رپورٹ ، صفدر رضوی
ملک میں سرکاری ونجی جامعات کی سطح پرفن تعمیرکے نصاب (Architectural curriculum) میں پاکستانی معاشرے کی ثقافت اوررسم ورواج کے رنگ موجودنہ ہونے کا انکشاف ہواہے جس کے سبب ملک کے جدید تعمیراتی ماحول میں پاکستانی ثقافت کی جھلک موجود نہیں اور پاکستانی آرکیٹکچرزکی جانب سے ڈیزائن کی جانے والی رہائشی یادیگرعمارتوں کے فن تعمیرکے اسلوب میں ملکی ثقافت یا تاریخ نظرنہیں آ رہی ۔
اس بات کا انکشاف پاکستان میں انجینیئرنگ کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم دینے کے حوالے سے معروف این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں کی جانے والی ریسرچ میں سامنے آئی ہے جبکہ ریسرچر(محقق) سے بات چیت میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستانی جامعات میں آرکیٹکچرل ایجوکیشن کے لیے پڑھایاجانے والے نصاب کم از کم 6 سال پرانا ہے اس پر 2013کے بعد سے نظرثانی نہیں کی گئی اورنصاب میں کہیں بھی فن تعمیرمیں گریجوکیشن کرنے والے طالب علم کواس بات کاپابند نہیں کیاگیاہے کہ وہ دوران تعلیم پیشہ ورانہ اداروں یافیلڈ میں جاکرانٹرن شپ کریں گریڈنگ میں انٹرن شپ کے مارکس شامل نہ ہونے کے سبب طلبہ انٹرن شپ نہیں کررہے جس کے سبب آرکیٹکچرل ایجوکیشن میں بی ایس کی تعلیم تقریباًنظری بنیادوں پر (تھیوریٹیکل بیس)ہوگئی ہے۔
اس ریسرچ کی بنیادپراین ای ڈی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نے ”آرکیٹکچرل ایجوکیشن“(فن تعمیرات)کے شعبے میں اپنے قیام سے لے کر اب تک پہلی پی ایچ ڈی ڈگری جاری کردی ہے یہ ریسرچ ایک خاتون محققاورداﺅدیونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ آرکیٹکچراینڈپلاننگ کی سربراہ ڈاکٹریاسرہ نعیم پاشا نے این ای ڈی یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹرنعمان احمدکے زیرنگرانی فن تعمیرکے نصاب پرتحقیق کے بعدمکمل کی ہے۔
”ایکسپریس“سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹریاسرہ نعیم پاشانے بتایاکہ انھوں نے اپنی تحقیق میں کراچی سمیت پاکستان کے مختلف شہروں کی نجی وسرکاری جامعات میں گریجویشن کی سطح پر پڑھائے جانے والے فن تعمیر کے نصاب کاگہرامطالعہ کیااوران جامعات سے منسلک اساتذہ اورطلبہ کے انٹرویوزبھی کیے ہیں تحقیق کے لیے انھوں نے کراچی میں قائم انڈس ویلی ،داﺅدانجینیئرنگ یونیورسٹی ،این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور لاہورمیں بیکن ہاﺅس نیشنل یونیورسٹی،این سی اے (نیشنل کالج آف آرٹ)، یوای ٹی لاہور( یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈٹیکنالوجی ) جب کہ اسلام آباد میں کامسیٹس یونیورسٹی اور پشاورکی یوای ٹی ایبٹ آبادکیمپس میں قائم متعلقہ شعبہ آرکیٹکچرل اسکولزکے نصاب کے ماڈل حاصل کیے۔
انہوں نے بتایاکہ مختلف سرکاری ونجی جامعات سے حاصل کیے جانے والے فن تعمیر کے نصاب کے عنوانات سے واضح طورپریہ بات سامنے آئی ہے کہ جامعات میں گریجویشن کی سطح پر فرسٹ ایئرسے فائنل ایئرتک ہماری ثقافت تاریخ یاتوموجودنہیں ہے یاپھرانتہائی محدود ہے نصاب میں پاکستانی ثقافت ورسم ورواج کوزیادہ تر”مسلم ہسٹری آف آرکیٹکچر“میں بیان کیاجارہاہے۔
انہوں نے ثقافت کے اوصاف یاصفات attributes of culture میں ناقابل احساس حصے Intangible part(تاریخ،روایات،سیاست،نسل،عقائد وروحانیت) سمیت دیگرغیرحسی ثقافتی اوصاف کاتذکرہ کرتے ہوئے بتایاکہ ان کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملکی جامعات میں فن تعمیر کے پڑھائے جانے والانصاب ہماری ثقافت کے ان مذکورہ اوصاف سے خالی ہے یاپھران اوصاف کواس قدرسادہ یاسہل بناکرپیش کردیاگیاہے نصاب میں ثقافت کایہ رنگ نہ ہونے کے برابرہے جس کے براہ راست اثرات ہمارے ملک کے تعمیراتی ماحول پر نظرآرہے ہیں چونکہ دوران تدریس ہمارے طلبہ کوپاکستانی ثقافت کے اس انتہائی اہم حصے کی تعلیم نہیں دی جارہی جس کے سبب پاکستان کے تعمیری ماحول میں بھی اب ہماری ثقافت سے زیادہ غیرملکی ثقافت کاعنصرپیش پیش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی فن تعمیر کے ساتھ بنائی گئی عمارتیں dispose off نہیں ہوتی لہذایہ ضروری ہے کہ جس کلچرمیں عمارت تعمیرہورہی ہے وہاں کے لوگوں کی عادات واطوارسامنے رکھ کراسے تعمیرکیاجائے ڈاکٹریاسرہ نعیم پاشانے پنڈولم کی حرکت ”To and fro movement“کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ آرکیٹکچرکے نصاب کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنی بنیادپرقائم رہتے ہوئے اس طرح کا نصاب تشکیل دیاجائے جس میں ماضی میں جاتے ہوئے”سماج کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ضروریات کی بنیاد پرمستقبل پرنگاہ“(Societal history to futuristic vision )بھی ہو۔
اپنی ریسرچ کے نتائج اورتجاویز کے حوالے سے این ای ڈی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والی داﺅدانجینیئرنگ یونیورسٹی کے شعبہ آرکیٹکچراینڈپلاننگ کی سربراہ ڈاکٹریاسرہ نعیم پاشاکاکہناتھاکہ پاکستان کے تعمیراتی ماحولBuilt envirmentمیں جولوگ کام کررہے ہیں وہ دراصل اکیڈیما کاہی پروڈکٹ ہے وہ فیلڈمیں جاکرکام توکرتے ہیں تاہم اب یہ پیشہ client guidedہے مارکیٹ میں کنزیومرکی دوڑہے اورطلبہ پڑھائے گئے اپنے نصاب کوبھول جاتے ہیں، طلبہ پیشے سے وابستہ ہوکرزیادہ ترصارف کی فرمائش پر کام کرتے ہیں۔
ایک اورمسئلے کی جانب انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے بتایاکہ جوطلبہ فارغ التحصیل ہوکرپیشے سے وابستہ ہوتے ہیں اورتجربہ حاصل کرتے ہیں وہ اپنایونیورسٹی میں واپس آکراپنے تجربات نئے طلبہ سے بیان نہیں کرتے جبکہ بالکل اسی طرح اکیڈیمیا کے لوگ تعمیراتی پیشے میں جاکرکام نہیں کرتے وہ پریکٹس میں نہیں ہیں جس سے اکیڈیمااورصنعت کے درمیان ایک فاصلہ ہے۔
تاہم انہوں نے بتایاکہ 2013میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی جانب سے تشکیل شدہ کمیٹی نے جونصاب بنایاتھااب ہم داﺅدانجینیئرنگ یونیورسٹی میں اس نصاب کی تبدیلی کرکے نظرثانی شدہ نصاب لارہے ہیں جس میں آرکیٹکچرایجوکیشن میںکے نصاب میں طلبہ کے لیے انٹرن شپ لازمی قراردیاجارہاہے ابھی طلبہ فیلڈ میں نہیں جاتے کیونکہ کورس آف اسٹڈیزمیں انٹرن شپ کے مارکس شامل نہیں انٹرن شپ اس وقت گریڈنگ کاحصہ نہیں نئے نصاب میں انٹرن شپ کوگریڈنگ کاحصہ قراردیاجارہاہے جس سے طلبہ کی انٹرن شپ میں دلچسپی بڑھے گی وہ فیلڈ میں جائیں گے اورگریجویشن کے تیسرے وچوتھے سال میں کچھ کریڈٹ آورزانٹرن شپ کے شامل کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیاکہ طلبہ کی انٹرن شپ نہ ہونے کے سبب ابھی مارکیٹ سے یہ اعتراض آتاہے کہ طلبہ کوصنعت کی ضروریات پر مبنی market oriented تعلیم نہیں دی جارہی تاہم ان اقدامات سے امیدہے کہ پرصنعت سے یہ اعتراضات نہ آئیں .
بشکریہ روزنامہ ایکپسریس