Home عالمی حق کی آواز

حق کی آواز

تحریر: علی ہلال

 

گو کہ سعودی عرب کے علماء اور ائمہ قابل احترام ہیں۔ مگر علم ،معلومات، فکری وتحقیقی گہرائی ،قلم کی روانی اور اظہار تعبیر کے ساتھ مسلمانوں بالخصوص عرب کے قومی معاملات پر جرات و بہادری کے ساتھ اپنے موقف کے اظہار کے حوالے سے مصر کی جامعہ الازہر کے علماء بے مثال رہے ہیں۔

الازہر نور کا مینار ہے۔ آزادی فلسطین کی تحریک کے سرخیل مفتی امین الحسینی سے لے کر لبنان، شام اور فلسطین کے قد اوعلماء الازہر کے چشمہ علم سے سیراب ہوئے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے بر صغیر کے دینی ومذہبی اداروں اور علماء نے بعض فروعی معاملات کے باعث الازہر کو پسند نہیں کیا۔ داڑھی ،ٹوپی اور اس جیسے کچھ دیگر معاملات کو بنیاد بنایا گیا ۔ جس کے باعث ہمارے مدارس کے فضلاء الازہر سے مستفید نہیں ہوسکے۔

ہمارے ہاں سعودی عرب کو تقدیس کا درجہ دیا گیا ہے ۔ جو درست بھی ہے۔ کیونکہ سعودی عرب نے 1747ء سے توحید وسنت کا پرچار کیا ہے۔اور اس میدان میں سعودی عرب کا کردار شاندار رہاہے ۔ وہ دنیا بھر میں مظلوم اور متاثرہ مسلمانوں کی مدد ہو۔ کمزور اسلامی ممالک کے ساتھ تعاون ہو یا اسلامی ممالک کے عام مزدوروں کی روزی کا معاملہ ہو۔ سعودی عرب نے ایک سخی مہربان کا کردار ادا کیا ہے۔

اب مشرق وسطی کا خطہ عالمی قوتوں کی رسہ کشی کا سٹیج بنا ہے۔ اور یہاں کے ممالک کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسے میں انہیں کچھ فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں جو شاید اسلامی دنیا کے لئے آسانی سے قابل قبول نہ ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں علماء کی میسر آزادی مزید سمٹ رہی ہے۔ اس کے برعکس مصر کے علماء کو آزادی حاصل ہے۔

شیخ الازہر نے اخوان کے صدر مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کی حمایت کی لیکن بعد میں جب صدر عبد الفتاح السیسی نے تجدید دین کے نام پر احادیث کو سائیڈ لائن کرنے کی کوشش کی تو شیخ الازہر نے بھری مجلس میں بڑے مدلل علمی اسلوب میں انہیں سمجادیا۔

مصری میڈیا ی تنقید کا سامنا کرنے کے لئے جس دل وگردے کی ضرورت ہے وہ صرف الازہر کے پاس ہے۔

الازہر نے گزشتہ دہائی میں پہلے مصر کی تجدید الخطاب الدینی کا منصوبہ ناکام بنایا۔ پھر اسرائیل کو خطے کی سیادت دلانے کے لئے ڈیزائن کردہ امریکی منصوبے الدین الابراہیمی پر کاری ضرب لگاکر اسے بے جان کردیا اور آخر میں بدنام زمانہ صفقہ القرن پر ناپسندیدگی کا اظہار کرکے اسے بے نقاب کیا۔

الازہر اس وقت واحد عالمی ادارہ ہے جس نے انتہائی جرات کے ساتھ غزہ پر اسرائیلی جارحیت پر بروقت اور موثر آواز اٹھائی ہے۔
مشرق وسطی میں جاری موجودہ سیاسی وفکری تبدیلیوں کے تناظر میں لگ یہی رہا ہے کہ اس خطے کے علمائے حق پر سخت وقت آرہاہے ۔ جن تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے انہیں عالم اسلام کی سطح پر منواںا مشکل ہوگا۔ لہذا ایسے حالات میں آپ اس خطے کے علماء کو مجبور سمجھ کر معذور سمجھ سکتے ہیں مگر انہیں آئیڈیل سمجھ کر قابل تقلید بنانے کا دور شائد نکل رہاہے۔

NO COMMENTS

Exit mobile version