اس مضمون میں سورہ احقاف سے سورہ طور تک کی سورتوں کا خلاصہ پیش کیا جائے گا۔ الاحقاف مکی سورت ہے۔ سورت کے آغاز میں قرآن کے کلام الہی کا اعلان کرنے کے بعد اللہ تعالٰی نے زمین و آسمان کی تخلیق کا ذکر اور پھر مشرکین سے سوال کیا کہ اللہ کے ساتھ کوئی شریک ہے جس نے زمین و آسمان بنانے میں مدد کی ہو، اگر کوئی ہے تو اس کا وجود دلیل سے ثابت کرو۔ عاجز آنے کے باوجود انکار پر آخرت کے عذاب سے ڈرایا۔ اگلی آیات میں مشرکین کا قرآن پر اعتراض نقل کیا کہ وہ کہتے اگر یہ خیر کی چیز ہوتی تو ہم ان کمزوروں اور فقیروں سے پہلے ہی ایمان لے آتے۔ حالانکہ یہ لوگ تورات کا بھی پہلے انکار کر چکے تھے جبکہ قرآن اسی کی تصدیق کرتا ہے، اگر وہ کتاب درست تھی تو کیوں انکار کیا تھا؟
اس کے بعد دو طبقات کا ذکر کیا کہ ایک اہل ایمان ہیں جو اپنے ایمان پہ ثابت قدم رہتے ہیں دوسرے وہ جو والدین کے دینی نصائح پر عمل نہیں کرتے انہیں عذاب سے ڈرایا۔ اگلی آیات میں قوم عاد کا ذکر کیا کہ انہوں تکبر میں آ کر پیغمبر کو جھٹلایا، جس کے نتیجے میں عذاب کے بادل آئے تو خوش ہوئے کہ گرمی کے موسم میں بارش ہوگی موسمی گرمی کم ہو جائے لیکن وہ بادل عذاب کے تھے، جس کی وجہ سے یہ عذاب تباہی کا شکار ہوئے۔ اس کے بعد ان جنات کا ذکر کیا جو قرآن سن کر ایمان لائے اور آخر میں نبی علیہ السلام کو باقی انبیاء کرام کی طرح صبر کی تلقین کی گئی۔
سورہ محمد مدنی سورت ہے۔ یہ سورت ان سورتوں میں سے ہے جن میں نبی علیہ السلام کا نام نامی اسم گرامی آیا ہے۔ سورت کے آغاز میں اہل ایمان سے گناہوں کی معافی اور حالت کی بہتری کا وعدہ کیا جبکہ کفار کو متنبہ کیا کہ کفر کی وجہ سے ان کے تمام اعمال ضائع ہو جائیں گے۔ اگلی آیات میں مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی اور اس پہ اجر و انعام کا اعلان کیا جبکہ کفار کی اس غافلانہ زندگی کا پیش خیمہ دنیاوی لذتوں کا حصول قرار دیا۔
اگلی آیات میں جہاد سے ڈرنے والوں کی مذمت کی اور سخت انجام سے ڈراتے ہوئے موت کی حقیقت بیان کی کہ وہ ہر حال میں آنی ہے کوئی اس سے فرار نہیں ہو سکتا اسی کے ساتھ منافقین کی منافقانہ پالیسیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے تنبیہ کی کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کا نفاق چھپا رہ جائے گا بلکہ اللہ تعالٰی وقتا فوقتا ان کے نفاق کی روش کو ظاہر کرتا رہے گا۔
سورہ الفتح صلح حدیبیہ کے بعد اہل اسلام کو فتح کی نوید دینے کے لئے نازل کی گئی جو کہ بعد میں فتح مکہ کی صورت میں شاندار فتح ملی۔ اہل ایمان کو بشارت اور کفار و منافقین پر لعنت الہی کی خبر دی۔ اس کے بعد جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں کی مذمت کی البتہ معذوروں کی معافی کا اعلان کیا۔اگلی آیات میں اس بیعت کا ذکر کیا جو حضرت عثمان کے قتل کی افواہ مشہور ہونے کے بعد لی گئی، اللہ تعالٰی نے ان تمام بیعت کرنے والوں سے اپنی رضا کا اعلان فرمایا۔
سورت کے آخر میں اس خواب کا ذکر کیا جو نبی علیہ السلام نے دیکھا تھا کہ وہ اپنے رفقا کے ہمراہ عمرہ کر رہے ہیں، اسی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے نبی علیہ السلام عمرہ کی ادائیگی کے لئے روانہ ہوئے اور صلح حدیبیہ کے بعد آئندہ سال عمرہ ادا کیا جبکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعریف کرتے ہوئے ان خصوصیات کا ذکر فرمایا جو کہ تورات و انجیل میں بھی موجود ہیں۔
سورہ الحجرات میں چند اہم اسلامی آداب کا بیان ہے۔ ابتداء میں چند چیزوں سے منع فرمایا جو کہ درج ذیل ہیں۔ اللہ اور رسول کی تعلیمات کا علم حاصل کئے بغیر اپنی رائے دینا، نبی علیہ السلام کے سامنے آواز کو بلند کرنا، اب یہی حکم مسجد نبوی ہے کہ وہاں آداب کی رعایت کرتے ہوئے آواز بلند نہ کی جائے۔ فاسق کی خبر بغیر تحقیق کے پھیلانا۔ اگلی آیات میں چند معاشرتی خرابیوں کا ذکر فرمایا۔ کسی مسلمان کا مذاق اڑانا، برے القاب سے پکارنا، بد گمانی کرنا، غیبت کرنا، کسی کی ٹوہ میں لگنا۔
سورہ ق مکی سورت ہے۔ اس میں مشرکین کے تعجبات کا ذکر کیا کہ انہیں تعجب تھا کہ انسان پیغمبر کیسے بن سکتا ہے؟ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی کیسے دی جا سکتی ہے؟ جواب اللہ تعالٰی نے سوال کیا یہ ساری کائنات کا نظام کون چلا رہا ہے؟ جب یہ اللہ چلا رہا ہے تو پھر وہ موت کے بعد زندگی بھی دینے پر قادر ہے۔ بطور عبرت کے سابقہ اقوام میں سے قوم عاد، قوم نسح، قوم لوط اور قوم ثمود کا ذکر کیا کہ تکذیب کے نتیجے میں ان کا انجام کیا ہوا؟
اگلی آیات میں انسان کو اللہ نے اپنے قرب کا احساس دلایا اور متنبہ کیا کہ ہم اس کے اعمال و اقوال اور وساوس سے بخوبی واقف ہیں اور تمہارے اعمال ہمارے مقرر کردہ فرشتے لکھ رہے ہیں جس پر تمہیں جواب دہ ہونا ہوگا۔ آخر میں متقین کے لئے انعام و اکرم کا تذکرہ کر کے صبر و تلقین اور تسبیح و تحمید کی تلقین کی۔
سورہ الذاریات مکی سورت ہے۔ ابتداء میں قسمیں اٹھا کر فرمایا کہ قیامت کا وقوع یقینی ہے وہ آکر رہے گی۔ اس کے باوجود قیامت سے بے خبر اور منکر وہی ہو سکتا ہے جو خواہشات کا غلام ہو۔ اس کے بعد مال و دولت کے متعلق اسلامی نقطہ نظر بیان فرمایا کہ اس میں کمزور، بے سہارا اور محروم لوگوں کا بھی حق ہے، ان کو حق نہ دینے والا غاصب کی طرح ہے۔
اگلی آیات میں ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ نقل کیا کہ جب فرشتے ان کے پاس مہمان بن کر آئے اور کھانے سے انکار کیا تو موسی علیہ السلام گھبرا گئے جس پر انہوں نے حقیقت واضح کی۔ فرعون، قوم عاد، قوم ثمود اور قوم نوح کی ہلاکت و تباہی کا ذکر کر کے یاد دہانی کرائی گئی ہے تاکہ عبرت حاصل کی جائے۔ آخر میں اللہ تعالٰی نے اپنی قدرت کا اظہار کرنے والی بعض نشانیوں کا ذکر کر کے تخلیق انس و جان کا مقصد واضح کیا جوکہ محض عبادت الہی اور اطاعت الہی ہے۔
سورہ طور مکی سورت ہے۔ اس سورت کے آغاز میں دوبارہ قسمیں اٹھا کر اللہ کے عذاب کے وقوع کو یقین بالجزم کے ساتھ ذکر کیا۔ قیامت کے بعض احوال کی منظر کشی کے بعد متقین کو جنت کی بشارت دی ایک قاعدہ بیان کیا کہ ہر شخص کا نتیجہ اس کے اعمال کے مطابق ہوگا۔
اگلی آیات میں کفار کی فطرت بد کا ذکر کیا کہ نبی علیہ السلام کے دعوت پر انہیں دیوانہ، مجنون کہتے اور مذاق اڑاتے، اللہ تعالٰی نے نبی علیہ السلام کو تسلی دیتے ہوئے دعوت جاری رکھنے کا حکم فرمایا۔ دوسری طرف کفار کے غلط عقائد کا رد کرتے ہوئے توحید الہی کا سبق دیا، کفر و شرک سے باز نہ آنے پر سخت عذاب کی خبر دی جس سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ آخر میں نبی علیہ السلام اور پوری امت کو صبر اور تسبیح کا حکم دیا گیا کیونکہ یہ چیزیں دعوت میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔