کراچی : ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل میں بے نامی اکاوئنٹس کی انکوائریوں پر تحقیقات شروع نہیں کی جا سکیں ،ایک برس سے التوء کا شکار انکوائریوں پر درخواست گزار نے ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی کو تحریری شکایت کر دی ۔
ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل میں تفتیشی افسران کی نااہلی اور اعلیٰ افسران کی عدم دلچسپی سے اربوں روپے کے فراڈ کی انکوائریاں مقدمات میں تبدیل نہیں ہو سکی ہیں جس سے ایف آئی اے کراچی کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا ہے ۔
واضح رہے کہ درخواست گزار عبدالروف عیسیٰ ولد عیسیٰ عثمان نے شواہد کے ساتھ ایف آئی اے کو دی ہوئی ہے جس کے خلاف انکوائری شروع نہیں ہو سکی ہے ۔ ایف آئی اے میں تفتیشی افسران کی نااہلی ،بے نامی اکاوئنٹس کی انکوائریوں پر ایک برس سے تحقیقات کو مقدمات میں تبدیل نہیں کیا جا سکا ، درخواست گزاروں اور انکوائری کی زد میں آنے والے دونوں فریقین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، ایف آئی اے افسران درخواست گزاروں کی شکایات سے زیادہ سورس رپورٹ پر کارروائی کو ترجیح دینے لگے ہیں۔
ایف آئی اے کراچی میں بے نامی اکاوئنٹس کی متعدد درخواستوں کو تفتیشی افسران کی نااہلی سے منطقی انجام تک پہنچایا نہیں جا سکا ہے ۔ واضح رہے کہ ایف آئی اے زونل آفس میں بے نامی اکاوئنٹس کی تحقیقات کی لئے جمع ہونے والی شکایات کو ایف آئی اے کے کمرشل بینکنگ سرکل میں ویری فیکیشن کے لئے بھیجا جاتا ہے اور تفتیشی افسر کی رپورٹ پر ہی اسی درخواست کو انکوائری میں تبدیل کیا جاتا ہے ۔
اسی طرح کی شکایات پر ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل میں انکوائری نمبر 113/2021,137/2021,1382/021 اور 139/2021 کو ویری فیکشن کے عمل سے انکوائری میں رجسٹرڈ کیا گیا جس میں درخواست گزار کی جانب سے ان انکوائریوں میں شامل افراد محمد ہارون ،محمد دانش ،محمد زیشان ،کاشان ہارون ،تحسین ہارون ،محمد جاوید سید اعجاز حسن محمد یوسف محمد اشفاق اور آفتاب یونس پر الزام عائد کیا ہے کہ انکوائری کی زد میں آنے والے ان افراد نے مبینہ طور پر مختلف نجی بینکوں میں کھولے گئے بے نامی اکاوئنٹس کے ذریعے ٹیکس چوری ،اسمگلنگ منی لانڈرنگ سمیت دیگر جرائم کے ذریعے اپنے کاروبار کو غیر قانونی طور پر منافع کمانے کے لئے استعمال کیا ہے ۔
ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل میں یہ درخواستیں ویری فیکشن کے عمل میں چھ ماہ تک رہی جس کے بعد اسے انکوائریوں میں تبدیل کیا گیا لیکن یہ انکوائریاں ایک سال سے درخواست گزار اور الزامات کی زد میں آنے والے دونوں فریقین پر لٹک رہی ہے ۔ ان انکوائریوں میں درخواست گزار نے سینکڑوں صفحات شواہد کے طور پر ایف آئی اے کو پیش کئے ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے تفتیشی افسران ایسی انکوائریوں میں الجھنے کے بجائے تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں ۔ جس سے ایف آئی اے کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے ۔ اگر ایف آئی اے کے پاس شواہد ہیں اور ان شواہد کی تصدیق ہوتی ہے تو ان انکوائریوں کو مقدمات میں تبدیل کر دینا چائیے اور اگر شواہد کی تصدیق نہ ہو تو ان انکوائریوں کو فوری ختم بھی کر دینا چائیے تاکہ ایف آئی اے پر بوجھ کم ہو اس طرح کے اقدام سے سالانہ رپورٹ میں ایف آئی اے کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہیں ۔
یاد رہے کہ ایک برس میں ایف آئی اے کراچی میں سورس رپورٹ کے ذریعے حوالہ ہنڈی ،منی لانڈرنگ سمیت دیگر مالیاتی اسکینڈل کی تحقیقات کو انکوائریوں میں تبدیل کرنے پر زور دیا گیا ہے جب کہ ماضی میں ایف آئی اے کے افسران پر سورس رپورٹ پر ہی کئی انکوائریاں درج ہوئیں اور یہ انکوائریاں مبینہ طور پر بھاری رشوت وصولی کے الزامات پر مقدمات میں بھی تبدیل کی گئی ہیں ۔
یاد رہے کہ گزشتہ ایک برس سے ایف آئی اے کے اہم سرکل کمرشل بینکنگ سرکل میں ناتجربہ کا ر ڈپٹی ڈائریکٹر کی تعیناتی سے انکوائریوں کی نگرانی درست انداز میں نہیں ہورہی ہے جس پر بیشتر انکوائریاں صرف ایف آئی اے کے ریکارڈ میں ہی درج ہیں لیکن تفتیشی افسران ان انکوائریوں پر تفتیش آگے نہیں بڑھا سکے ہیں ۔