لاہور کے تاریخی درختوں کو شہر کے رقبے میں بے تحاشا اضافے کی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
ہرے بھرے درخت اور ہریالی ہمیشہ ہی سے شہر باغات لاہور کی شان رہے ہيں۔ پچھلے چند سالوں میں شہرکاری اور ترقی کے متعلق کئی مباحثوں میں بھی اس شہر کی ہریالی کا تذکرہ کیا جاچکا ہے۔ اس مکالمے کی بنیاد لاہور بچاؤ تحریک نے 2008ء میں اس وقت رکھی جب ماڈل ٹاؤن میں درخت کاٹنے کا مسئلہ اٹھایا گیا تھا۔ اسی سال نہر کے پراجیکٹ کا بھی اعلان کیا گيا، جس کے بعد اس گروپ میں مزيد ماہرین شامل کیے گئے، جنہوں نے مل کر حکومت سے پالیسی کے متعلق سوالات کرنا شروع کیے۔
اس دوران ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر پاکستان (ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان) نے کنیرڈ کالج کے تعاون سےنہر کے اطراف موجود مختلف پرندوں اور پودوں کی اقسام کی نشاندہی کے لیے ایک مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مطالعے کا مقصد اس علاقے میں 5,000 درختوں کو کاٹنے کے اثرات کا سائنسی اعتبار سے تجزیہ کرنا تو نہيں تھا، لیکن اس کے نتیجے میں دس سے زائد اقسام کے پرندے اور 12 سے زائد اقسام کے درخت سامنے آئے۔
تاہم جو بات سب سے زيادہ پریشان کن ہے وہ یہ ہے کہ اس مطالعے میں 14,873 درخت سامنے آئے، جس کا مطلب ہے کہ نہر کو چوڑا کرنے کے پراجیکٹ کے نتیجے میں 35 فیصد درختوں کی کٹائی کی گئی تھی۔
اس کٹائی کے نتیجے میں سول سوسائٹی نے پنجاب حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ عدالت نے شہر میں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور شہرکاری میں اضافے کو تسلیم کیا، لیکن ساتھ ہی نہر کو ثقافتی ورثہ قرار دینے کا حکم دیا، اور 2013ء میں پنجاب اسمبلی نے لاہور کنال ہیریٹیج پارک ایکٹ پاس کیا۔ تاہم اس کے باوجود بھی سڑک بڑی کرنے کے چکر میں نہر کے اطراف 5,299 درخت کاٹ دیے گئے۔ 2013ء میں بورڈ کی تیسری مشاورتی میٹنگ کے دوران، جس کا مقصد مزید پراجیکٹس پر مباحثہ کرکے ان کے لیے منظوری حاصل کرنا تھا، نہر کے ساتھ ایک یو ٹرن قائم کرنے کی بھی درخواست کی گئی۔
اس کے علاوہ، پارک کے مشاورتی بورڈ کی منظوری حاصل کرنے کے بعد راستے کو مزید چوڑا کرنے کے بھی مختلف پراجیکٹس پر بھی بھی عملدرآمد کیا گیا۔
آنے والے سالوں میں لاہور میں درختوں کی کمی سے کسی طرح انکار نہيں کیا جاسکتا۔ ریموٹ سینسنگ کے تجزیہ کار حماد گیلانی اور ان کے طالب علم عدیل احمد نے عوامی طور پر دستیاب لینڈسیٹ سیٹلائٹ کی تصویروں کی مدد سے 30 میٹر کے ریزولوشن پر 1990ء اور 2017ء کے درمیان درختوں، ہریالی اور تعمیرات میں تبدیلیوں کا تجزیہ کیا، اور ان کے مطالعے میں یہ بات واضح طور پر سامنے آئی کہ پچھلے سات سال کے دوران (یعنی 2010ء سے لے کر 2017ء تک) سابقہ دو دہائیوں (یعنی 1990ء سے لے کر 2010ء تک) کے مقابلے میں زيادہ درخت کاٹے گئے تھے۔ گیلانی کے فراہم کردہ سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق نہر کے اطراف درختوں میں قابل قدر کمی واقع ہوئی ہے، اور یو ٹرن کے پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد بھی درخت کاٹنے کا سلسلہ ختم نہيں ہوا تھا۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی خان کے مطابق اس کمی کی وجہ خراب شہری منصوبہ بندی ہے۔ خان ترقی کے مسائل کے سلسلے میں مختلف سرکاری اداروں سے مذاکرات کرچکے ہیں، جس میں انہوں نے نہ صرف سول سوسائٹی کے خدشات بیان کیے ہیں بلکہ ان کے حل بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
انہيں وہ وقت بہت اچھے سے یاد ہے جب نہر پر کام ہورہا تھا۔ وہ کہتے ہيں ‘‘ہم نے سب سے پہلے یہی کہا تھا کہ اس قسم کے عارضی حل نہیں چلنے والے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی سڑکوں کے جال کو وسیع کرنے سے کوئی فائدہ نہيں ہوا ہے۔ ہم نے انہیں یورپ اور لاطینی امریکہ کی بھی مثالیں دیں۔’’ خان کے مطابق ماحولیاتی اثرات کے تعین ای آئی اے (Environmental Impact Assessment – EIA) کی غیرمعیاری رپورٹس کا مسئلہ بار بار سامنے آتا ہے۔ انہوں نے خصوصی طور پر نہر چوڑا کرنے کے پراجیکٹ کے بارے میں بات کی، جس کا شمار پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی حکومت کے ان پراجیکٹس میں ہوتا ہے جن کے خلاف سول سوسائٹی نے پہلی دفعہ آواز اٹھائی تھی۔
وہ کہتے ہيں ’’حکومتی ادارے پہلے سے کوئی تیاری کرکے نہيں رکھتے اور نہ ہی منصوبہ بندی کے سلسلے میں ای آئی اے کی رپورٹس سے رجوع کرتے ہيں۔ جب سول سوسائٹی اور دیگر تنظیمیں خدشات کا اظہار کرتی ہيں تو وہ صرف احسان کرنے کے لیے ان رپورٹس کی طرف دیکھ لیتے ہيں۔‘‘
انہوں نے نہر کی چوڑائی کے پراجیکٹ کی ای آئی اے کی رپورٹ کی مثال پیش کی، اور بتایا کہ اس رپورٹ میں ایسے چند پرندوں کی اقسام کا ذکر تھا جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہيں تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہيں کہ اکثر وہی کمپنی ای آئی اےکی رپورٹس تیار کرتی ہے جو پراجیکٹ پر کام کررہی ہوتی ہے۔ سول سوسائٹی نے اس سے پہلےبھی کئی دفعہ ای آئی اے کی رپورٹس کی تیاری کے متعلق سوالات اٹھائے ہیں۔ لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین اور فیروزپور روڈ پر چلنے والی میٹرو بس کی ای آئی اے رپورٹس کو بھی ناقص قرار دیا جاچکا ہے۔ بلکہ فیروزپور روڈ کا پراجیکٹ شروع ہونے کے بعد عوامی سماعتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا۔
خان کی نظر میں اصل مسئلہ خراب شہری منصوبہ بندی ہے۔ دوسرے ماہرین کی آراء اور لاہور کے ترمیم شدہ ماسٹر پلان میں بھی اس نقطہ نظر سے اتفاق پایا گیا ہے۔ لاہور کے کئی ترقیاتی میگا پراجیکٹس، جیسے کہ سگنل فری کوریڈور، سڑک چوڑا کرنے کے پراجیکٹس، اور بس اور ریل گاڑیوں کے نظام، لاہور ماسٹر پلان 2021ء میں شامل نہيں تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ بھی تھا۔
لاہور ماسٹر پلان میں یہ عبارت درج ہے: ’’قانون نافذ کرنے والے ادارے مذکورہ منصوبہ جات کی عملدرآمدگی میں ناکام رہے ہیں، اور اب لاہور نے ایک ایسی جغرافیائی شکل اختیار کرلی ہے جس کی کسی کو توقع نہيں تھی۔ لاہور کو جنوب کی طرف رائیونڈ تک (ملتان روڈ اور فیروزپور روڈ کے درمیان) بڑھنا تھا، اور فیروزپور روڈ سے آگے مشرق میں واقع علاقے کو زرعی علاقہ قرار دیا گیا تھا، جہاں ہر قسم کی تعمیری سرگرمی کی ممانعت تھی۔ تاہم ان منصوبہ جات کے برخلاف، پچھلے چند سالوں میں فیروزپور روڈ کے مشرقی حصے (یعنی منجمد یا ممنوعہ علاقہ جات) میں بھی ترقی نظر آرہی ہے۔‘‘
اس کے علاوہ پچھلی تین دہائیوں میں لاہور کی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق لاہور کی آبادی 1.1 کروڑ تک جا پہنچی ہے، یعنی 1998ء میں جب پچھلی دفعہ مردم شماری کی گئی تھی، اس وقت سے اب تک لاہور کی آبادی میں 117 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے اس مردم شماری کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا ہے، لیکن اس بات سے انکار نہيں کیا جاسکتا ہے کہ لاہور واقعی بہت وسیع ہوچکا ہے، اور اب اس بڑھتی ہوئی آبادی کو انفراسٹرکچر مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت نے اس بڑھتی ہوئی آبادی کو انفراسٹرکچر فراہم کرنے کے لیے اورنج لائن، میٹروبس، نہر کو چوڑا کرنے اور سگنل فری کوریڈ و رز تعمیر کرنا شروع کیے ۔ نہر کو چوڑا کرنے یا لاہور رنگ روڈ کے پراجیکٹ کے لیے شہر میں گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ اور لاہور کے کنارے تعمیر ہونے والی ہاؤسنگ سوسائیٹوں کی ضروریات کو جواز بنا کر پیش کیا گيا، لیکن ناقدین کا کہنا تھا کہ ان منصوبہ جات کی تکمیل میں حکومت کو ہریالی اور درختوں میں کمی نہیں لانی چاہیے تھی۔
نیشنل کالج آف آرٹس کی ایسوسی ایٹ پروفیسر رابعہ ایزدی کا کہنا ہے کہ لاہور کے رقبے میں اضافے کا شہرکاری یا شہر کی آبادی میں اضافے کے ساتھ کوئی تعلق نہيں ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’یہ ہاؤسنگ سوسائیٹیاں صرف شہر کے امیروں کے لیے بنائی گئی ہیں، اور نہ تو ان سے شہرکاری یا بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل حل ہوں گے، اور نہ ہی ان کا ان سے کوئی تعلق ہے۔‘‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ شہری منصوبہ بندی کو کاروباری نظریے سے دیکھا جاتا ہے، اور کسی طویل المیعاد منصوبے پر نہيں بلکہ پراجیکٹ کی طرح کام کیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہيں ’’زمین سونے کی طرح قیمتی ہوتی جارہی ہے۔‘‘اس کے علاوہ، وہ درختوں میں کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والے دوسرے مسائل کے بارے میں بھی بات کرتی ہيں، جن میں اربن ہیٹ آئی لینڈ افیکٹ (urban heat island effect) سرفہرست ہے۔ کنکریٹ اور سڑکیں گرمی جذب کرتی ہیں، جس کی وجہ سے پورے شہر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس بات سے انکار نہيں کیا جاسکتا ہے کہ شہروں میں ہریالی اور درختوں کی تعداد میں اضافہ کرنے سے آلودگی اور ہیٹ آئی لینڈ افیکٹ کا مقابلہ ممکن ہوگا، جس سے گرمی اور آلودگی دونوں ہی میں کمی ہوگی۔ حکومت کی کئی پالیسیوں میں، جن میں پنجاب کے محکمہ ماحولیاتی تحفظ کی صاف ہوا کی پالیسی شامل ہے، سموگ کا مقابلہ کرنے کے لیے شجرکاری کی تجویز کی گئی ہے۔
2015ء میں پاکستان جرنل آف میٹرولوجی میں شائع ہونے والے ایک مطالعے میں جی آئی ایس امیجنگ کی مدد سے زمین کی سطح کے درجہ حرارت پر زمین کے استعمال کے اثرات پر نظر ڈالی گئی، جس میں گیلانی کی سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر کی طرح ضلع لاہور پر تحقیق کی گئی ہے۔ اس مطالعے کے ذریعے محققین کو یہ بات معلوم ہوئی کہ ’’لاہور کے رقبے میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 2011ء میں شہر میں تعمیرات کی شرح 2000ء کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ تھی۔‘‘
تعمیرات کی اعلیٰ کثافت اور کم کثافت سے مراد شہر کے وہ مراکز ہیں جن میں شہر کے کنارے واقع علاقہ جات کے مقابلے میں زیادہ عمارتیں موجود ہیں۔ اس مطالعے کے ذریعے یہ بات بھی سامنے آئی کہ 2000ء میں لاہور میں موسم گرما کا درجہ حرارت 32.71 ڈگری سنٹی گریڈتھا، جبکہ 2011ء میں یہ درجہ حرارت بڑھ کر 33.44 ڈگری سنٹی گریڈ ہوگیا، جس کا مطلب ہے کہ درجہ حرارت میں مجموعی طور پر 0.73 ڈگری سنٹی گریڈاضافہ ہوا ہے۔
لاہور کے متعلق ایک اور مطالعے کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ درختوں سے نہ صرف درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے، بلکہ آلودگی میں بھی کمی ممکن ہوسکتی ہے۔ اس مطالعے کے مطابق تنہا درختوں کے بجائے درختوں کے جھنڈ زيادہ موثر ثابت ہوں گے۔ اس کے مصنفین نے اپنی بات ثابت کرنے کے لیے اعلیٰ آبادی کی کثافت رکھنے والے ایک علاقے ميں واقع ناصر باغ کی مثال بھی پیش کی ہے۔ محکمہ تحفظ ماحولیات (Environment Protection Department – EPD) کے ڈائریکٹر نسیم الرحمان شاہ بتاتے ہيں کہ پنجاب حکومت نے صوبے میں ماحول دوست پالیسیوں کو فروغ دینے کے لیے کافی اقدامات کیے ہیں، جن میں شجرکاری بھی شامل ہے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ کی شجرکاری کے ایک منصوبے کی مثال پیش کی، جس کے تحت کسی بھی تعمیراتی پراجیکٹ کے اخراجات کا ایک فیصد حصہ ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے اور شجرکاری کے لیے وقف کرنا ضروری ہوگا۔
تاہم شاہ اعتراف کرتے ہيں کہ محکمہ تحفظ ماحولیات کی ذمہ داری صرف ضوابط اور پالیسی کی تشکیل تک محدود ہے۔ وہ کہتے ہيں ’’جب ہمیں نظر آتا ہے کہ کوئی شخص قانون کی پاسداری نہيں کررہا ہے تو ہم اسے ماحولیاتی ٹریبونل کے سامنے کھڑا کردیتے ہيں۔ ہمارا یہی کام ہے، محکمہ تحفظ ماحولیات ریگولیٹری باڈی ہے۔‘‘
لاہور میں شجرکاری کی ذمہ داری پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی (Parks and Horticulture Authority – PHA) پر عائد ہوتی ہے، جو تمام پارکس، سبز پٹیوں اور سبز قطعوں کے ذمہ دار ہیں۔ تاہم خان کا کہنا ہے کہ اس ادارے نے کبھی بھی اپنی ذمہ داری پوری طرح نہيں نبھائی، کیونکہ ان کا مقصد ماحولیاتی تحفظ نہيں تھا۔ وہ کہتے ہيں ‘‘پی ایچ اے کا مقصد صرف شہر کو خوبصورت بنانا تھا، اور ان کے لیے نایاب گھاس اور پھولوں کی کیاریاں لگانا زیادہ ضروری تھا۔’’ خان شہر کی خوبصورتی میں اضافے کے خلاف نہيں ہيں، لیکن ان کے مطابق پی ایچ اےکے دائرہ کار کو وسیع کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔
پی ایچ اےکی ویب سائٹ پر ان کے نصب العین میں واضح الفاظ میں درج ہےکہ ’’لاہور کی خوبصورتی میں اضافے کے لیے ہارٹی کلچر کے شعبے میں یکسانیت متعارف کرکے ضم کردہ طریقہ کار کی تشکیل۔‘‘ ان کا ذیلی مقصد پارکس اور سبز پٹیوں کی ترقی ہے۔
خان کہتے ہيں کہ پچھلے چند سالوں میں پی ایچ اے کے موقف میں کچھ حد تک تبدیلی آئی ہے، لیکن جو نقصان ہوچکا ہے، اس کی تلافی میں وقت لگے گا۔ املتاس، گل مہر اور شیشم جیسے کئی مقامی درختوں کو کاٹ کر ان کی جگہ پالم جیسے غیرملکی یا کونوکارپس جیسے تیزی سے بڑھنے والے درخت لگائے جاچکے ہیں۔
اگر لاہور کو گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنا ہے تو سبز قطعوں کو پروان چڑھانا، شہرکی ہریالی میں اضافہ کرنا، اور شہر میں زمینی پانی کی کمی کو برسات کے پانی سے پورا کرنے کے لیے مخصوص علاقے وقف کرنا نہایت ضروری ہے۔ پچھلے سال پاکستان میں موسم گرما کے درجہ حرارت نے کئی ریکارڈ توڑ ڈالے، اور اب درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی تک جا پہنچا ہے، اور یہ بات صاف واضح ہے کہ لاہور میں بھی درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ لاہور میں 2040ء تک زمینی پانی ختم ہونے کا بھی خطرہ ہے۔
کئی مطالعوں کے ذریعے یہ بات سامنے آئی ہے کہ شہرکاری، صنعت کاری اور زمین کی ترقی کی وجہ سے زمین کی نشونما کم ہوگئی ہے اور اب زمین کی پانی جذب کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ دوسرے ماہرین اس رائے سے اتفاق کرتے ہيں۔
خان اور ایزدی دونوں ہی کے مطابق اطراف موجود زرعی زمین کے اوپر، جس سےپانی کے ذخیرہ کو بھرا جاسکتا تھا، تعمیرات کی جاچکی ہے، اور اب لاہور میں کنکریٹ کم کرنے کی ضرورت شدت کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ایزدی ایم ایم عالم روڈ پر واقع ڈونگی گراؤنڈ کی مثال دیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اس کا مقصد برساتی پانی کو زمین میں جذب ہونے کا موقع فراہم کرنا تھا، لیکن اب اس پر بھی تعمیراتی کام شروع کردیا گيا۔
مقامی درخت لگانے کی اہمیت اس وقت اجاگر ہوتی ہے جب گلوبل وارمنگ کی بات کی جاتی ہے۔ زیادہ تر سر گرم کارکنان مقامی درختوں کی تعریف سے اتفاق کرتے ہیں، لیکن گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے ماہر نباتات اور پروفیسر ڈاکٹر امین الحق کے مطابق جن درختوں کو مقامی درخت سمجھا جاتا ہے، دراصل وہ درخت ہيں جنہيں انگریزوں نے دریائے راوی کے مغربی حصے سے لا کر یہاں لگایا تھا۔
اصل میں اس علاقے میں ایک کانٹے دار اور آہستہ بڑھنے والا درخت اگتا تھا، جسے رخس کہا جاتا ہے، جو آج بھی پرانے قبرستانوں میں اور شہر کے باہر نظر آتا ہے۔ خان کے مطابق یہ درخت نہ صرف لاہور کے خشک موسم کے لیے زیادہ موزوں ہے، بلکہ خشک سالی کا بھی بہتر طور پر مقابلہ کرسکتا ہے۔
وہ کہتے ہيں ‘‘نظام آبپاشی کے متعارف ہونےسے پہلے، لاہور ملتان اور دوسری جگہوں کے بہت قریب تھا، اور یہ دریائے راوی کے مشرقی حصوں میں واقع امرتسر اور جالندھر جیسی جگہوں سے بالکل مختلف تھا۔’’ وہ مزيد بتاتے ہيں کہ پیپل جیسے درخت صرف کنوؤں اور اس قسم کی دوسری جگہوں کے پاس پائے جاتے تھے کیونکہ انہیں پانی کی ضرورت ہوتی تھی، اور یہ صرف نہر بننے کے بعد ہی زيادہ نظر آنے لگے۔
ان کے مطابق اس کا ہرگز یہ مطلب نہيں ہے کہ پیپل، شیشم اور بوار جیسے درخت نہ لگائے جائيں، لیکن ان درختوں کو محفوظ رکھنا بھی بہت ضروری ہے جو اس شہر کی موجودہ حالت سے بھی پہلے سے موجود تھے۔ وہ کہتے ہيں ‘‘اگر نظام آبپاشی ختم ہوجائے تو یہ درآمد شدہ درخت بھی نہيں رہيں گے۔’’خان کے مطابق کانٹے دار رخس اس وجہ سے بہت اہم ہے کیونکہ ‘‘اگر کوئی آفت پڑ جائے تو صحرا میں اگنے والے یہی درخت آپ کے کام آئيں گے۔ ہم مختلف علاقوں میں انہيں بچانے کی کوششیں کررہے ہیں۔‘‘
خان بتاتے ہيں کہ دریائے راوی کے اس پار غیرملکی درخت متعارف کرنے کا سلسلہ سامراج میں شروع ہوا تھا، لیکن حال ہی میں نئی اقسام کے درخت دوبارہ درآمد کیے جارہے ہیں۔ یہ درخت اسی قسم کے ماحول میں پروان چڑھتے ہيں لیکن ان کا تعلق برصغیر سے نہيں ہے۔ ان میں سے ایک درخت بہت تیزی سے بڑھنے والا کونوکارپس ہے، جو ملک بھر میں شجرکاری کی مہموں میں بہت مقبول ثابت ہورہا ہے۔
خان بتاتے ہیں کہ کونوکارپس ان میں سب سے کم نقصان دہ قسم کا درخت ہے۔ ان کے مطابق پیپر ملبری جیسے درخت تیزی سے بڑھتے تو ہیں، لیکن ان سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہيں ’’ان درختوں میں کانٹے زیادہ ہونے کی وجہ سے انہيں کاٹا نہيں جاتا ہے، اور محکمہ جنگلات انہيں سیٹلائٹ کی تصویروں میں ہریالی کے طور پر بھی ظاہر کرسکتے ہيں۔‘‘خان کے مطابق، ہمیں اس قسم کے درختوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
خان کہتے ہيں کہ بات صرف لاہور کی ہریالی کی نہيں ہے۔ ان کے مطابق درختوں کا ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں بہت اہم کردار ہوگا اور خشک سالی یا شدید موسم کی صورت میں کانٹے دار رخس ہی ہمارے کام آئيں گے۔
تحریر: ایمل غنی لاہور سے تعلق رکھنے والی فری لانس صحافی ہیں۔