Home بلاگ فائنل کال اور تشدد آمیز سیاست

فائنل کال اور تشدد آمیز سیاست

سیاسی اختلاف نے اب سیاسی دشمنی کی جگہ لے لی ہے یہ ہی وجہ ہےکہ سیاست میں عدم برداشت کے رویوں کا عروج ہے ہم نے ماضی میں بھی اور حال میں بھی ایک خاص حکمت عملی کے تحت لوگوں کو سیاسی ، لسانی ، مذہبی اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم کرکے اپنا اور ملک کا بہت نقصان کیا جس کی مثال کراچی اور بلوچستان کی سیاست تاریخ کا حصہ ہے۔ ان نقصانات کی اصل جڑیں حکومتوں سے ہی ملتی چلی آئی ہیں کیونکہ حکومت کا کام حالات کو سدھارنے کا ہوتاہے ناکہ وہ سیاسی انتقام کے رویوں پرغور کرے اور ریاست پربادشاہ بن کرریاست پر ہی ظم کرے۔اس تحریرکوآگے بڑھانے سے پہلے ایک بـڑی خبر کا زکر کرتاچلو بڑی خبریہ ہے کہ بانی تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان نے 24 نومبر کو اسلام آباد مارچ کی فائنل کال دے دی ہے۔

سماجی ویب سائٹ پر جاری پیغام میں بانی پی ٹی آئی نے کہاہے کہ عمران خان نے کہا کہ میں اپنے کسانوں، وکلا ، عوام سے مخاطب ہوں، پاکستان کے جس طرح حالات ہیں آپ کو نکلنا ہوگا، وکیلوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے تحفظ کے لیے کھڑے ہوں، سول سوسائٹی کوباہر نکلنا ہے، یہ آپ کا مستقبل ہے، رول آف لا ، عدلیہ، جمہوریت اور چھینے گئے مینڈیٹ کے لیے نکلنا ہے۔ ووٹرز، ایم این ایز، ایک ایک کارکن اورلیڈر شپ سے کہتاہوں کہ یہ موقع ہے فیصلہ کرنا ہوگا، مارشل لا میں رہنا ہے یا آزاد ہونا ہے۔یہ تو پیغام تھا بانی پی ٹی آئی کااب زرا اس تحریک کی کامیابی یا ناکامی کے چند پہلوؤں پر بات کرلی جائے۔ہم نے دیکھا کہ حکومت کی زیادہ تر توجہ اپنے سیاسی مخالفین کی پکڑ دھکڑ اور ان پر مقدمات قائم کرنے پر زیادہ رہی ہے جبکہ عام ادمی کے مسائل کو حل کرنے پر حکومت کی جو توجہ ہے وہ نہ ہونے کے برابر رہی ہے مطلب یہ کہ عام ادمی کے اقتصادیات کے ساتھ جڑے یا پیدا شدہ جو بھی مسئلے ہیں حکومت اسے حل کرنے کے بجائے اسے الجھاتی چلی جا رہی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک اس ملک میں رہنے والا ایک عام ادمی کسی بھی لحاظ سے حکومت اقدامات سے خوش دکھائی نہیں دیتا.اصل میں ہمارے سیاسی کلچر پرایک بڑا سوالیہ نشان لگ چکاہے لوگ سیاست کواب اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے بلکہ ایک طبقہ تو لفظ سیاست کوگھناؤناکاروبارسمجھنے لگاہے کیونکہ ہر کوئی یہ سمجھتاہے کہ جوسیاست ہمارے ملک میں چل رہی ہے اس میں نہ عوامی سیاست ہے، نہ ہی جمہوریت نام کی کوئی چیز ہے ، نہ اس سیاست میں آئین و قانون کی حکمرانی ہے اور نہ ہی سیاسی اخلاقیات یا برداشت کاکوئی پہلو ہے ۔آئین و قانون کی حکمرانی کے نظارے جو موجودہ حکومت نے دکھائے ہیں وہ شاید کسی دورمیں نہیں دیکھی گئ چھبیسویں آئینی ترمیم کے نفاز کی مثال تازہ دم ہے ابھی ۔جبکہ عدم برداشت کی سیاست میں بھی حکومت نے ماضی کی تمام روایات کو شکست سے دوچار کردیاہے یعنی سب کو پیچھے چھوڑدیاہے اس رجحان کو پھیلانے میں صرف سیاست دانوں اور علمائے کرام سمیت اہل قلم کا بھی ہاتھ ہے جو خود بھی پرتشدد بیانات ، تقریریں تحریریں لکھتے ہیں اور کارکنوں کو یا اپنے ہمدردوں کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ہمارے مخالفین ملک دشمن ہیں ، کافر ہیں ، غدار ہیں یا چور و ڈاکو ہیں ۔یہ ہی بیانیہ اوپر سے لے کر نیچے تک اس معاشرے میں سرایت کرچکاہے جس نے ہر دوسرے شخص کو ایک دوسرے کے لیےمشکوک بنادیاہے۔ ایسے میں پی ٹی ائی کی جو فائنل کال ہے اس میں لوگوں کو نکالنا فلحال کوئی مشکل کام تو نہیں ہے مگر اس قدرآسان کام بھی نہیں ہےکیونکہ جہاں ایک عام شہری بے روزگاری اورمہنگائی سے تنگ ہے وہاں وہ اپنی آوازاٹھانے سے بھی ڈرنے لگاہے کیونکہ سانحہ نو مئی کے بعد سے جتنا ظلم چادر اور چاردیواری کے ساتھ ہوا اس نے ملک میں ایک خوف کی فضا قائم کررکھی ہے ہر شخص حکومت رویوں اور اچھے ہتھکنڈوں سے اس قدر نالہ ہے کہ وہ گھروں سے نکلنے سے اس بات سے بھی ڈرتا ہے کہ کہیں اسے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنادیاجائے میں سمجھتا ہوں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی ایک اپیل ہی اس معاملے میں کافی نہیں ہے اس کے لیے اس اپیل کے کال دینے سے پہلے ایک بڑا ہوم ورک کرنا بہت ضروری تھا مطلب یہ کہ حکومت کے علاوہ سیاسی مخالفین میں جتنی بھی جماعتیں ہیں یا ان کا کارکن ہے سبھی کو اس فائنل کال میں شامل کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ کامیاب تحریک کے لیے ایک بڑی عوامی سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں پر ایک عام ادمی حکومتی اوچھےہتھکنڈوں سے اور گرفتاریوں سے پریشان ہو وہاں عام لوگوں کو اس تحریک میں لے جانا بہت مشکل کام ہے ماضی میں ہم نے دیکھا کہ جتنی بھی تحریکیں حکومت کے خلاف کامیاب ہوئی ہیں وہ کسی سنگل پارٹی سے ممکن نہیں تھی مطلب یہ کہ حکومت کو بے معنی اور معطل کرنے کے لیے بہت سی سیاسی جماعتوں کو اکٹھاہونا پڑاتھا۔

یہ بھی درست ہے کہ تحریک انصاف کی عوامی طاقت بہت زیادہ ہے جو ماضی میں کسی بھی جماعت سے زیادہ پاورفل ہے مگر حکومت نے اس جماعت کے لیڈروں اور کارکنوں کوجس قدر زدوکوب کرکے خوف زدہ کیاہے ایسابھی کسی دورمیں نہیں ہوا ہے یہ ہی وہ خوف جس کامیں زکرکررہاہوں ایک اوربڑی کمزوری یہ ہے کہ تحریک انصاف میں بھی ایک بڑا طبقہ شاید اس اچانک ہونے والی تحریکی کال سے مطمئن نہیں ہے یا یوں کہیں کہ اس احتجاج کے حق میں نہیں ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس انداز میں بانی پی ٹی آئی کو عدالتوں سے مختلف کیسوں سے ریلیف مل رہا ہے اس انداز میں بانی پی ٹی ائی بہت جلد باقی ماندہ کیسوں سے بھی بری ہو جائیں گے اب یہ بات ان کے دلوں میں اعلی عدلیہ پر بھرپور اعتماد کی وجہ سے ہے یا پھر پکڑدھکڑمقدمات اور وہ پرتشدد مار جووہ پہلے بھی ایک بار کھاچکے ہیں۔

 

نوٹ: الرٹ نیوز نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Exit mobile version