منگل, ستمبر 26, 2023
منگل, ستمبر 26, 2023
- Advertisment -

رپورٹر کی مزید خبریں

اسلاممیں مسلمان کیوں؟ دوسری قسط

میں مسلمان کیوں؟ دوسری قسط

اسلامی تعلیمات کی حفاظت:

اسلام کی دوسری خصوصیت جو کہ اسلام کی حقانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے، وہ یہ کہ نبی کریمﷺ کے زمانہ نبوت سے آج تک ہزار ہا برس گزرنے کے باوجود اسلامی تعلیمات مکمل محفوظ ہیں۔ اس دوران روئے زمین پر کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں، متعدد انقلاب برپا ہوئے، کرہ ارض تغیرات و حوادثات کا شکار ہوئی، مختلف نشیب و فراز آئے، کئی مذاہب اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکے اور آسمانی کتب تحریفات کا شکار ہو گئیں لیکن ان تمام تر تغیرات و حوادثات اور نشیب و فراز کے باوجود اسلامی تعلیمات کا سرچشمہ حرف بحرف محفوظ رہا۔ تحریف کی دو صورتیں ہوتی ہیں، ایک یہ کہ الفاظ بدل دئیے جائیں دوسرا الفاظ تو باقی رہیں لیکن ان کا معنی و مفہوم بدل دیا جائے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم کی لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے حفاظت کی۔

قرآن کریم کی لفظی حفاظت:

قرآن کریم کی حفاظت کی کا وعدہ اللہ تعالٰی نے نزول قرآن کے وقت ہی کیا تھا، چنانچہ سورہ الحجر آیت نمبر9 میں فرمایا:
یقینا ہم نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
حفاظت قرآن کے متعلق وعدہ الہی پوری ہوا اور آج تک قرآن کریم ایک ایک حرکت کے ساتھ محفوظ ہے۔قرآن کریم کی حفاظت کے لئے اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کے قلوب کا انتخاب کیا۔ نبی کریمﷺ کے زمانے میں سینکڑوں صحابہ کرام قرآن کریم کے حافظ تھے، اس زمانے سے لے کر آج تک ہر دور میں تواتر کے ساتھ قرآن کریم کے ہزاروں حفاظ رہے جنہوں نے قرآن کریم کے تمام الفاظ کو زیر و زبر اور تمام حرکات کے ساتھ سینوں میں محفوظ کیا، جس کے نتیجہ میں قرآن کریم کو حفاظت کے لئے لکھے ہوئے نسخوں کی احتیاج نہ رہی۔ ہر زمانے میں مختلف انداز میں قرآن کریم کو بدلنے کی کوششیں ہوئیں لیکن کوئی کوشش کارگر نہ ہوئی۔ کبھی قرآن کریم کے نسخے شہید کر کے اس کا وجود ختم کرنے کی کوشش کی گئی، کبھی قرآن کریم کی طباعت میں مختلف تبدیلیاں کر کے چھپوا کر تحریف کی کوشش کی گئی لیکن ہر دور کے حفاظ نے ان غلطیوں کی نشاندہی کر کے اس کوشش کو ناکام بنایا۔

قرآن کریم کو بدلنے کے متعلق تمام باطل قوتوں کی ناکامی کی پیشن گوئی اللہ تعالٰی نے روز اول سے کر دی تھی، ارشاد باری تعالٰی ہے:
جس تک باطل کی کوئی رسائی نہیں ہے نہ اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے یہ اس ذات کی طرف سے اتاری جا رہی ہے جو حکمت کا مالک ہے، تمام تعریفیں اسی کی طرف لوٹتی ہیں۔سورۃ فصلت : 42
اسی حفاظت کا مظہر ہے کہ قرآن کریم کا نسخہ چاہے پاکستان سے لیا جائے، یا مصر سے، یا افریقہ سے، یا یورپ سے یا دنیا کے کسی بھی خطے سے لیا جائے، سب نسخے ایک جیسے ہیں اور کسی میں کوئی ذرہ بھر فرق نہیں ملے گا۔

تلفظ و ادائیگی کی حفاظت:

قرآن کریم کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کے پڑھنے کے طریقے کی بھی اللہ تعالٰی نے حفاظت کا ایسا انتظام فرمایا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ قرآن کریم کو صرف پڑھنا کافی نہیں بلکہ اس کے حروف کو صحیح ادائیگی اور تلفظ کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے نبی کریمﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ جیسے جبریل امین ہماری طرف سے پڑھا رہے ہیں اسی طرح آپ پڑھیں۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:
پھر جب ہم اسے (جبرائیل کے واسطے سے) پڑھ رہے ہوں تو تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔ القیامہ:18
اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے علماء فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کو حروف کی صحیح ادائیگی اور تلفظ کے ساتھ پڑھنا واجب ہے، قرآن کریم کو صحیح تلفظ کے ساتھ ادائیگی کے علم کو بھی علمائے امت نے محفوظ کیا اور اس کو علم التجوید کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم کو جہاں یاد کرنے والے ہر زمانے میں موجود رہے وہیں اس کو صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنے اور پڑھانے والے موجود رہے اور امت کی رہنمائی کرتے رہے۔

قرآن کی معنوی حفاظت:

قرآن کریم کو اللہ تعالٰی نے معنوی طور پر بھی محفوظ رکھا اور ہر قسم کی باطل تاویلات سے مبرا کیا، وجہ یہ ہے کہ اگر صرف الفاظ محفوظ رہیں اور معانی میں تبدیلی کر کے من پسند تشریحات و مفاہیم بیان کئے جائیں تو بھی مقصود فوت ہو جاتا ہے اور کلام کی افادیت باقی نہیں رہتی۔ اس لئے معنوی طور پر حفاظت کے لئے صاحب قرآن نبی کریمﷺ کے تمام افعال و اقوال اور آپﷺ کی حیات طیبہ کے تمام گوشوں کو محفوظ بنایا۔ چنانچہ نبی علیہ السلام کی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، گھریلو زندگی ہو یا معاشرتی، عبادت ہو یا معاملات ہوں، جہاد ہو یا امن عالم کی دعوت، تجارت ہو یا اقتصادی معاملات ہوں، بارگاہ الہی میں مناجات ہو یا شب و روز کا رہن سہن، ایک ایک ادا کو محفوظ بنایا گیا اور نبی علیہ السلام کی حیات طیبہ کا یہ مکمل ورثہ آج بھی امت کے پاس نسبت کے ساتھ موجود ہے۔

قرآن کریم کلام الٰہی ہے اس لئے اس کی تشریح کا حق بھی اللہ تعالٰی کو ہے، اللہ تعالٰی نے نبی علیہ السلام کو اپنا نائب اور قاصد بنا کر تعلیمات اسلامیہ کا شارح بنایا۔ چنانچہ نبی علیہ السلام قرآن کی عملی تفسیر تھے اور آپ کی احادیث قرآن کی اولین تشریح ہیں، صحابہ کرام کو معانی و مفاہیم میں اگر اشتباہ ہوتا تو نبی علیہ السلام سے استفسار کرتے اور نبی علیہ السلام ان کی رہنمائی کرتے۔

صحابہ کرام براہ راست وحی الہی کے شاہد اور دربار نبوت کے صحبت یافتہ تھے، اس لئے ان کے اقوال و آثار کو بھی محفوظ رکھا تاکہ امت اس مقدس جماعت کے ذریعے قرآن و سنت کا صحیح مفہوم اور منشائے نبوت سمجھ سکے۔ علمائے امت نے ورثہ نبوت کو ناموں سمیت محفوظ بنایا اور اس ورثہ کی حفاظت کے لئے درجنوں علوم مدون کئے۔

آسمانی پیغمبر و دیگر مذاہب کے کسی پیشوا کے حالات زندگی کی اس قدر حفاظت کا اہتمام کا تصور سوائے اسلام کے کہیں اور نہیں ملتا، کرہ ارض پر مختلف مذاہب کے پیروکار اپنے پیشوا اور مقتدا کے حالات اس قدر تفصیل کے ساتھ نہیں پیش کر سکتے اور نہ ہی اپنی مذہبی کتاب کے تحریف سے پاک ہونے کا دعوی کر سکتے ہیں بلکہ کئی مذاہب تو اپنے پیشواؤں کی زندگی کے متعلق بنیادی معلومات بھی متحقق انداز سے پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسلامی تعلیمات کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کسی مخلوق سے ممکن نہیں بلکہ یہ خالق کائنات کی طرف سے ہی ہو سکتا ہے جیسا کہ سطور بالا میں آیات گزر چکی ہیں۔ یہ اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے اور اسلام کے خالق کائنات کی طرف سے نازل شدہ اور پسندیدہ دین ہونے کا ثبوت ہے۔
سخن سعدی

محمد سعد سعدی
محمد سعد سعدیhttp://alert.com.pk
محمد سعد سعدی راولپنڈی کی جامع مسجد شاہ نذر دیوار خطیب ہیں، آپ سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل ضلع راولپنڈی بھی ہیں۔
متعلقہ خبریں