الحمد للہ میری پیدائش ایک مسلمان دینی گھرانے میں ہوئی۔ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود میں صرف جدی پشتی مسلمان نہیں بلکہ ایک فکری و نظریاتی مسلمان ہوں جس نے دین کو اور اس کی تعلیمات کو پڑھا اور اپنی بساط کی حد تک سمجھنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں پورے شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ کرہ ارض پر سچا دین صرف اسلام ہے جو کہ شریعت محمدی کی صورت میں موجود ہے۔ ذیل میں اسلام کی حقانیت و امتیازات کو واضح کرتے ہوئے اختصار کے ساتھ ذکر کریں گے۔
اسلام اللہ تعالٰی کے ان قوانین کے مجموعے کا نام ہے جو اس نے اپنے بندوں کی فلاح و بہبود کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے نازل فرمائے۔ مختلف زمانوں میں مختلف انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لاتے رہے اور ان قوانین سے امت کو بہرہ ور فرماتے رہے اور ان کی اصلاح کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کے بعد سب سے آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے اور آپ علیہ السلام کے ذریعے اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کی فلاح و ترقی کے لئے قوانین نازل فرمائے اور ان قوانین کو رہتی دنیا تک کے لیے واجب العمل قرار دیا اس لئے ہم نے ذکر کیا کہ اسلام بصورت شریعت محمدی ہی اب سچا دین ہے۔ اسلام کی خصوصیات و امتیازات اس کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ذیل میں کچھ خصائص کا ذکر کریں گے۔
پہلی خصوصیت عقیدہ:
اسلام کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو محض خیالات و گمان، توہمات اور شکوک و شبہات کی تاریکیوں سے نکال کر ایک واضح اور یقین کے راستے پر ڈالتا ہے اور اس کو ایک مضبوط اور مستحکم بنیاد پہ کھڑا کرتا ہے اسی کو عقیدہ کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے اس کو کلمہ طیبہ سے تعبیر کیا جس کی بنیاد مضبوط اور شاخیں اتنی بلند کہ آسمانوں کو چھووئیں۔ عقیدہ کو اسلام سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے، فلاح کی بنیاد اور اعمال کی قبولیت کا مدار بھی عقیدے پر کرتا ہے۔
توحید:
اسلام کا پہلا اور بنیادی عقیدہ توحید ہے۔ توحید کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کو کائنات کا خالق و مالک، مدبر و منتظم اور اپنی ذات و صفات میں یکتا ماننا۔ اللہ تعالٰی کی ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، وہ اپنی ذات کے وجود میں کسی کی محتاج نہیں۔ اللہ تعالٰی کی معرفت کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی صفات کے ذریعے معرفت حاصل کی جائے، اللہ تعالٰی نے اپنی بے شمار صفات ذکر کی ہیں اور فرمایا کہ اللہ کو ان صفاتی نام سے پکارو۔ ان صفات میں غور و فکر کر کے اللہ تعالٰی کو پہچانا جا سکتا ہے کہ یہ تمام صفات دنیا میں بدرجہ اتم کسی شخصیت میں نہیں ہیں، یہ ساری صفات صرف اللہ تعالٰی ہی کی ذات میں پائی جاتی ہیں تو معبود کہلانے کا حق دار بھی وہی ہے۔فقط اللہ کو ایک مان لینا اور خالق کائنات تسلیم کر لینا توحید کے لئے کافی نہیں، کیونکہ اتنی توحید تو کئی مشرکین کو بھی حاصل تھی۔ البتہ وہ تدبیر و انتظام میں اپنے دیوتاؤں اور مورتیوں کو باوجود مخلوق کے اللہ تعالٰی کے ساتھ شریک سمجھتے تھے، مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں، یہود عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا اور عیسائی عیسی علیہ السلام کو اللہ بیٹا قرار دیتے تھے۔ اللہ تعالٰی نے ان تمام باطل عقائد کی نفی کرتے ہوئے سورہ الاخلاص میں مکمل توحید کا خلاصہ بیان کر دیا کہ اللہ تعالٰی کی ذات وحدہ لاشریک ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں، وہ اولاد کے عیب سے پاک ہے اور اس کے ہم پلہ ہم مثل ہمسر کوئی نہیں ہے۔
اگر انسان غور کرے تو توحید فطرت انسانی کا تقاضا ہے، انسان جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور سارے سہارے اور امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں تو وہ اپنے تمام دیوتاؤں اور باطل معبودوں کو بھول کر فقط ایک خالق کائنات اللہ کو پکارتا ہے اور مدد کا طالب ہوتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ توحید فطرت انسانی کا تقاضا ہے اگرچہ وہ مصیبت کے زائل ہونے کے بعد پھر اس فطرت کی آواز کو بھلا بیٹھتا ہے اور شرک کرنے لگتا ہے۔
رسالت:
دوسرا بنیادی عقیدہ رسالت کا ہے۔ اللہ تعالٰی کو معبود تسلیم کر لینے کے بعد عبودیت کا تقاضا ہے کہ اس کی اطاعت و بندگی کی جائے۔ اطاعت کے لئے اوامر و نواہی کا علم ہونا ضروری ہے، اس علم کے حصول کے لیے نبوت و رسالت کی ضرورت پڑتی ہے۔ رسالت کائنات کا بلند ترین منصب ہے جو اللہ تعالٰی اپنے بندوں میں سے منتخب کردہ شخصیات کو عطا کرتا ہے۔ رسول اللہ کا قاصد ہوتا ہے، وہ اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچاتا ہے اور انہیں اللہ تعالٰی کی بندگی پر لانے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ انبیاء کرام ہر زمانے میں تشریف لاتے رہے، انبیاء کرام کی نبوت کو تسلیم کرنا، ان کی اطاعت کرنا اور ان کا فیصلہ دل و جان سے تسلیم کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام اللہ تعالٰی کے احکامات پر مشتمل صحائف و کتب بھی ساتھ لاتے یا سابقہ کتاب کی تعلیم دیتے۔ تمام انبیاء کرام اور ان پر نازل ہونے والے صحائف و کتب پر ایمان لانا بھی عقیدہ رسالت کا حصہ ہے۔ اس جماعت کے سرخیل امام الانبیاء نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے آخر میں مبعوث ہوئے اور قیامت تک آنے والی تمام زمانوں کی تمام انسانیت کے لئے نبی و رسول بنا کر ختم نبوت کا تاج آپ کے سر سجا دیا گیا۔ گویا اب نبی علیہ السلام کو صرف نبی مان لینا کافی نہیں بلکہ آپ علیہ السلام کو آخری نبی ماننا ایمان کا لازمی جزو ہے۔
فرشتے:
فرشتے اللہ کی نورانی مخلوق ہیں۔ رسالت کو ماننے کے بعد وحی کو ماننا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ انبیاء کرام پر احکامات کے نزول کا ایک بہت بڑا ذریعہ یہ تھا کہ وہ فرشتوں کے ذریعے وحی بھیجتا ہے اور اپنا پیغام پہنچاتا ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام پر وحی لانے والے معزز فرشتے سیدنا جبریل امین تھے جن کی امانت و دیانت اور مطیع و فرمانبردار ہونے کی گواہی خود اللہ تعالٰی نے قرآن میں دی۔ اسی طرح دیگر فرشتے اللہ تعالٰی کے حکم کے مطابق تسبیح و تحمید اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشغول رہتے ہیں۔
آخرت:
عقیدہ آخرت اسلام کی تیسرا بنیادی عقیدہ ہے۔ عقیدہ آخرت یہ ہے کہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے اور اسے اعمال کے مطابق اچھے اور برے نتائج کا سامنا کرنا ہے۔ اس عقیدے کے ذریعے انسان میں جزا و سزا کا تصور پیدا ہوتا ہے، اللہ کے حضور جواب دہی کا احساس ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے اس عقیدے کو مختلف زاویوں سے بیان کر کے سمجھایا۔ ایک زاویہ یہ ہے اللہ تعالٰی انسانی تخلیق کے تمام مراحل ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں جو اللہ تمہیں پہلی بار پیدا کر سکتا ہے وہ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر کیوں نہیں؟ جیسا کہ سورہ الحج کی آیت 5، سورہ المؤمنون کی آیت 14 اور القیامہ کی آخری آیت میں موجود ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اللہ مردہ زمینوں کے زندہ ہونے کا ذکر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی آسمان سے بارش برسا کر بنجر اور مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے اور وہ دوبارہ کاشت کے قابل ہو جاتی ہے، پھر اس سے استدلال کر کے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ اسی طرح اللہ تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرے گا۔ جیساکہ سورہ روم کی آیت 50 اور سورہ فاطر کی آیت 9 میں ہے۔
عقیدہ آخرت انسانی عقل کے عین مطابق ہے۔ اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بہت سے لوگ رحم دلی کرتے ہیں، اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور خلق خدا کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرتے ہیں لیکن انہیں زندگی میں اس کا کوئی بدلہ نہیں ملتا، اسی طرح بعض لوگ ظلم و تشدد کرتے ہیں، لوٹ مار کرتے ہیں، نا انصافی کرتے ہیں لیکن انہیں اس دنیا میں کوئی سزا نہیں ملتی۔ اللہ تعالٰی کی ذات جو سراپا عدل ہے، یہ بات اس کی شایان شان نہیں کہ فرمانبردار اور مجرم برابر ہو یعنی ایک انسان ظلم و تشدد کرے اور اس کو کوئی سزا نہ دی جائے اور جس نے زندگی بھر اچھے اعمال کئے اس کو کوئی انعام نہ ملے، یقینی طور پر ہمیں اس زندگی کے علاوہ ایک اور زندگی کو ماننا پڑے گا اور وہ زندگی آخرت ہی ہے۔ عقیدہ آخرت کا اجتماعی سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ معاشرے میں احساس جواب دہی پیدا ہوگا اور برائیوں کا خاتمہ ہوگا۔
تقدیر:
انسان کو پیدا کر کے اللہ تعالٰی نے اس کی آزادی کی حدود و قیود بھی بیان کر دیں۔ ایک طرف یہ کہ انسان کو قدرت و ارادہ کا اختیار دیا جبکہ دوسری طرف انسان کا ارادہ و قدرت اللہ کی قدرت و مشیت کے تابع ہے۔ اللہ تعالٰی کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں، لیکن انسان کو ہر حکم کی حکمت سمجھ آ جانا بھی ممکن نہیں ہے۔ اس لئے ہر اچھائی اور برائی کو اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے انسان کو اس کی تقدیر پہ راضی رہنا چاہئے۔ عقیدہ تقدیر غم دکھ اور پریشانی میں ایک مومن کا سب سے بڑا سہارا ہوتا ہے جبکہ کافر اس نعمت سے محروم رہتا ہے۔