رپورٹ : شہزاد ملک
خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے کے سرکاری اور نجی سکولوں کے لیے ایک مجوزہ قانونی مسودہ تیار کیا ہے ۔ اس قانون کے تحت اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ سکول کے بچوں کا بستہ کتنا وزنی ہونا چاہیے۔ خیبر پختونخوا سکول بیگ لیمیٹیشن بل 2019‘ کے نام سے اس مجوزہ بل میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں پرائمری تک کے بچوں کے لیے تختی اور سلیٹ کے استعمال کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔
اس بل کی شق نمبر4 میں لکھا گیا ہے کہ سکول کے ہیڈ ماسٹرز ایک ایسا تعلیمی نظام متعارف کرائیں گے جس میں بچوں کے تختی اور سلیٹ کے استعمال کو یقینی بنایا جائے گا۔ بل میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اس سے بچوں کی لکھائی بھی بہتر ہو سکتی ہے۔
اس حوالے سے خیبر پختونخوا ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن کے ڈائریکٹر حافظ محمد ابراہیم کا کہنا ہے کہ انہیں اس بل کے حوالے سے کوئی علم نہیں ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ محکمہ تعلیم ہی کے حوالے سے ایک مجوزہ قانونی مسودہ تیار کیا گیا ہے لیکن ایجوکیشن ڈائریکٹر اس سے لاعلم ہیں۔
یہ مجوزہ قانون تو دو مہینے پہلے بنایا گیا ہے اور میڈیا میں بھی اس کی خبریں آتی رہی ہیں .خیبر پختون خواہ کے اسکولوں میں تختی اور سلیٹ کے استعمال کے حوالے سے حافظ ابراہیم کا کہنا ہے کہ ’ تختی اور سلیٹ کا استعمال بہت پرانا ہو گیا ہے ۔ اب لکھائی بہتر کرنے کے لیے جدید طریقے ایجاد ہو چکے ہیں تو ان کو بھی سکولوں میں رائج کیا جا سکتا ہے۔‘
تاہم انہوں دوبارہ کہا کہ’ یہ تو میرا ذاتی خیال ہے اور بل کے حوالے سے وہ بات اس لیے نہیں کر رہے کیونکہ انھوں نے یہ بل ابھی تک پڑھا نہیں ہے .
پشار کی پیپلز منڈی میں تختی کے گاہگ زیادہ ہوگئے ہیں؟
پشاور کی پیپلز منڈی میں سٹیشنری کی بڑی مارکیٹ ہے۔ اسی مارکیٹ کے ایک دکاندار شاکر اللہ کا کہنا ہے کہ ’ابھی تک تو تختی کی طلب میں اضافہ نہیں ہوا لیکن گرمی کے چھٹیوں سے پہلے بہت طلب تھی کیونکہ پرائمری سکول کے بچے کہتے تھے کہ ان کی دو کلاسوں کے لیے تختی کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ابھی دو مہینے پہلے مانگ بہت زیادہ تھی لیکن ایسا لگتا ہے حکومت کبھی تختی کو لازمی قرار دیتی ہے اور کبھی فیصلہ دوبارہ واپس لے لیتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ضلع کرم اور دیگر جنوبی اضلاع سے بہت لوگ تختی اور سلیٹ خریدنے آتے ہیں اور اپنے گاوں کی دکانوں کے لیے لے جاتے ہیں کیونکہ یہاں مارکیٹ میں ہم یہ تھوک کے حساب سے بیچتے ہے ۔‘
اس مجوزہ قانون کو صوبائی اسمبلی سے پاس کیا جائے گا یا نہیں لیکن اس حوالے سے محکمہ تعلیم کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ یہ ایک تجویز دی گئی ہے اور اس قانون پر کام جاری ہے لیکن حتمی فیصلہ محکمہ تعلیم اور حکومتی عہدیداروں سے مشاورت کر کے کیا جائے گا اور پھر یہ بل کابینہ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا.
تختی لکھنا کبھی نہ صرف ذریعہ تعلیم ہوتا تھا بلکہ بچوں کی لکھائی میں نکھار کا سبب بھی بنتاتھامگر جدید دور نے اسکول بچوں سے قلم ،دوات اور تختی اثاثہ بھی چھین لیا۔ تاہم ضلع چارسدہ کے سرکاری اسکولوں میں تختی لکھنا تعلیم کا لازمی حصہ ہے ۔اس اسکول میں صرف تختی لکھنا ہی نہیں بلکہ تختی دھونا اور سکھانا بھی بچوں کیلئے ایک دلچسپ مشغلہ ہوتا ہے ۔ تختی لکھنے سے بچوں کی خوداعتماد ی میں بھی اضافہ ہوتا ہے.
پرانے دور میں تختی کو بہترین لکھائی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ بدلتے زمانے نے یہ روایت تقریبا معدوم کردی ہے لیکن ملتان میں ایک استاد اب بھی اسے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ايک زمانہ تھا جب تختی پرلکھائي نہ صرف ذریعہ تعلیم ہوتا تھا بلکہ بچوں کی لکھائی میں نکھارکا سبب بھی بنتا تھا۔ دورجديد ميں قلم ،دوات اورتختی کي جگہ آغاز سے ہی کاپي ،پينسل اورپين نے لے لي ۔
لکھنے کے ليے کاپی پینسل اور کمپيوٹر کے استعمال نےتختی لکھنے کا رواج تقریباً ختم کر دیا ليکن ملتان کے ایک ديہات ميں واقع اسکول ٹيچر تختي لکھنے کي اس قديم روايت کو آج بھي زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اسکول میں صرف تختی لکھنا ہی نہیں بلکہ تختی دھونا اورسکھانا بھی بچوں کیلئےایک دلچسپ مشغلہ ہوتا ہے ۔ماسٹراقبال کے مطابق تختی لکھنے سے خود اعتمادی آتي ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ ہمارے سر روز ہمیں تختی لکھواتے ہیں جس سے ہماری لکھائی اچھی ہوتی ہے.