جرجان سے طوس جانے والا قافلہ دامن ِ کوہ میں پہنچا ہی تھا کہ اچانک پہاڑ کی کمین گاہ سے ڈاکو اس پر ٹوٹ پڑے اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا۔ اسی دوران ڈاکوؤں کے سردار نے دیکھا کہ قافلے کا ایک نو عمر لڑکا اپنا تھیلا ادھر ادھر چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اسے پکڑ کر سردار کی خدمت میں لایا گیا، لڑکے نے تھیلا سینے سے چمٹا لیا تھا۔ سردار نے وہ تھیلا اس سے چھین لیا تو وہ لڑکا منت سماجت اور گریہ زاری کرتے ہوئے کہنے لگا:
تھیلے میں جو کچھ نقدی ہے وہ آپ لے لیں، مگر جو کاغذات اس میں ہیں وہ براہ کرم مجھے لوٹا دیں ۔سردار بڑی حیرت سے بچے کو دیکھنے لگا کہ خلاف معمول اسے نقدی کی فکر تو ہے نہیں، مگر ان کاغذات کی بڑی فکر ہے، آخر کیوں؟
جب سردار نے اس کی وجہ پوچھی تو بچے نے اسے بتایا کہ ان اوراق میں میرا وہ علمی سرمایہ ہے، جو میں نے بڑے مصائب جھیل کر سفر کی تلخیاں سہہ کر حاصل کیا ہے، اگر یہ مجھ سے چھن گیا تو میں اپنے اس عزیز ترین علمی سرمایہ سے محروم ہو جاؤں گا۔
سردار چند لمحوں کے لیے حیرت میں ڈوب گیا، پھر اس کی آواز ابھری:
صاحبزادے! وہ علم کس کام کا، جس کو میرے جیسے ڈاکو لے اڑیں، ہم تو یہ سنتے آئے ہیں کہ علم وہ دولت ہے، جسے کوئی چرا نہیں سکتا۔ یہ کہا اور تھیلا بچے کی جانب پھینک دیا۔
اس کی بات تو ختم ہوگئی مگر ادھر بچے کے دل و دماغ میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ سردار کے الفاظ بار بار اس کے ذہن میں گونج رہے تھے:
وہ علم کس کام کا جس کو میرے جیسے ڈاکو لے اڑیں۔
سوچتے سوچتے اس بچے نے اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ کرلیا، وہ یہ کہ اب لکھے ہوئے علم پر بھی انحصار نہیں کرے گا، جو کچھ سیکھے گا، اسے قرطاس و قلم کے حوالے کرنے کی بجائے دل و دماغ میں نقش کرے گا۔
نو عمر لڑکے کے اس فیصلہ نے اس کی زندگی کا رنگ ہی بدل ڈالا اور پھر زمانے نے اس بچے کو امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے پہچانا، جو علمی دنیا کا درخشندہ ستارہ بن کر آج تک جگمگا رہا ہے۔
ہر واقعہ بے مثال، ص: 30