تھا) اب بھی آب و تاب سے موجود ہیں۔
اور جو نہیں رہیں۔ ان میں ملک صغیر دہلی نہاری، پہلوان پایا، ہیو مور آئس کریم قابلِ ذکر ہیں۔ انہیں آج بھی علاقے کے قدیم رہائشی یاد کرتے ہیں۔ اور ہمیں سب سے زیادہ یاد آتی ہے "گونگے بن کباب والے” کی۔ ملک صغیر دہلی نہاری ہوٹل سے چند قدم آگے، فٹ پاتھ کے کنارے یہ ٹھیلا ہوا کرتا تھا۔
وہ جو بن کباب آج بابو بھائی کے نام سے ال مشہور ہیں۔ وہ سب سے پہلے 1972ء میں گونگے کے ٹھیلے ہی سے متعارف ہوئے تھے۔ ان صاحب کا نام تو شاید ہی کسی کو معلوم ہو، لیکن جناب انتہائی درجے کے کم گو تھے۔ ہوں، ہاں بھی شاذ و نادر ہی کرتے۔ غالباً اسی وجہ سے کسی ستم ظریف نے گونگے کی پھبتی کسی ہوگی، جو ایسی چپکی کہ سب لوگوں کی زباں پر گونگے کے بن کباب کی جاپ ہوگئی۔
چوکور نرم پاؤ میں پھینٹے ہوئے انڈے کا لیپ چڑھا کر تلے گئے مسور کے کباب۔ بیچ میں ہرے دھنیئے، پودینے، ہری مرچ اور املی کی چٹنی۔ ساتھ پیاز کی ہوائیاں۔ اور قیمت صرف آٹھ آنے۔ لذت کی اس دکاں پر مغرب سے رات گیارہ بجے تک چٹوروں کا ہجوم رہتا۔
پھر ہوا یوں کہ سڑک پار، دو نمبر گلی کے کونے پر وحید ہوٹل کے سامنے بن کباب کا ایک ٹھیلا اور لگ گیا۔ یہ تھے خوش شکل، خوش لباس اور خوش مزاج بابو بھائی۔ دورِ جوانی ایسا کہ ہزاروں نہیں، لاکھوں میں ایک۔ آنکھیں اور ہیئر اسٹائل بالکل وحید مراد کی کاپی۔ بابو بھائی نے کچھ اختراع بھی کی۔ وہ یہ کہ انڈے اور مسور کے کباب کے ساتھ آلو کے کباب بھی متعارف کرائے۔ کچھ تو ذائقہ اور کچھ ان کی خوش گفتاری، دیکھتے ہی دیکھتے بابو بھائی کے بن کباب برنس روڈ، رتن تلاؤ سے پاکستان چوک تک مقبول ہوگئے۔ اسی دور میں آرام باغ کے کونے پر بھی اسی طرح کے بن کباب کا ٹھیلا لگا۔ وہ بھی اب پوری کراچی میں مشہور ہے۔ لیکن جو بات گونگے کے بن کباب میں تھی، ہمیں تو اب تک کہیں نہ مل سکی۔