معزز عدالت عظمیٰ پاکستان
(آئینی دائرہ اختیار)
آئینی درخواست نمبر/2019
خدائی خدمت گار سید محمود اختر نقوی پاکستانی شہری وسماجی کارکن
سکنہ فلیٹ نمبر37 B- گرائونڈ فلور سٹریٹ نمبر 11 عسکری IV اپارٹمنٹ مین راشد منہاس روڈ کراچی۔
درخواست گزار از خود
بنام
(1)وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان بذریعہ پرنسپل سیکریٹری ٹو
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان وزیراعظم سیکریٹری اسلام آباد
(2)وزیر وزارت قانون و انصاف اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلام آباد
(3)سیکریٹری وزارت قانون و انصاف اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلام آباد
(4)چیئرمین جوڈیشل پارلیمانی کمیٹی قومی اسمبلی ۔قومی اسمبلی اسلام اآباد
مد علیہان
آئینی درخواست زیر آرٹیکل 184(3)
دستور مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان مجریہ 1973ء
آئینی درخواست قابل سماعت ہے .
-1 خدائی خدمت گار سائل مملکت اسلامی جمہوریت پاکستان کا شہری و سماجی کارکن اور سائل کی مختلف آئینی درخواستیں رپورٹ ہوئی مثلاً دوہری شہریت رکھنے والے پارلیمنٹیرین کے خلاف آئینی درخواست نمبر 5/2012 (PLD 2012 SUPREME COURT-1054)اور 5/2012 (PLD 2012 SUPREME COURT-1089)اور PLDs بنی ہیں جس میں آئینی درخواست44/2012اور دیگر درخواستوں پر(یوسف رضا گیلانی وزیراعظم نااہل قرار دیئے گئے )(PLDدوران سماعت پیش کی جائے گی )اور آئینی درخواست 73/2012 توہین عدالت کا قانون جو کہ اسمبلی سے پاس کیا گیا تھا وہ کالعدم قرار دیا گیا (PLDدوران سماعت پیش کی جائے گی )اور آئینی درخواست نمبر 12/ 2012 (سرکاری زبان دفاتر میں رائج کی جائے گی )(PLD) دوران سماعت سائل پیش کرے گا اور آئینی درخواست نمبر 11/2012 PLD 2012 SUPREME COURT -195 )) اور کریمنل اوریجنل درخواست نمبر 89/2011 (SCMR-2013 SUPREME COURT-1752)ہائی پروفائل کیسز رپورٹڈ ہوچکی ہیں اور سوموٹو کیس نمبر 16/2011 اور دیگر آئینی درخواستیںاور کریمنل اوریجنل درخواستیں بر ائے توہین عدالت کا درخواست گزار ہے ۔ اورCMA No.376/K 2014اور CMA No.450/K 2014(اراضی بحریہ ٹائون کراچی کی درخواستوں کا مورخہ 4-5-2018کو تاریخ ساز فیصلہ آیا اور ملک ریاض حسین چیئرمین بحریہ ٹائون پاکستان نے اپنی مرضی سے معزز عدالت عظمیٰ پاکستان میں 460ارب روپیہ معزز عدالت عظمیٰ پاکستان میں جمع کرارہے ہیں یہ تاریخ ساز فیصلہ (PLD 2018 SUPREME COURT- 468) میں آیا اورسائل اورIn Person معزز عدالت میں بے لوث طور پر پیش ہوتا ہے اورعوامی مفاد میں اہم معاملات اپنی خدمات سے سر انجام دے رہا ہے۔ سائل کا منشاومقاصدغیر انسانی سلوک کے شکار افراد کی مدد اور معاشرے میں رواں امتیازی سلوک کا خاتمہ اور انصاف کی فراہمی ہے اور آئین پاکستان کے قانون اور آئین کی بالادستی کیلئے اپنی کوششوں میں مصروف ہیں۔ کسی بھی پاکستانی شہری کو کسی بھی جگہ مدد کے حصول کے لیے اپنی خدمات فراہم کرسکتا ہے اور اجتماعی حقوق مفاد عامہ میں درخواست گزار ہے کہ دستور پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون کی بالادستی اور بالاتری کیلئے فی سبیل اللہ جو آئینی درخواست دائر کرتا ہے وہ صرف اور صرف اللہ کی خشنودی کیلئے کرتا ہے ، جس کا درس ہمارے پیارے نبیﷺ نے اپنے دین اورمخلوق کی خدمت کرکے ہمیں سبق دیا ہے ۔
2 ۔ خدائی خدمت گار من سائل مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام شہریوں کے مفاد میں معزز عدالت عظمیٰ پاکستان کے دستوری دائرے اختیار کے تحت داد رسی کی استدعا لے کر صاف ہاتھوں کے ہمراہ معزز عدالت عظمیٰ پاکستان میں آیا ہے ۔ مدعلیہان دستور کی دفعہ 4 ، 5،8،175،175-A سے انحراف دستور کی تقویض کردہ آئینی حق کے تحت دستور کے حصہ دوئم باب اول کے ذریعے تقویض شدہ بنیادی حق میں سے کسی حق کے نفاذکے لیے اوران کے حفاظت کے لیے عدالت عظمیٰ کا دستوری دائرہ اختیار میں قرار دیا ہے اوریہ حق دیا ہے کہ سائل مفاد عامہ میں دستور اول حصہ دوئم میں تقویض کردہ بنیادی حقوق کی اور قانون و آئین کی خلاف ورزی پر عدالت عظمیٰ سے بہتر کوئی فورم نہیں سائل عوام کی وسیع تر مفاد میں اور قانون و آئین کی خلاف ورزی پر دستور کی دفعہ184(3) کے تحت انصاف حاصل کرنے کیلئے معزز عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا پورا حق رکھتا ہے اور دستور کے مطابق اس امر میں مانع نہیں ہوسکتا جیسا کہ معزز عدالت عظمیٰ پاکستان اپنے متعدد حکم ناموں میں قرار دے چکی ہے۔ جس کی چند مثالیں عدالتی نظیروں میں موجود ہیں۔ جو کہ حسب ذیل ہیں ،
(i) PLD 2000 SC 84) (ii) PLD 2006 SC 394)
(iii) AIR 2002 SC 350) (iv) PLD 2004 SC 600
معزز عدالت عظمیٰ پاکستان نے PLD 2004 SC 482 میں قرار دیا ہے کہ
Petitioner must show that he is litigating in Public interest and for public good or for welfare of general public. Petitioner in public interest litigation can agitate relief on his behalf and also on behalf of general public against various public functionaries on their failure to perform their duties relation to 4welfare of public at large, which they are bound to provide under relevant laws.
3۔ خدائی خدمت گار من سائل عرض گزارہے کہ سائل کی آئینی درخواست مفاد عامہ اور قانون اور آئین دستورمملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان مجریہ 1973ء اور معزز عدالت اعلیٰ پاکستان کی دی ہوئی عدالتی فیصلوں کی نظیروں کے تحت قابل سماعت ہے اور زیر نظر آئینی درخواست میں درج نقاط کے ساتھ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آئین کی بالاتری اور بالادستی اور قانون و انصاف کی عظمت کے لیے داد رسی کی استدعا لے کر سائل عدالت میں آیا ہے۔
4۔ خدائی خدمت گار من سائل عرض گزارہے کہ ہر شخص آئین کے تحت کام کرنے کا پابند ہے اور کوئی شخص بھی آئین اور قانون سے بالا نہیں ہے ۔اور آئین و قانون کی معزز عدالت محافظ ہیں۔
5۔ خدائی خدمت گار من سائل عرض گزار ہے کہ معزز جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے فرمایا:
فیصلوں کے نفاذ کے لیے اخلاقی قوت موجود ہے کسی شخص اور ریاستی اداروں نے حد سے تجاوز کیا تو عدالت مداخلت کریگی۔ آئین اور قانون کی نظر میں ہر شخص اور ہر ادارہ برابر ہے ۔ کوئی ملک آئین اور قانون کے بغیر نہیں چل سکتا ٗ، جمہوریت صرف انتخابات کا نام نہیں ۔ بلکہ مکمل طرز زندگی ہے ‘ مذہب کی بنیاد پر کسی کی جان لینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ‘ دستور کی بالادستی اور بالاتری اور قانون کی حکمرانی کے بغیر ترقی و خوشحالی محض خواب ہی رہے گا ‘ آئین کے تحفظ کے لیے عدلیہ کو مزید مضبوط ہونا ہوگا۔ وکلا آزاد عدلیہ کی سربلندی کیلئے تعاون جاری رکھیں ۔
6۔ خدائی خدمت گار من سائل عرض گزار ہے کہ درج بالا نقاط کی روشنی میں دستور کی دفعہ 174 کے تحت وفاق اور دیگر کو مد علیہان بنا کر سائل عرض گزار ہے کہ معزز عدالت عظمیٰ پاکستان کی سپریم جوڈیشل کونسل جو کہ سپریم ہے اور معزز عدالت کے لیے معزز جج صاحبان کا چنائو کرتی ہیں اور اڈہاک ججوں کی کنفرمیشن دیتی ہیں اور صرف اور صرف قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کرتی ہیں آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان مجریہ 1973 کے کسی بھی آرٹیکل میں کہیں بھی نہیں ہے کہ ججز کی تقرری کے لیے قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی معزز جج صاحبان کا انٹرویو لیں گی۔
قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی معزز جج صاحبان کی تقرری کا انٹرویولینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی کا منظوری دینا نہایت نہایت معزز تقرر ہونے والے جج صاحبان کی تذلیل اور تضحیک ہے جبکہ آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کسی بھی آرٹیکل میں نہیں ہے کہ ایک سیاسی قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی تقرر ہونے والے معزز جج صاحبان کا انٹرویو لے گی ، آج تک ایسا نہیں ہوا جو اب اس دور میں ہورہا ہے قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کا جج صاحبان کا انٹرویو لینے کا عمل مکمل طور پر بدنیتی پر اور آئین کے مکمل خلاف ورزی قرار دینا عین انصاف کہ عین مطابق ہے اورآئین کا آرٹیکل 175-A یہ کہتا ہے کہ آرٹیکل 175-A۔عدالت عظمیٰ ،عدالت ہائے عالیہ اور وفاقی شرعی عدالتوں کے ججوں کی تقرری
(Appointment of Judges to the Supreme Court, High Court and the Federal Shariyat Court)
(1)عدالت عظمیٰ عدلات ہائے عالیہ اور وفاقی شرعی عدالت جیسا کہ بعدازیں اہتمام کیا گیا ہے کہ ججوں کے تقرری کے لیے پاکستان کا ایک عدالتی کمیشن جسے بعدازیں بطورکمیشن کے حوالہ دیا جائے گا ‘ ہوگا۔
(2)عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تقرری کے لے کمیشن حسب ذیل پر مشتمل ہوگا:
(i)چیف جسٹس پاکستان چیئرمین
(ii)عدالت عظمیٰ کے 2( چار) کے دوسینئر ترین جج اراکین
(iii)عدالت عظمیٰ پاکستان کا ایک سابقہ چیف جسٹس یا سابقہ جج جسے چیف جسٹس پاکستان کی جانب رکن سے دو رکن ججوں سے مشاورت کے بعد 2(چار) سال کے میعاد کے لیے نامزد کیا جائے ،
(iv)وفاقی وزیر قانون و انصاف
(v)اٹارنی جنرل برائے پاکستان
(vi)عدالت عظمیٰ پاکستان کا ایک سینئر ایڈووکیٹ جسے پاکستان بار کونسل کی جانب سے دو سال کی میعاد رکن کے لیے نامزد کیا جائے۔
(3)شق(1)یا(2) میں مذکور کسی امر کے باوجود صدر عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج کو چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر مقرر کرے گا ۔
(4)کمیشن اپنے طریقہ کار کو منضبط کرنے کے لئے قواعد و ضع کرسکے گا۔
(5)عدالت عالیہ کے ججوں کی تقرر کے لیے شق(2) میں (مذکور) کمیشن مندرجہ ذیل کو بھی شامل کرے گا یعنی کہ:
(i)عدالت عالیہ کے چیف جسٹس جس کی تقرری کی جانی ہو،رکن
(ii)اسی عدالت عالیہ کا سینئر ترین جج۔
(iii)صوبائی وزیر قانون۔
(iv)ایک ایڈووکیٹ جو عدالت عالیہ میں کم از کم پندرہ سال پریکٹس رکہتا ہو جسے متعلقہ بار کونسل کی جانب سے دو سال کی میعاد کے لیے نامزد کیا جانا ہو۔)
4(مگر شرط یہ ہے کہ ایک عدالت عالیہ کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے پیرہ(ii) میں مذکور سب سے سینئر ترین جج کمیشن کا رکن نہیں ہوگا ۔
مزید شرط یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے ایک عدالت عالیہ کا چیف جسٹس دستیاب نہیں ہوتا تو اسکو مذکورہ عدالت کے ایک سابقہ چیف جسٹس یا سابقہ جج سے تبدیل کیا جائیگا جن کو چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے شق(2) کے پیرہ(ii) میں مذکور کمیشن کے چار دکن ججوں کے ساتھ مشاورت سے مقرر کیا جانا ہو۔
7۔ خدائی خدمت گار من سائل عرض گزار ہے کہ قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کے اراکین کا یا پارلیمانی کمیٹی کا تقرر ہونے والے جج صاحبان کا انٹرویو لینے کا جو پروگرام بنایا گیا ہے اورانٹرویو کا قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی نے جو قانون پاس کیا ہے پارلیمانی کمیٹی میں بیٹھ کر انٹرویو کے اقدامات کو بد نیتی اور خلاف آئین قراردینا عین انصاف کہ عین مطابق ہے ۔
استدعا
(1) خدائی خدمت گار من سائل استدعا گوہے کہ سائل کی آئینی درخواست جو کہ نہایت اہمیت کی حامل ہے اور آئین و قانون کی بالاتری و بالا دستی کے لئے ہے سائل کی آئینی درخواست میں دی گئی ، تمام گزارشات بمعہ استدعا کو منظور کرنے کا حکم صادر کرنے کی استدعا ہے ۔
(2) خدائی خدمت گار من سائل استدعا گو ہے کہ تقرر ہونے والے معززجج صاحبان کا قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے تقرر ہونے والے جج صاحبان کا انٹرویو لینے کا اقدام کو خلاف آئین قرار دینے کا حکم صادر کرنے کی استدعا ہے اور انٹرویو کو بد نیتی پر مبنی قرار دینے کا حکم صادر کرنے کی استدعا ہے ۔
(3) خدائی خدمت گار من سائل استدعا گوہے کہ معزز سپریم کورٹ آف پاکستان کی سپریم جوڈیشل کونسل جن بھی قابل ترین جج صاحبان کی تقرری کا نام فائنل کرنے کا اور تقررکرنے کا اختیار صرف اور صرف معزز سپریم کورٹ آف پاکستان کی جوڈیشل کونسل کو اختیار دینے کا حکم صادر کرنے کی استدعا ہے ۔
(4) خدائی خدمت گار من سائل استدعا گوہے کہ معزز عدالت جن بھی معزز جج صاحبان کا تقرر کرنے کے بعد ان کا نام قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کو نام ارسال کرے اپنی سفارش کے ساتھ ان ناموں کو وزارت قانون و انصاف حکومت پاکستان کو نام برائے تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم صادر کرنے کی استدعا ہے۔مزید معزز عدالت جو مناسب سمجھے تاریخ ساز فیصلہ جاری فرمادیں جو کہ عین انصاف کہ عین مطابق ہو۔
درخواست گزار از خود
خدائی خدمت گار سید محمود اختر نقوی
پاکستانی شہری و سماجی کارکن
سند و تصدیق نامہ زیر order xxvrule 6 of the supreme court rule 1980 منکہ سید محمود اختر نقوی ولد سید محمد سجاد نقوی ، مسلم ، بالغ تحریر کرتا ہوں کہ من سائل نے اس نوعیت کا کوئی اورمقدمہ کسی اور عدالت میں دائر نہیں کیا ہے نیز یہ کہ مرکزی آئینی درخواست کا حصہ تصور کیا جائے ۔